اسٹیج سے اتحاد کی اپیل اور کلاسیز میں انتشار کا درس یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے؟دارالعلوم دیوبند میں مسلمانوں کے خلاف مناظرہ بازی۔کیا یہی اسلام کی تعلیم ہے؟ عبدالغفارصدیقی
ملک کے موجودہ حالات سے کون ناواقف ہے؟ایک ان پڑھ دیہاتی مسلمان بھی جو ذرا سی شدھ بدھ رکھتا ہے اسے حالات کی سنگینی کا کچھ نہ کچھ احساس ضرور ہے۔ہندوستانی مسلمانوں پر ہندتوا کا خطرہ منڈرا رہا ہے۔نئی نسلوں میں ارتداد بڑھ رہا ہے۔مسلم لڑکیوں کی غیرمسلم لڑکوں سے شادی یا لیو ان ریلشن شپ کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ان حالات سے نکلنے کے لیے ہر اسٹیج سے قائدین مسلمانوں کو اتحاد کی دعوت دے رہے ہیں۔ہر کسی کا یہی تجزیہ ہے کہ ملت منتشر ہے اسی لیے مختلف مسائل سے نبرد آزما ہے۔ہر جماعت اور تنظیم چاہتی ہے کہ مسلمان متحد ہوجائیں۔ مذہبی رہنما،سیاسی لیڈر،سماجی کارکن،شعرا ء،ادیب سب کی زبان پر ایک ہی بات ہے،ہر جلسہ اور پروگرام میں ایک ہی پیغام ہے کہ ہم سب متحد ہوجائیں۔یہ بات ہم تقریباً گزشتہ دوسوسال سے کہہ اور سن رہے ہیں،ہماری کئی نسلیں یہی کہتے اور سنتے اپنی قبروں میں جاپہنچیں۔کتنے ہی قائدین یہی تمنا لیے آخرت سدھار گئے۔بلا مبالغہ لاکھوں تقریریں،ہزاروں لیکچرس ہوئے اورسیکڑوں کتابیں اسی موضوع پر لکھی گئیں۔لیکن ”مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔“
مرض میں اضافہ کی اصل وجہ ہماری منافقانہ ذہنیت ہے۔اتحاد کا پیغام دینے والوں کی اکثریت یا تو بے شعوری میں یا منافقانہ ذہنیت سے اتحاد کا نعرہ لگاتی رہی ہے۔میں یہ بات محض مفروضہ کی بنا پر نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ میرا ایمان ہے کہ ”اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔حدیث“ اور اللہ تعالیٰ اپنے محبوبؐ کی بات کو کبھی گرنے نہیں دے گا۔اگر اتحاد کی بانگ لگانے والے واقعی مخلص ہوتے تو یقینا مسلمان کبھی کے متحد ہوگئے ہوتے۔لیکن ان کی زبان پر اتحاد اور اجتماعیت کے ترانے اور دل و دماغ میں انتشار ومنافقت کے شعلے ہیں۔
گزشتہ دنوں دارالعلوم دیوبند میں طلبہ کے درمیان ایک مناظرہ کا انعقاد کیا گیا جس کا مرکزی موضوع ”فرقہ ئ مودودیت“ کی گمراہیاں اجاگر کرنا تھا۔اس موضوع کو بیس بائیس نکات میں تقسیم کیا گیا تھا۔اس کی صدارت حضرت مہتمم صاحب فرمارہے تھے اور دیگر عزت مآب اور قدوسی صفات بزرگ اس مناظرہ میں مختلف حیثیتوں سے شریک تھے۔یہ پوسٹر کسی نے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردیا جو خوب وائرل ہوا۔بیشتر صارفین کی رائے تھی کہ موجودہ حالات میں اس طرح کے موضوعات پر مناظرہ بازی نہیں ہونا چاہئے،ایک بڑی تعداد نے مودودیت کی حمایت میں بھی بہت کچھ لکھا۔پوسٹر کی حمایت میں شاذ و نادر ہی کوئی کمینٹ آیا۔مہہتم صاحب کی وضاحت کے مطابق ”چونکہ طلبہ مودودیت سے متاثر ہورہے تھے اور منع کرنے کے باوجود مولانا مودودی کی کتابیں پڑھ رہے تھے۔اس لیے مناظرہ کرایا گیا۔“
دارالعلوم دیوبند اور اس جیسے دوسرے تعلیمی اداروں کے نصاب تعلیم میں ’فِرَقِ ضالہ‘ کے عنوان سے انتشار و فرقہ پرستی کی تعلیم اور عملی مشق شامل ہے۔سب جانتے ہیں کہ دارالعلوم دیوبند دیوبندی فکر کا نمائندہ ادارہ ہے۔اس کی بات پورے دیوبندی مکتب فکر کی بات سمجھی جاتی ہے اور ہے بھی تقریباً یہی کہ صدائے دیوبند کی تائید علمائے دیوبند کی اکثریت کرتی ہے،تردیدی بیان تو کسی کا شائع نہیں ہوتا۔ایسا نہیں ہے کہ صرف دیوبندی اداروں میں ہی یہ مناظرہ بازی ہوتی ہو،بلکہ اہل سنت و الجماعت کا ٹیگ لگانے والے بریلوی اداروں میں بھی جو کتابیں پڑھائی جاتی ہیں اس میں مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا رشید احمد گنگوہیؒ اورمولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ جیسی شخصیات کو کافر کہا گیا ہے۔خود کو اہل حدیث کہنے والے اور نام کے ساتھ محمدی کا لاحقہ لگانے والوں کا حال بھی یہی ہے۔گزشتہ دنوں ڈاکٹر ذاکر نائک اور ڈاکٹر اسرار احمد کے تعلق سے اسی قبیل کے مناظرے ان کی جانب سے بھی منعقد کرائے گئے تھے۔یہ جتنے بھی مکاتب فکر یا فرقے ہیں اپنے علاوہ دوسروں کو گمراہ،زندیق اور کافر قرار دیتے ہیں۔ایک دوسرے کی مخالفت پر مبنی افکار و نظریات ان کے نصاب تعلیم کا حصہ ہیں۔اب آپ ہی بتائیے کہ جب ایک طالب علم اپنے مدرسہ سے نفرت و تعصب پر مبنی تعلیم لے کر سماج میں نکلے گا تو وہ کس طرح اتحاد قائم کرسکے گا؟-
بچہ کو جو تعلیم اسکول،کالج اور مدرسہ میں ملتی ہے وہ اسی پر کامل یقین رکھتا ہے،بچہ اپنے استاذ کی بات کو اپنے والدین کی بات پر ترجیح دیتا ہے۔اس کے نزدیک اس کے اساتذہ ہی سچے ہیں۔یہ جو دوسو سال سے ہم آپس میں نبرد آزما ہیں اس کی پشت پر مناظرہ بازی کا یہی عنصر ہے۔معاف کیجیے گا جب تک نصاب تعلیم میں یہ عنصر شامل رہے گا اس وقت تک ہندوستانی مسلمان متحد نہیں ہوسکتے۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ ملت متحد ہوتو مناظرہ کے اس شعبہ کو بند کرکے شعبہ اتحاد قائم کیجیے۔آپ طلبہ کو قرآن و حدیث اور فقہ کی تعلیم دیجیے،ان کے اندر حق و باطل کو پہچاننے کی صلاحیت او ر اچھے برے کی تمیز کا شعور پیدا کردیجیے۔باقی کام خود طالب علم پر چھوڑ دیجیے وہ اپنے مطالعہ و تحقیق اور عملی زندگی میں مشاہدات و تجربات سے خود فیصلہ کرے گا کہ کس کے پاس کتنا حق ہے؟-
دین کے بیشتر قلعوں میں نقب زن مسند نشین ہیں۔جبہ و دستار کے جسم میں منافق دل دھڑک رہا ہے۔واعتصموا بحبل اللہ جمیعا اولا تفرقوا (اللہ کی رسی کو سب مل کر تھام لو اور فرقہ فرقہ نہ ہوجاؤ۔آل عمران 103)کی تلاوت کرنے والے فرقہ بندی کو ہوا دے رہے ہیں۔سفید پوش اور سفید ریش افراد کے ذریعہ ملت کو منتشر کرنے کے سیاہ کارنامے انجام دیے جارہے ہیں۔ملت کے اجتماعی پلیٹ فارموں پر اتحاد کا جھوٹا مظاہرہ ہورہا ہے۔زکاۃ و امداد کے اربوں روپے سے معصوم ذہنوں کو مسموم کیا جارہا ہے۔احادیث کی بنیاد پر اختلاف آراء کو عداوت کی بنیاد بنایا جارہا ہے۔ایک باہوش مسلمان جب علماء دین کی یہ تصویر دیکھتا ہے تو اس کے دل میں اسلام کو دین برحق ماننے کے سلسلہ میں تردد پیداہوتا ہے،اس کے ذہن میں ریب و تشکیک کے جراثیم جنم لیتے ہیں۔
اسلام کی تعلیم کے مطابق انسانوں کی تین قسمیں ہیں۔ایک وہ انسان جو اللہ اور اس کے رسول کو تسلیم کرتے ہوئے ان کی تعلیمات کو مانتا اور ان پر عمل کرتا ہے۔دوسرا وہ جو اللہ اور رسول کے وجود یا ان کے برحق ہونے کا انکار کرتا ہے،تیسری قسم ان لوگوں کی ہے جو اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے ہیں۔پہلی قسم کے تمام لوگ مسلم ہیں،دوسری قسم کے افراد کافر ہیں اور تیسری قسم کے لوگ مشرک ہیں۔انسانوں میں رایوں کا اختلاف ہمیشہ سے رہا ہے۔دور نبوی میں بھی صحابہ کرام ؓ بعض موضوعات پر مختلف رائے رکھتے تھے،دور صحابہ اور اس کے بعد بھی یہ کیفیت رہی۔لیکن ہر دور میں ایمان مفصل کا اقرار کرنے والے آپس میں اختلاف رائے کے باوجود مسلم ہی کہلائے گئے۔ ان کے درمیان کبھی عداوت اور دشمنی کا رشتہ نہیں رہا۔اس سے بڑا اختلاف کیا ہوگا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ معوذتین کو منزل من اللہ تسلیم کرنے کے باوجود وحی متلو میں شمار نہیں کرتے تھے۔لیکن کسی نے ان پر تکفیر یا گمراہی کا الزام نہیں لگایا۔ہمارے شرعی احکام میں جو مشہور چار مسلک،حنفی،شافعی،حنبلی اور مالکی وجود میں آئے اور ان میں جو اختلاف رائے واقع ہوا ہے وہ سب اسی وجہ سے تو ہے کہ کسی کے پاس کوئی حدیث پہنچی ہے اور کسی کے پاس کوئی،یا کسی نے کسی حدیث کو معتبر مانااور کسی نے دوسری حدیث کو،حالاں کہ ان سب احادیث کے اول راوی صحابہ کرام ؓ ہی ہیں۔لیکن کسی محدث،یا فقیہ نے اپنے علاوہ دوسرے محدثین و فقہاء کو کافر اور گمراہ قرارنہیں دیا ۔
سوال یہ بھی ہے کہ موجودہ حالات میں جب کہ ہم کفر کے نرغہ میں ہیں۔ہمیں مٹانے کی پالیسی بنائی جارہی ہے،مسجدیں،خانقاہیں،اوقاف وغیرہ پر نظر بد ہے۔لاؤڈ اسپیکر سے اذان دینے،عوامی مقامات پر نماز پڑھنے،خواتین کو حجاب پہننے پر پابندی لگائی جارہی ہے۔تبلیغ و دعوت کا کام کرنے والے پابند سلاسل کیے جارہے ہیں۔الکفر ملۃ واحدہ کے تحت اہل کفر اپنے بنیادی اختلافات کو بھول کر آپس میں گلے مل رہے ہیں۔ہر سمت سے جے شری رام کا ”اُدگھوش“ ہورہا ہے اور ہم ایک خدا،ایک رسول،ایک کتاب اور ایک قبلہ کو ماننے والے آپسی اختلافات کو ہوا دے رہے ہیں۔
اگر علمائے دیوبند کے نزدیک جماعت اسلامی،بریلوی،شیعہ اور اہل حدیث گمراہ،زندیق یا کافر ہیں تو ان کو مسلم پرسنل لا ء بورڈ، مجلس مشاورت،ملی کونسل وغیرہ جیسے ملی اداروں کی ممبری اور ذمہ داریاں کیوں دے رکھی ہیں؟اسی طرح ان لوگوں کو حرمین میں داخلہ کی اجازت کیوں ہے؟مولانا مودودی ؒ کو عالم اسلام کا شاہ فیصل ایوارڈٖ کیوں دیا گیا تھا؟ ان کویہ ایوارڈ سماجی خدمت یا سائنسی تحقیق کی بنا پر نہیں دیا گیا تھا بلکہ دین کی عظیم خدمت کے اعتراف میں دیا گیا تھا،کسی غیرمسلم ادارے نے نہیں دیا تھا بلکہ خادم حرمین نے دیا تھا۔اس ایوارڈ کا آغاز ہی سید مودودی ؒ سے ہوا تھا۔کیا ان قدوسی صفات بزرگوں کو اللہ کا ذرا بھی ڈر نہیں ہے۔وہ عظیم شخصیت جس کو دینی خدمات کے سلسلہ میں عالم اسلام کا سب سے بڑا ایوارڈ ملا ہو،جس شخصیت کو ختم بنوت کی حمایت کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی ہو،جس کی برپا کی ہوئی تحریک نے ایوان باطل میں لرزہ پیدا کردیا ہو،جس پر کفر نے پابندیاں لگائی ہوں۔حیرت ہے کہ آپ اسی شخصیت کی کردار کشی کررہے ہیں۔ اس کی تحریروں میں تحریف کرکے بچوں کو گمراہ کررہے ہیں،اس پر جھوٹے الزامات لگارہے ہیں،کیا آپ کو خدا کی عدالت سے بالکل ڈر نہیں لگتا؟۔
قارئین کرام: خطا صرف علماء کی ہی نہیں ہماری بھی ہے،ہم نے انھیں فرشتہ سمجھ رکھاہے،ان کی ہر بات پر آمنا اور صدقنا کہہ رہے ہیں۔ میں پوچھتا ہوں کہ کیا آپ مدرسوں کی امداد اسی لیے کررہے ہیں کہ وہاں سے وہ لوگ پیدا ہوں جو مسلمانوں کو فرقوں اور گروہوں میں تقسیم کرکے کمزور کردیں،جو اہل ایمان کو کافر بنائیں،جو چیخ چیخ کر اغیار کو گالیاں دیں۔میرا خیال ہے کہ آپ میں سے کوئی بھی علماء دین اورمدرسوں کی مدد اس لیے نہیں کرتا۔بلکہ آپ میں سے ہر کسی کی خواہش ہے کہ دنیا میں اللہ کا نظام قائم ہو۔مسلمانوں کے اندر محبت پیدا ہو،ان کے وزن میں اضافہ ہو،یہ حکمرانی کے مقام تک پہنچیں۔اگر مدرسوں سے مطلوبہ مثبت نتائج کے بجائے منفی نتائج پیدا ہورہے ہیں تو پھر مدد کرنے والے بھی اللہ کے یہاں جواب دہ ہوں گے۔