تحریر:مشتاق نوریؔ
صحیح بخاری کی کتاب الجھاد والسیر کی رقم حدیث ۳۰۳۸ ہے جب نبیﷺ حضرت معاذ بن جبل و حضرت ابو موسی اشعری کو یمن کے سفر تبلیغ پر بھیج رہے تھے۔فرمایا "یسراولاتعسرا، بشرا ولاتنفرا، تطاوعا ولاتختلفا”۔اس حدیث کے مفہوم و مطلوب پر غور کریں۔دعوت و تبلیغ، ارشاد و اصلاح کی مہم کو مفید مؤثر مقبول بنانے میں اساسی حیثیت کی حامل ہے۔قرآن نے سورۂ نحل میں دعوت کی حکمت و حسن موعظت کا ذکر کرتے ہوئے اور پیاری بات کہی ہے "وجادلھم بالتی ھی احسن” یعنی مدعو سے بحث و مباحثہ بھی کرو تو وہ بہتر طریقے پر ہو۔کیوں کہ کون راہ سے بھٹکا ہوا ہے کون ہدایت پر ہے رب اسے خوب جانتا ہے۔اسی طرح سورہ عنکبوت میں بھی فرمایا "ولاتجادلوا اھل الکتاب الا بالتی ھی احسن”۔
ایک دور تھا کہ مذہبی حلقے نے قرآن کے جدال احسن سے ہٹ کر مناظرہ، مکابرہ و مخاصمہ کلچر کو خوب پروان چڑھایا۔اس کے لیے لٹریچرز لکھے گئے، اسٹیج تیار ہوۓ، پوسٹر بازیاں ہوئیں۔مگر نتیجہ خاطر خواہ برآمد نہ ہوۓ۔حد تو یہ ہوئی کہ مناظرہ بے نتیجہ ختم ہونے کے باوجود طرفین نے اپنی اپنی فتح کا اشتہار بھی کیا۔جب کہ یہ تلخ سچائی ہے کہ مناظرہ مزاجی رویے سے دین و سنیت کے فروغ میں رکاوٹیں بھی آئیں۔
آج ہزار لاینحل و ناگزیر مسائل منہ پھاڑے کھڑے پیں۔تبلیغ و اصلاح اور دعوت و ارشاد، قبول کرنے کے لیے خلق خدا منتظر بیٹھی ہے۔ایسے میں مسلکی رن چھیڑنا،حلقہ بندی کی جگاڑ میں سوکھ کر کانٹا ہوجانا،نچلے پائدان کے علما کا اپنے اپنے پیر خانے و درس گاہ کے نام پر باہم دست بہ گریبان رہنا مزید مسائل پیدا کرتے ہیں۔مذکورہ تینوں چیزیں منفی نفسیات کی عکاس ہیں۔ایسی سوچ سے نہ مسلک کا بھلا ہوگا نہ اہل حلقہ کا۔ہوا پرستی اور حب جاہ و زر کی چڑیل کسی پر مہربان ہو جاۓ تو ان سے دین و سنیت کے کام کی توقع فضول ہے۔کیوں کہ پیسوں اور عہدوں کی چاہ سے خلوص کو زنگ لگ جاتا ہے۔نیک خواہشات کی بلی چڑھ جاتی ہے۔ترسیل دین کا خذبہ ماند پڑ جاتا ہے۔ایسے میں لگائی بجھائی، تملق کیشی، خوشامد پسندی، تلون مزاجی، عصبیت، تشدد، گروہیت،تفرقہ بازی جیسے منفی احساسات کے زیر اثر آدمی خود تو آپے سے باہر ہوتا ہی ہے، دوسرے کو بھی دین و سنیت سے باہر کرنے کو عین دین تصور کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
آج ہر کسی کو اپنی بات منوانے کی ضد ہے۔آج ہر کوئی اپنی سلیکٹیو من موافق دلائل کی بنیاد پر خود کو ہادی و مہدی اور دوسرے کو ضال و مضل سمجھ رہا ہے۔کمال یہ نہیں کہ آپ کے پاس خدا کے ایک ہونے کی درجنوں دلائل ہیں۔کمال تو یہ ہے کہ آپ کے پاس چند دلیل ہوں مگر آپ کے حسن تکلم، داعیانہ وعظ، مصلحانہ پیش کش اور نبوی طریقۂ تخاطب مد مقابل کو قائل کر جائیں۔آپ قرآن کی آیت ہی کیوں نہ سنائیں اگر اس میں کسی کو ٹارگٹ کرنے،طعن و تشنیع و لعنت ملامت کی ذرا بھی منفی آمیزش ہو تو پھر وہ نہ صرف بے اثر ہے بلکہ رد و انکار کے رد عمل کے نشانے پر بھی ہے۔
آج ہند کے مذہبی حالات بہت ہی دگر گوں ہیں۔ہم لوگ سمجھ بیٹھے ہیں کہ سالانہ جلسے کانفرنس کر کے گھن گرج خطابات کروا لو عوام کے عقیدے و ایمان کی حفاظت ہو گئی۔نئے ڈیزائن کے ملبوسات والے اہل کلاہ و ریش سمجھ رہے ہیں کہ حلقۂ ارادت میں جا کر ایک لمبی دعا کر دو اور نذرانہ جیب میں رکھ کر واپس چل دو، عوام کی دینی و روحانی تربیت ہو گئی۔ہماری انہی غیر ذمے دارانہ طرز تبلیغ کے سبب زمینی حقائق اتنے خطر ناک روپ لے چکے ہیں کہ انہیں بنانے سنوارنے میں ۵۰؍ سال کا عرصہ درکار ہے۔تب بھی شاید نہ بن پائیں۔
آج ہم بڑے بڑے اسٹیج سے مسلک کے قبول و رد پر تقریری منشور جاری کرتے ہیں۔بعض اہل خانقاہ منشور کے رد میں کہیں کھل کر تو کہیں ڈھکے چھپے الفاظ میں اپنی ڈفلی پر اپنا راگ چھیڑ بیٹھے ہیں۔ایک ایسے شعلہ زن ماحول میں جب عوام اہل سنت کی ایک بڑی تعداد ہنوز دین و سنیت کی ضروری چیزوں سے ناواقف ہے، بلکہ پاکی ناپاکی، حلال و حرام، واجبات و فرائض نماز سے یکسر غافل، بلکہ بعض تو ایسے بھی ہیں کہ جمعہ بھی پڑھ لیتے ہیں اور پوجا بھی کر لیتے ہیں، علما و مشائخ کا ہائی وولٹیج مسائل پر جنگ و جدال کرنا کہیں سے بھی مناسب و موزوں نہیں لگتا۔
پچھلے ایک ہفتے کے اندر مجھے دو مختلف گھروں میں فاتحہ شریف کے لیے جانا ہوا۔پہلے گھر میں دیکھا کہ گاے کے گوبر سے پورے گھر کو لیپا گیا ہے۔گوبر کی اٹھتی بدبو سے سمجھنا مشکل نہیں تھا کہ ابھی آدھا ایک گھنٹہ قبل لیپا گیا ہے۔اسی پر چٹائی بچھائی اور مجھے بیٹھ کر فاتحہ کے لیے کہا۔میں نے انکار کیا۔گھر کی خاتون کہنے لگی حضرت اسی گوبر سے گھر لیپتے لیپتے میں بوڑھی ہو گئی۔یہ سن کر مجھے مزید صدمہ ہوا کہ اس بے چاری عورت نے پہلے بھی فاتحہ کروائی ہوگی مگر نہ جانے کس عجلت میں ہمارا کوئی مبلغ مزاج مخلص عالم دین نے اسے سمجھایا نہیں ہوگا۔میں نے گوبر اور اس کے پیچھے کی بندھی عقیدت پر چند منٹ کا وعظ کیا۔اور وہ سمجھ گئی، آگے سے ایسا نہ کرنے کا وعدہ بھی کیا۔
ابھی کل کی بات ہے۔نئے گھر کے افتتاح کے موقع سے ایک لڑکے نے مجھے فاتحہ کی دعوت دی۔مجھے لینے آیا۔فاتحہ ہوئی۔اس درمیان اس کے معمر والد کی حرکتیں عجیب دیکھیں۔میرے ساتھ مسجد کے خادم بھی تھے۔میں نے ان سے پوچھا تو کہا حضرت چھ ماہ پہلے بڑے نمازی تھے ایک وقت کی نماز قضا نہیں کرتے تھے۔ادھر منٹیلیٹی چینج ہو گئی ہے۔پھر میں نے حقیقت حال دریافت کرنے کے لیے ان کے بھتیجے کو بلایا،اس نے کہا کہ اب تو روز علی الصباح ان کے موبائل پر ہنومان چالیسا یا کوئی بھکتی بھجن ہی بجتا ہے۔رات کو سوتے وقت بھی وہی۔
یہاں دو بات قابل غور ہیں کہ آخر اتنا طویل عرصہ گزرنے کے بعد بھی اس بوڑھی خاتون تک دین کا پیغام پہنچانے میں ہماری تبلیغ و اصلاح کی تمان تر مساعی مہم کیوں ناکام رہی؟ایک اچھا خاصا نمازی جو قرآن کی آیات پڑھتا سنتا تھا اچانک بھجن سننے لگا آخر اس کی سوچ کیوں کر بدلی؟ دوسری بات یہ کہ دونوں کیس کے متعلق افراد کسی نہ کسی پیر صاحب سے منسلک ہیں۔
ان جیسے لاکھوں لوگ ہیں جن کو آپ کے ایجنڈے سے، آپ کے منشور سے آپ کے فتوے سے دس فیصد کا بھی کوئی سروکار نہیں۔آپ بڑے بڑے مسائل پر جنگ چھیڑییے مگر ملک کے اندر ایسے ضعیف الاعتقاد لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔مراسم شرکیہ و افکار الحاد دو سو کی اسپیڈ میں ہمارے اندر گھس رہی ہیں یہ ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔افراد امت کو گمراہ ہونے یا کفر میں ڈوبنے سے بچانا ہماری دینی ترجیحات کا حصہ ہے۔کہا جاتا ہے کہ سو گنہگار چھوٹ جائیں کوئی بات نہیں مگر ایک بے گناہ کو سزا نہیں ہونی چاہیے۔کسی پر اپنا ایجنڈا نافذ العمل بنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ ہم ایسے متأثرہ علاقے کو نشان زد کر کے ان کے عقیدہ و عمل کی اصلاح پر حتی الوسع کام کریں۔ضروریات دین اور ضعف اعتقاد کا مطلب سمجھانے کی کوشش کریں۔ "کلموا الناس علی قدر عقولھم و لا علی قدر عقولکم” کا لحاظ کرتے ہوئے ہلکے سادے لب و لہجہ میں شریعت پہنچانا دین کے سپاہی علما و صوفیا کا فرض منصبی ہے۔اور یہ کام ہمیں پورے اخلاص کے ساتھ کسی حرص و ہوس سے خالی ہو کر کرنا ہوگا ورنہ حالات قابو سے باہر جائیں گے۔
جماعت کے دعاۃ و مبلغین کے اندر یہ خامی ہے کہ کہاں کس موضوع کو لینا ہے کسے کیا سمجھانا ہے اسے سیریس لیتے ہی نہیں۔ہمارے درمیان عصریات سے منسلک مٹھی بھر لوگوں کی ایک جماعت بھی ہے جس کے دماغ میں دین و سنیت کو لے کر کئی طرح کے خلجان و وساوس پنپ رہے ہیں۔ابھی ۱۳ تاریخ کی فجر بعد میرے ایک مقتدی جو پیشے سے سرکاری انجینئر ہے اور سنی صحیح العقیدہ ہے ڈاکٹر اسرار احمد (پاکستان) کا بڑا مداح ہے۔انہوں نے مسجد سے نکلتے ہوۓ کہا کہ امام صاحب پہلی رکعت میں آپ نے جو سورہ پڑھی ہے اس کا ترجمہ اور مختصر تفسیر سمجھا دیں۔میں نے الحمد للہ ترجمہ اور مختصر تفسیر بتائی۔اسی درمیان سورج اور زمین کے ساکت و حرکت پر بات چھڑ گئی۔کہنے لگے کہ حضرت سائنس نے قریب سے تجربہ، تجزیہ و مشاہدہ کر کے یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ زمین گھوم رہی ہے۔کیسے غلط ہو سکتا ہے۔میں نے اپنے ناقص مطالعہ کی حد تک انہیں سمجھانے کی پوری کوشش کی پھر بھی لگا مکمل مطمئن نہیں ہے۔یہ بھی کہا کہ اعلی حضرت نے با ضابطہ اس موضوع پر تفصیلی رسالہ تحریر فرمایا ہے۔میں اس پر مزید مطالعہ کر کے آپ کو بتاؤں گا۔
کوئی ۸ سال قبل، ایک اسکول کے مسلم معلم نے پوچھا کہ حضرت ہمارا پرنسپل کہ رہا تھا کہ چلو رام جی کرشن جی آپ کے دھرم کے مطابق پیغمبر نہیں ہیں مگر بدھ کو نبی ماننا چاہیے وہ اتنے بڑے امن و شانتی کے پرچارک تھے ایک ایشور کی مارگ درشن کرنے والے تھے۔انہیں کس بنیاد پر پیغمبر تسلیم نہیں کرتے؟افسوس کہ اس وقت بھی مجھ سے اس کا کوئی مسکت للخصم جواب نہ بن پڑا تھا۔سائنس و فزکس پڑھنے والوں کے دماغ میں ایسے کئی طرح کے سوال اٹھ رہے ہیں مگر انہیں درست رہنمائی کا ہمارے پاس کوئی بہتر سورس نہیں ہے۔
اس کا دوسرا رخ دیکھیے کہ کچھ دنوں پہلے میں اپنے گاؤں کی مسجد میں جمعہ کو گیا۔تو دیکھا کہ خطیب صاحب "قد جاءکم من اللہ نور و کتاب مبین” پر داد خطاب دے رہے ہیں۔نور کی تفسیری باریکیاں پیش کر کے نور سے مراد و مقصود پر لچھے دار گفتگو فرما رہے ہیں۔خطاب ختم کرنے سے قبل یہ بھی کہا کہ اگلے جمعہ کو "کتاب مبین” پر گفتگو ہوگی۔بعد جمعہ میں نے کہا حضرت یہاں ان چیزوں پر خطاب کا کوئی معنی نہیں ہے۔یہاں پچاس ساٹھ لوگ جمعہ کو آتے ہیں ان میں نوے فیصد ان پڑھ ہیں جنہیں سورہ فاتحہ بھی نہیں آتی۔دس فیصد میں نئے جنریشن کے اسکول کوچنگ جانے والے لڑکے ہیں یہ صرف ہندی انگلش ریاضی ہی پڑھتے ہیں۔دین شریعت کا علم زیرو ہے۔انہیں وضو و نماز کا ڈھنگ بھی نہیں۔ایسے میں نور اور کتاب مبین کی تفسیر سمجھانا کہاں کی دانش مندی ہے؟ آپ انہیں نماز سکھائیں۔دھان کا موسم ہے لوگ بڑی کاشت کاری کے باوجود زکوۃ نہیں نکالتے اس پر تفصیلی گفتگو کریں۔جناب نے تو مانا مگر اس پر عمل نہیں کیا۔