آہ! مولانا ریاض اسعد مظاہری بھی نہیں رہے
مفتی محمد قمرالزماں ندوی،جنرل سکریٹری: مولانا علاؤ الدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ
گذشتہ کل 20؍ستمبر بروز بدھ عصر کی نماز سے فارغ ہوکر حسب معمول اپنے فیملی کواٹر آیا اور قرآن مجید کی تلاوت میں مشغول ہوگیا، سورہ یسین کی تلاوت کر رہا تھا، درمیان میں موبائل اسکرین دیکھا، تو عزیزی حافظ محمد سہیل سلمہ لوبندا کا یہ میسج دیکھا کہ ”ابھی ابھی مولانا ریاض اسعد مظاہری صاحب کا انتقال ہوگیا۔“ استاذ محترم کی وفات کی خبر سن کر دل دھک سے رہ گیا اور فورا دعا مسنون انا للّٰہ وانا الیہ راجعون پڑھ کر دعا مغفرت کی اور اہل خانہ کو مطلع کیا، چوں کہ دیگر گروپ پر خصوصا دگھی گروپ پر ابھی تک یہ خبر نہیں آئی تھی، اس لئے تصدیق کے لیے کچھ لوگوں کو فون کیا انہوں نے خبر کی تصدیق کی اور یہ بھی بتایا کہ مولانا! دگھی میں اس عظیم عالم قاری اور حافظ قرآن کی تدفین مشکل ہے حالات یہی بتا رہے ہیں، اس خبر سے مزید دل کو جھٹکا لگا۔ بعد نماز مغرب عزیز گرامی قدر جناب مولانا شمس پرویز صاحب مظاہری سے رابطہ کیا اور دونوں نے ایک دوسرے کی تعزیت کی ، میں نے مولانا شمس پرویز سے کہا کہ آپ اس سلسلہ میں ان کے اہل خانہ برداران اور صاحبزادگان اور شاہ عالم عرف فتیا صاحب سے بات کیجئے ،انہون نے کہا کہ میری شاہ عالم صاحب صدر حلقہ لوبندا سے اس بارے میں بات ہوئی ہے، انہوں نے اطمینان دلایا ہے کہ جنازہ کی نماز اور تدفین دگھی میں ہوگی ۔مجھے اطمینان ہوگیا۔
مولانا کی وفات کا صدمہ تھا کہ رات تک مجھے کچھ تعزیتی کلمات لکھنے کی ہمت اور سکت نہ تھی، ہماری بڑی خالہ کا لوبندا سے عشاء کے وقت فون آیا کہ مولانا !جنازہ کی نماز اور تدفین لوبندا میں ہی ہوگی بات نہیں بن سکے گی۔ مولانا کے بارے میں اچھا سا مضمون موبائل پر لکھ دینا۔ رات کو استاد محترم مولانا تاج الدین صاحب سے، جو ان کے اچھے ساتھی اور رفیق و معاون رہے، ان سے گفتگو کی اور تعزیت کے بعد مولانا مرحوم کی زندگی کے بارے میں بہت کچھ معلومات حاصل کیں، تاکہ ان کی زندگی کے بارے میں لکھنا آسان ہوسکے، مولانا نے ان کی سرگزشت حیات کو کھول کر سامنے رکھ دیا۔
مولانا کی موت یقینا ایک حادثہ ہے اور جھارکھنڈ اور خصوصاً علاقہ سنتھال پرگنہ ایک جید عالم دین، ماہر خطیب اور ایک قابل منتظم سے محروم ہو گیا ۔ موت تو یقینی ہے! اس دنیا سے سب کو جانا ہے؛ کیوں کہ سب کو حیات مستعار ہی ملی ہے اور دنیا کا نظام اسی طرح بنایا گیا ہے۔ لیکن بعض موتیں ایسی ہوتی ہیں کہ اس کا صدمہ اور غم تادیر رہتا ہے اور جانے والی کی یادیں برابر ستاتی رہتی ہیں۔
موت اور زندگی کا فلسفہ سمجھنا بہت مشکل نہیں ہے؛ کیوں کہ یہ مشاہدہ کی چیز ہے اور سب کو اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک غیر مسلم شاعر نے موت اور زندگی کی حقیقت کو اپنے ایک شعر میں یوں بیان کیا ہے کہ:
زندگی کیا ہے عناصر کا ظہور ترتیب
موت کیا ہے انہیں اجزا کا پریشاں ہونا
اور کسی نے اس حقیقت کو یوں بیان کیا ہے:
کہانی ہے تو اتنی ہے فریب خواب ہستی کی
کہ آنکھیں بند ہوں اور آدمی افسانہ ہو جائے
لیکن جانے والا کبھی کبھی رخصت کے انمٹ نقوش اس انداز میں ثبت کرتا ہے کہ وقت کی گردشوں اور صبح و شام کی ہزار تبدیلیوں کے باوجود ،وہ نقوش دھندلے اور معدوم نہیں ہوتے۔ ایسی ہی ایک پرکشش، دلکش و دلنواز شخصیت معروف عالم دین، باصلاحیت استاذ اور جادو بیاں مقرر استاذ محترم حضرت مولانا ریاض اسعد مظاہری نور اللہ مرقدہ کی تھی۔ جو کل تقریبا پانچ بجے شام میں طویل علالت کے بعد اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
اللہ تعالی مرحوم کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔ آمین
متوسط قد و قامت معتدل جسم، سانولا لیکن ملاحت اور خوبصورتی لیے ہوا چہرا اور اس پر معصومیت کا نکھار ،مناسب داڑھی،پیشانی کشادہ آنکھوں سے بلا کی ذہانت آشکار، لباس فقیرانہ لیکن اس میں بھی انداز شاہانہ، گفتگو میں شبنم کی ٹھنڈک اور قند و نبات کی مٹھاس تقریر و خطاب میں دلوں کو رلانے اور گرمانے والا انداز اور آنکھوں کو نم کرنے والا سوز و گداز، تدریس میں بے مثال، ہر مجلس میں میر مجلس اور ہر محفل میں زیب محفل ،سیاست کے میدان سے بھی واقف ، اپنے فقہی مسلک پر تصلب اور دیوبندی مکتبہ فکر پر قائم و دائم ،جوہر شناس اور صلاحیتوں کے قدرداں، اپنوں میں ریشم کی طرح نرم اور باطل کے لئے فولاد کی طرح گرم ،یہ تمام خصوصیات کو اپنے ذہن میں ترتیب دیں اور شخصیت اور فکر ؤ نظر اور کردار و عمل کی جو تصویر ذہن میں آئے اور ابھرے ،اس پر لکھ دیں ،، ریاض اسعد مظاہری ،،
ہمارے بعض قارئین کہیں گے یہ تو مبالغہ ہوگیا ، لیکن رکیے یہ مبالغہ نہیں ہے بلکہ سچائی ہے ، مولانا کی ابتدائی عملی زندگی کو میں نے بحیثیت ایک شاگرد دیکھا ہے ،لیکن بعد کی زندگی میں حالات آئے مجبوریاں آئیں، کچھ رفاقتیں ایسی ملیں کہ’’وہ ایک طرح سے امتحان اور آزمائش سے گزرے اس لیے وہ بہت سی چیزوں پر قائم نہیں رہ سکے اور ان کی زندگی کی فعالیت میں دھیرے دھیرے کمی آگئی ۔ گویا وہ زبان حال سے کہتے تھے کہ
کچھ تو مجبوریاں رہیں ہوگی
یوں کوئی بے وفا نہیں ہوتا
ان کی زندگی کا ایک واقعہ جس نے بہت زیادہ متاثر کیا سنیے ، کافی سال پہلے ان کا بائی پاس سرجری ہوا ،صحت مند ہونے کے بعد مدرسہ آنے جانے لگے ، اتفاق سے میں گھر آیا ہوا تھا ، معلوم ہوا کہ مولانا صاحب مولوی محمود ٹیچر مدھو پور کے گھر پر ہیں ،میں ملاقات کے لیے گیا ،مولانا دوپہر کا کھانا کھارہے تھے ، کھانے کے بعد سلام و مصافحہ کیا اور خیریت دریافت کی ، مولانا جب کھانے سے فارغ ہوئے تو محمود بھائی نے کہا کمزوری ہے پلیٹ میں ہی ہاتھ دھو لیجئے ،انہوں سختی سے انکار کیا اور کہا کہ سلپچی یا کوئی اور برتن لاؤ ،جس پلیٹ میں ابھی کھانا کھایا اسی وقت اس میں ہاتھ دھلنا یہ بہتر اور مناسب نہیں ہے۔ کافی دیر تک باتیں ہوئیں، مدرسہ سے متعلق بھی بہت سی باتیں ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ میری زندگی میں تم یہاں آجاؤ ۔ میں نے کہا کہ میری کبھی خواہش نہیں ہے کہ میں سرکاری مدرسہ میں ملازمت کروں، میرے نانا جان نے مجھے وصیت کی تھی کہ تم کو سرکاری ملازمت اور خصوصاً بورڈ مدرسہ کی ملازمت نہیں کرنی ہے ،کیونکہ یہاں علم اور صلاحیت کا ضیاع ہوتا ہے۔۔ لیکن میں نے مولانا سے کہا کہ جو جگہیں خالی ہیں ان پر باصلاحیت اور اہل افراد کی بحالی ہونی چاہیے ، غیر مستحق لوگوں کی تقرری سے ادارہ مٹ جائے گا برباد ہو جائے گا۔ میں نے کچھ نام بھی پیش کئے ،خاص طور پر مولانا حاذق القاسمی صاحب مرحوم اور مولانا محمد عباس صاحب قاسمی مرحوم اور ماسٹر جنید صاحب مرحوم کے لڑکوں کے لئے، اس کے لئے میں نے پرزور تائید کی اور حفظ کے لئے حافظ شہباز کے لئے، کچھ اور نام بھی، اور کہا کہ ایسا کرنا ادارہ کے لئے زیادہ بہتر ہوگا۔ بہر حال اس گفتگو کے بعد میں نے اجازت چاہی اور جاتے جاتے مولانا کے ہاتھ میں کچھ رقم دی، اس درخواست کیساتھ کہ حضرت اس کو قبول کر لیجیے۔ مولانا نے تو پہلے شدت سے انکار کیا؛ لیکن اپنی شاگردی کا حوالہ دے کر مولانا کو میں نے راضی کرلیا۔ مولانا نے کہا کہ عزیزم مدرسہ نظامیہ میں تنخواہیں ہی کیا ہوتی ہیں ؟ کہ آپ کا ہدیہ قبول کروں؟ ۔
بہر حال گفتگو دراز ہوتی جارہی ہے لیکن دل چاہ رہا ہے کہ حکایت دل کو اور طول دوں۔
مولانا مرحوم کو مجھ پر بہت اعتماد تھا۔ مجھ کو اپنا خاص اور مایہ ناز شاگرد کہہ کر پکارتے تھے ۔ ایک بار گاؤں میں کسی مسئلہ پر علماء کا دو نظریہ ہوگیا، میں مولانا کے نظریہ سے متفق تھا بحث و مباحثہ کے دوران مولانا نے اپنا ترجمان مجھے ہی بنایا تھا۔
جب اُستاذ محترم مولانا تاج الدین صاحب قاسمی اور مولانا مرحوم دیوبند سے تعلیم مکمل کرکے گھر واپس آئے تو ان دونوں ہیرے کو جوہری مولانا علاؤ الدین صاحبؒ نے اچک لیا، کیوں کہ جوہری ہی جوہر کی قدر کو جانتا ہے اور ان دونوں کو مدرسہ کی خدمت کے لیے منتخب کرلیا، جو ہر اعتبار سے مدرسہ کے لئے نیک فال ثابت ہوا۔ مولانا مرحوم کا تدریس اتنا دلکش ہوتا کہ پرائمری اسکول میں چہارم کا طالب علم تھا، مولانا جلالین کا درس دیتے تو باہر کھڑے ہوکر سنتا تھا، جمعہ میں تقریر اور خطبہ سننے کے لیے بچپن کا زمانہ تھا اذان سے پہلے مسجد کے اندر کے حصے میں چلا جاتا تھا، گو بعد میں خطبہ کے بعد لوگ ہم جیسے بچوں باہر نکال دیتے تھے۔
مولانا کا خطبہ دینے کا جو انداز تھا وہ بہت ہی نرالا دلکش اور پیارا تھا ،آواز کی مٹھاس تو ایک سماں باندھ دیتی تھی۔
لیکن ان دونوں حضرات کی علمی صلاحیتیں دھیرے دھیرے تعلیمی ماحول ختم ہونے کی وجہ کچھ بجھ گئیں۔ اور کیوں نہ ہو بہار و جھارکھنڈ کی زمین مردم خیز بھی ہے اور مردم خور بھی۔ اگر دونوں حضرات کسی نظامیہ مدرسے میں ہوتے تو آج دگھی کا ایک نام ہوتا، اور اپنی عبقری صلاحیتوں سے یہ دونوں اپنا نمایاں مقام حاصل کرلیتے۔
بہر حال مرحوم نے اپنی پوری زندگی کا اکثر و بیشتر حصہ تعلیم و تدریس کے میدان میں گزارا ۔۔آپ ایک کامیاب استاذ تھے ، فن تفسیر و حدیث میں اپ کو درک حاصل تھا۔طلباء کے ذہن کو اپنی گرفت میں لے کر اپنے ما فی الضمیر کو اس میں انڈیلنے کے فن سے آپ بخوبی واقف تھے۔ ازہر ہند دارالعلوم دیوبند سے 1980ء میں آپ نے سند تجوید حاصل کی تھی۔۔جب آپ نماز یا تراویح میں قرآن کی تلاوت کرتے تو مقتدیوں کی خواہش ہوتی کہ نماز طویل سے طویل تر ہو جائے اور ان کی قرأت کی نغمگی سے وہ اپنے کام و دہن کو معطر کرتے رہیں۔
آپ کی پیدائش سن ۱۹۵۹ء کی ہے۔ آپ کا آبائی وطن دوگاچھی تھا؛ لیکن آپ کے والد محترم، ولی صفت انسان، درویش صفت بزرگ جناب قاری توحید اسعدی رحمۃ اللہ علیہ نے دگھی کو اپنا مسکن اور مستقر بنا لیا تھا جو آپ کی سسرال ہے۔۔آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سے مہرنا میں حاصل کی اور حفظ قرآن کی تکمیل بھی انہیں کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرتے ہوئے کی۔ آپ کے والد محترم نے اپنی زندگی کا طویل عرصہ بھاگلپور ضلع کے ایک معروف گاؤں مہرنا کی مسجد میں امامت و خطابت کرتے ہوئے اور تعلیم و تربیت کے میدان میں وہاں کے باشندوں کی ذہنی و فکری راہنمائی فرماتے ہوئے گزاری۔۔والد محترم کی شخصیت میں اللہ نے خاص و عام کے لئے غضب کی محبوبیت کا سامان رکھا تھا۔ وہ دگھی جامع مسجد میں عیدین کے امام بھی تھے اور ہمیشہ اس ذمہ داری کو انہوں نے بحسن خوبی نبھایا ۔مولانا ریاض اسعد مظاھری مرحوم نے حفظ قرآن مکمل کرنے کے بعد مدرسہ عربیہ شاہ جنگی بھاگلپور میں داخلہ لیا اور وہاں دور کرنے کے بعد عربی کے ابتدائی درجات کی تعلیم حاصل کی۔ پھر آپ مدرسہ اشرف العلوم گنگوہ تشریف لے گئے وہاں علیا (کافیہ شرح جامی تک) کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہندوستان کی مشہور و معروف دینی درسگاہ اور علوم حدیث کا مرکز جامعہ عربیہ مظاہر علوم سہارنپور تشریف لے گئے اور سن ۱۹۷۸ میں وہاں سے فراغت حاصل کی ۔۔اس کے بعد دو سال تقریبا آپ دار العلوم دیوبند میں فن تجوید سیکھتے رہے۔
دار العلوم دیوبند سے فراغت کے بعد آپ کا تقرر 1982ء میں مدرسہ حسینیہ تجوید القرآن دگھی میں کر لیا گیا۔ پہلے حافظ کی جگہ پر پھر ترقی دیتے ہوئے عالم کی جگہ پر اور پھر ترقی دیتے ہوئے فاضل کی جگہ پر آپ کو بحال کیا گیا۔ ہر عہدے پر آپ اپنے جلوے بکھیرتے رہے اور اپنے علم و فن سے طلباء کو مستفیض فرماتے رہے۔ مدرسہ حسینیہ تجوید القرآن دگھی میں آپ کی خدمت کا دورانیہ تقریبا چالیس سال کا ہے جس میں سات آٹھ سال آپ پرنسپل کے عہدے پر رہے۔ (2013ء سے 2021ء تک)
اس کے علاوہ آپ کی خدمت کا ایک اہم مقام انجمن اسلامیہ جمہوریہ گڈا کا پلیٹ فارم بھی رہا۔ جس میں آپ ایک سال قبل تک مرکزی قاضی کے عہدے پر فائز تھے۔ دکھ کی اس گھڑی میں بندہ ناکارہ حضرت استاذ کے اہل خانہ کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہے اور ان کے برادر اصغر رفیق محترم مولانا ایاز اسعد قاسمی اور عزیزی مولانا فیاض اسعد قاسمی اور ان کے صاحبزادگان و اہلیہ نیز تمام متعلقین کی خدمت میں تعزیت مسنونہ پیش کرتا ہے۔