محمد قمر الزماں ندوی مدرسہ نور الاسلام، کنڈہ، پرتاپ گڑھ
شاعر مشرق علامہ اقبال رح کے گھر اکثر حاضری دینے والے حکیم احمد شجاع مرحوم، ایک دن ان کے یہاں گئے تو دیکھا کہ علامہ اقبال بے حد غمزدہ، پژمردہ ،افسردہ اور پریشان ہیں۔ حکیم صاحب نے پوچھا، ,,آج آپ خلاف معمول اس درجہ پریشان کیوں ہیں؟,, علامہ کی آنکھیں بھر آئیں اور آواز بھرا گئی۔ انتہائی غمزدہ اور افسردہ لہجے میں کہا،، احمد شجاع! اکثر یہ سوچ کر مضطرب، بے چین اور پریشان ہوجاتا ہوں کہ کہیں عمر حضورﷺ کی عمر سے زیادہ نہ ہوجائے،،۔ ۲۱/اپریل۱۹۳۸ء کو آپ کا انتقال ہوا تو آپ کی عمر اکسٹھ برس سے کچھ کم تھی۔ حضور ﷺ سے ایسی محبت و عقیدت اسی شاخ دل پر اپنا آشیانہ بناتی ہے، جس کے مقدر میں یہ سعادت ازل سے لکھ دی گئی ہو۔ کس عالم سرشاری میں اقبال کہتے ہیں :
اے زمیں از بارگاہت ارجمند
آسماں از بوسہ بامت بلند
شش جہت روشن زتاب روئے تو
ترک و تاجیک و عرب بندوئے تو
تـــــرجمہ :آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ ہستی ہیں کہ اس زمین نے آپ کی بارگاہِ ناز سے ہی سے خوش بختی حاصل کی ہے۔
آسمان آپ کی بارگاہ کے بام و در کو بوسہ دے کر ان بلندیوں کو پہنچا۔
کائنات کا گوشہ گوشہ آپ ہی کے رخ انور کی تابانی سے روشن ہیں۔
ترک ہوں یا تاجک یا عرب سب آپ کے در کے غلام ہیں۔ (وحدت جدید، جنوری، تا مارچ شمارہ ۲۰۱۱ء)
ڈاکٹر محمد اقبال مرحوم کی پوری زندگی عشق رسول محبت نبی کریمﷺ اور یاد مدینہ سے معمور تھی، ان کا زندہ جاوید کلام ، ان چیزوں کے تذکرے سے بھرا ہوا ہے،۔۔ ان کے نزدیک محمد ﷺ سے وفاداری اور ان سے محبت میں استواری شرط ایمان ہے ۔وہ کہتے ہیں:
کی محمدﷺ سے وفا تو نے ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں
نقوش اقبال میں ایک واقعہ پڑھا تھا کہ ایک موقع پر نواب بھوپال کی دعوت پر آپ بھوپال تشریف لائے تھے ، نواب صاحب نے ان کے قیام و طعام کا بہت مناسب اور شاہانہ اندازا میں انتظام کیا تھا اور بڑی خاطر مدارت کی تھی، مہمان خانہ میں قیام تھا، نرم گداز بستر اور گدے اور تکیے کا انتظام تھا،ایک رات اندھیرے میں نواب صاحب مہمان خانہ آئے تاکہ جائزہ لیں کہ مہمان مکرم آرام سے ہیں یا نہیں، کہیں کوئی دقت تو نہیں ہے؟ تودیکھا کہ اقبال مرحوم پلنگ اور دیوان کے بجائے نیچے فرش پر سوئے ہوئے ہیں، دوسرے دن نواب صاحب نے خیریت معلوم کی، تو بتایا کہ کوئی پریشانی کی بات نہیں تھی، پلنگ اور گدے پر ہی آرام کر رہا تھا کہ اچانک پیارے آقاﷺ کی یاد آگئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کی چٹائی پر سوتے تھے اور آپ کے جسم اطہر پر اس چٹائی کے نشانات پڑ جاتے تھے ، بس اس تذکرے سے نیند اڑ گئی اورگدے سے نیچے زمین پر آگیا۔
حضرت مولانا علی میاں ندوی رح اقبال مرحوم کے عشق رسول کے حوالے سے لکھتے ہیں :
اقبال مرحوم کی زندگی کے آخری ایام میں یہ پیمانہ عشق اس طرح لبریز ہوا کہ مدینہ کا نام آتے ہی اشک محبت بے ساختہ جاری ہوجاتے، وہ اپنے اس کمزور جسم کے ساتھ یقینا مدینہ الرسول میں حاضر نہ ہوسکے ، لیکن اپنے مشاق اور بے تاب دل، نیز اپنی قوت تخیل اور زور کلام کے ساتھ انہوں نے حجاز کی وجد انگیز فضاءوں میں باربار پرواز کی اور ان کا طائر فکر ہمیشہ اسی آشیانہ یا آستانہ پر منڈلاتا رہا،انہوں نے رسول ﷺ کے حضور میں اپنے دل، اپنی محبت، اپنے اخلاص اور اپنی وفا کی نذر پیش کی اورآپ ﷺ کو مخاطب کرکے اپنے جذبات و احساسات، اپنی ملت اور اپنے معاشرے کی دلگداز تصویر کھینچ کر رکھ دی، ایسے مواقع پر ان کے جوہر شاعری خوب کھلتے تھے، اور معانی کے سوتے پھوٹ پڑتے تھے، وہ حقائق جن کی زمام مضبوطی سے انہوں نے گرفت میں رکھی تھی، اس وقت بے حجاب و بے نقاب ہوکر سامنے آتے اور اپنا خوب رنگ دکھاتے۔
بحر فے می تواں گفتن تمنائے جہانے را
من از شوق حضوری طول دادم داستانے را
اس موضوع پر ان کا کلام سب سے زیادہ جاندار، طاقتور، موثر، انکے جذبات کی صحیح ترجمانی، ان کے تجربات کا نچوڑ، ان کے عہد کی تصویر اور ان کے نازک ترین احساسات کا آئنیہ دار ہے۔( مستفاد از کاروان مدینہ صفحہ ۱۰۵)
اقبال مرحوم کو ذات نبی ﷺ سے سچی محبت اور والہانہ عشق تھا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اقبال کے نظریاتی محور و مرکز تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ ہی کی شخصیت نے اقبال کو،، انسان کامل،، اور ،، مرد مومن،، کے تصورات عطا کئے اور آپ ہی کے فیض و صدقے سے کلام اقبال میں خوبصورتی ، اور جمال و رعنائی پیدا ہوئی، اس بنا پر کہا گیا ہے کہ اقبال کے کلام کا اصل ماخذ رسول اور عشق رسول ﷺ ہے جو روایتی اور لفظ عشق سے بہت ہی بلند و بالا ہے ۔
،، بلاد اسلامیہ،، کے عنوان سے اپنی ایک طویل نظم میں دہلی، بغداد، قرطبہ، قسطنطنیہ کی عظمت رفتہ کا ذکر مدینہ طیبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
وہ زمیں ہے تو نگر انے خوابگاہ مصطفیٰ
دید ہے کعبہ کو تیری حج اکبر سے سوا
خاتم ہستی میں تو تاباں ہے مانند نگیں
اپنی عظمت کی ولادتگاہ تیری زمیں
تجھ میں راحت اس شہنشاہ معظم کو ملی
جس کے دامن میں اماں اقوام عالم کو ملی
نام لیوا جس کے شہنشاہ عالم کے ہوئے
جانشیں قیصر کے وارث مسند جم کے ہوئے
علامہ اقبال آرام گاہ سرور کائنات کو اسلامی قومیت کا مرکز قرار دیتے ہوئے اسلامیان عالم کے وجود و بقا اسی وجود پر منحصر سمجھتے ہیں۔ فرماتے ہیں:
ہے اگر قومیت اسلام پابند مقام
ہند ہی بنیاد ہے اس کی نہ فارس ہے نہ شام
آہ یثرب دیس ہے مسلم کا تو ماویٰ ہے تو
نقطہ جاذب تاثر کی شعاعوں کا ہے تو
جب تلک باقی ہے تو دنیا میں باقی ہم بھی ہیں
صبح ہے تو اس چمن میں گوہر شبنم بھی ہیں
جواب شکوہ کے آخر میں علامہ اقبال ہاتف غیبی کی زبان سے مسلمانوں کی وقعت و عظمت بتلاتے ہوئے کہتے ہیں:
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسم محمد سے اجالا کر دے
اقبال مرحوم نے ہمیشہ جدید تمدن اور تہذیب و ثقافت کے پرستاروں اور قومیت کے دلدادہ عربوں کو اپنے اصل مرکز اور مہبط رسول ﷺ کی طرف واپسی کی دعوت دیتے رہے ، ان کے اس پیغام اور دعوت کی تشریح اس شعر میں موجود ہے کہ
بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل
اس شہر کے خوگر کو پھر وسعت صحرا
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال مرحوم ایک جگہ محبت رسول اور عشق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے لکھتے ہیں:
،، میرے نزدیک انسانوں کی دماغی اور قلبی تربیت کے لیے نہایت ضروری ہے کہ ان کے عقیدے کی رو سے زندگی کا جو نمونہ بہترین ہو، وہ ہر وقت ان کے سامنے رہے ۔چنانچہ مسلمانوں کے لیے اسی وجہ سے ضروری ہے کہ وہ اسوئہ رسول کو مد نظر رکھیں، تاکہ جذبئہ تقلید اور جذبئہ عمل قایم رہے ۔ان جذبات کو قائم رکھنے کے تین طریقے ہیں ،پہلا طریقہ تو درود و صلوٰۃ ہے ،جو مسلمانوں کی زندگی کا جزو لاینفک ہوچکا ہے ہر وقت درود پڑھنے کے موقعے نکالتے ہیں ،عرب کے متعلق میں نے سنا کہ اگر کہیں بازار میں دو آدمی لڑ پڑتے ہیں ،اور تیسرا بہ آواز بلند ،،اللھم صل علی محمد سیدنا محمد و بارک و سلم ،، پڑھ دیتا ہے تو لڑائی فورا رک جاتی ہے اور متخاصمین باہم لڑنے والے، ایک دوسرے پر ہاتھ اٹھانے سے فورا باز آجاتے ہیں یہ درود کا اثر ہے۔ اور لازم ہے کہ جس پر درود پڑھا جائے اس کی یاد قلوب کے اندر اپنا اثر پیدا کرے ۔،،
- ،، پہلا طریقہ انفرادی ۔
- دوسرا اجتماعی ہے ،یعنی مسلمان کثیر تعداد میں جمع ہوں اور ایک شخص جو حضور آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے سوانح حیات سے پوری طرح باخبر ہو آپ کے سوانح زندگی بیان کرے تاکہ ان کی تقلید کا ذوق شوق مسلمانوں کے قلوب میں پیدا ہو،،
- تیسرا طریق اگر چہ مشکل ہے ،لیکن بہر حال اس کا بیان کرنا نہایت ضروری ہے،وہ طریقہ ہے کہ یاد رسول اس کثرت سے اور ایسے انداز میں کی جائے کہ انسان کا قلب نبوت کے مختلف پہلوؤں کا خود مظہر ہوجائے ،یعنی آج سے تیرہ سو سال پہلے کی جو کیفیت حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود مقدس سے ہویدا تھی، وہ آج تمہارے قلوب کے اندر پیدا ہو جائے ۔حضرت مولانا روم رح فرماتے ہیں ،،
آدمی دید ست باقی پوست است
دید آں باشد کہ دید دوست است
یہ جوہر انسانی کا انتہائی کمال ہے کہ اسے دوست کے سوا اور کسی چیز کی دید سے مطلب نہ رہے ۔یہ طریقہ بہت مشکل ہے ، کتابوں کو پڑھنے یا میری تقریر سننے سے نہیں آئے گا ۔ اس کے لیے کچھ مدت نیکوں اور بزرگوں کی صحبت میں بیٹھ کر روحانی انوار حاصل کرنا ضروری ہے ۔ اگر یہ میسر نہ ہو تو پھر ہمارے لیے یہی طریقہ غنیمت ہے ،جس پر آج ہم عمل پیرا ہیں،، ۔۔۔( نقوش رسول صلی اللہ علیہ وسلم نمبر جلد 4/ صفحہ 646) ۔