۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

نام کے مفتی اور کام کے مفتی

✍️ محمد توصیف قاسمی

_______________

آج کل بعض مدراس اسلامیہ میں تکمیل افتاء کی جو ہوڑ لگی ہوئی ہے وہ ایک پہلو سے بہت تشویشناک ہے، قابل ذکر ہے کہ اس کے اچھے اور مفید پہلو بھی ہیں کہ طلبہ میں فقہ و فتاوی سے دلچسپی بڑھ رہی ہے، ترقی یافتہ زمانے کے نت نئے تقاضے کے لحاظ سے اس کی ضرورت بھی ہے، اس ضمن میں بعض ایسے ایسے نوادر وکار آمد طلبہ ان درسگاہوں کو میسر آجاتے ہیں جو وقت کی اہم ضرورت اور ملت کا قیمتی اثاثہ ثابت ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ بھی اس کے مزید متعدد فوائد و مثبت نتائج ہیں، مگر اس خیر کثیر کے ذیل میں ایک مضر پہلو یہ بھی ہے کہ بہت سے طلبہ عالمیت سے فراغت کے بعد افتاء کے شعبے میں اچھی نیت سے نہیں آتے ، بعض بس نام کے ساتھ مفتی لگانے کی غرض سے آجاتے ہیں، انھیں اتنی بھی تاخیر بار معلوم ہوتی ہے کہ کم از کم درسیات سے رسماً فارغ ہی ہو جائیں ، وہ داخلہ لیتے ہی اپنے نام کے ساتھ مفتی لکھنے لگتے ہیں۔
مختلف اساتذہ سے بھی اس بابت بہت کچھ سنا گیا ، ایک استاذ فرماتے ہیں کہ بعض حضرات صرف اس لئے افتاء میں داخلہ لیتے ہیں تاکہ انہیں غیر مفتی سے ہزار دو ہزار وظیفہ و مشاہرہ زائد مل سکے ، یا مدرسہ ومنتظمہ پر لفظ "مفتی” کا کم از کم رعب باقی رہے۔
شعبہ افتاء کے داخلے کا سسٹم اور باضابطہ طریقے ہیں ؛ مگر بہت سی جگہ وہ بھی حد درجہ افسوس ناک ہیں ، افتاء کی تعلیم ، جسے درس نظامی کے حلقوں میں "تعلیم کی مہر” کہا جاتا ہے، یعنی جس طرح مہر کسی تحریر کی انتہا و اختتام پر لگائی جاتی ہے، یہ درجہ و مقام ہے افتاء کی تعلیم کا ، اس کے داخلہ میں ہر اہل و نااہل، لائق و نالائق ، صالح و غیر صالح ہر “ در آمد “ کو افتاء کی عظیم الشان مسند پر لاکر بٹھا دیا جاتا ہے۔ جس کے نقائص و مضار کو شمار کرنے اور تبصرہ کرنے کے لئے ایک تفصیلی تحریر کی ضرورت ہے۔
حد یہ ہے کہ بعض جگہ کے شعبہ افتاء علماء و طلبہ مدارس میں مذاق کی علامت بن کر رہ گئے ہیں، دیوبند میں دارالعلوم اور چند اہم اداروں کے علاوہ ایسے شعبوں کی باڑ ہے ، اس پر مسلسل لکھنے والے لکھتے بھی رہتے ہیں، ہمارے دارالعلوم کے زمانہ طالب علمی میں ایک شعبہ افتاء کو طلبہ ” موبائل دارالافتاء ” کہا کرتے تھے ، یعنی "چلتا پھرتا دارالافتاء ” جیسے موبائل کلینک ہوتا ہے چلتا پھرتا مطب ۔
ایک طالب علم جسے شرح ماۃ عامل پڑھ کردیوبند کے ایک مقامی مدرسہ میں دورہ حدیث شریف میں داخلہ مل گیا ، اور اگلے سال وہ اسی مدرسہ میں تکمیل افتاء میں بھی پہنچ گئے۔
اسی مدرسہ میں میرے ایک متعارف طالب علم نے داخلہ لیا ، جو سال کے اکثرحصہ گھر رہے مگر سند افتاء خود چل کر ان کے گھر پہنچ گئی۔
تعلیم و تدریس کی یہ بے اصولیاں عنداللہ مواخذہ کا سبب ہیں، ان کی تفصیل کرنا بھی اس وقت ہمارا مقصد نہیں۔
البتہ یہ بتانا ضرور مقصد ہے کہ مفتی ہر اس شخص کو نہ کہا جائے جس نے صرف سند افتاء حاصل کرلی ہو ، یہی زمانہ قدیم کا معمول بھی ہے ، پہلے شعبہ افتاء کوئی مستقل شعبہ نہ تھا ، عالمیت ہی کافی ہوا کرتی تھی ، پھر کچھ خصوصی کتابیں مرتب ہوئیں، پھر تدریجاً ایک مستقل شعبہ بن گیا۔
اس وقت مفتی اسے کہا جاتا تھا جو فتوی نویسی یا کسی طرح مسئلہ مسائل کو حل اور بیان کرنے کے کام میں مصروف ہوں، ان کے علاوہ کو مفتی نہیں کہا جاتا تھا ، اگرچہ ان کی صلاحیت آج کے مفتیان اعظم سے بھی زیادہ رہی ہو۔
مگر آج یہ المیہ ہوگیا ہے کہ ہر اہل و نااہل صرف سند کی وجہ سے مفتی کے ایک معزز لقب سے منسوب ہیں، جس کے بہت سے نقصانات بھی ہیں ۔
لوگ مفتی صاحب مفتی صاحب کرکے مسئلہ پوچھیں، اور صاحب یہ خیال کریں کہ انھیں جواب نہ دیا تو مفتی کا نام جاتا رہے گا، اب جواب ظاہر ہے کہ لاعلمی کی بنیاد پر کچھ کچھ دینا ہی پڑے گا اور دیا جاتا ہے۔
ابھی تازہ ترین سنا ہے کہ ایک غیر عالم نے طلاق جیسے نازک ترین مسئلہ پر پوری ایک کتاب ہی لکھ دی، اگرچہ بعض اہل فتوی نے اس کی تائید کردی ہو ، مگر ایک نا اہل شخص کو مسئلہ بتانے کی پوری چھوٹ مل گئی ، آج تو صحیح بتا رہے ہیں، کل بھی وہ صحیح بتائیں گے ؟ کوئی امید نہیں، جب کتب فتاوی کی شکل تک نہیں دیکھی ، نیز عوام کا رجوع ان سے اسی تخصص تک رہے گا؟ اس کی گارنٹی ہے؟
جب غیر علماء کو آج یہ مرجعیت دی جارہی ہے تو جن کے نام کے ساتھ مفتی لگا ہے ، نیز انھوں نے کسی ماہر اہل فن سے سے فتوی نویسی و فتویٰ بیانی کی کوئی تمرین ومزاولت نہیں کی ان کا معاملہ کیا ہوگا ؟
بات ان چند مثالی واقعات کی نہیں، یہ تو بس لکھتے وقت قلم پر آگئے ، مگر صورت حال کی نزاکت و حساسیت اہل بصیرت سے مخفی نہیں ۔
ہوسکتا ہے حلقہ مدارس کے لئے یہ ایک سخت و ناگوار بات معلوم ہو، مگر آنے والے علم و تحقیق کے مزید انحطاطی دور کے لئے یہ سد باب ہوگا ، آج پھر کچھ کڑواہٹ معلوم ہو مگر آئندہ شاید اس راہ میں اور زیادہ مسائل و مشکلات کھڑے ہوں۔
مفتی اسے کہا جائے جو فقہ و فتاوی سے ، کتابوں سے وابستہ ہو، بڑوں اور دوسرے اہل فتوی کو اس پر اعتماد ہو پھر خواہ وہ ابھی تمرین اور پریکٹس کے دور میں ہی کیوں نہ ہو، اسے نہیں جس نے بس افتاء کی ڈگری لے لی ہو۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: