عدالت کے بدلتے فیصلے
مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی/نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ
ہندوستان میں عدلیہ کا نظام تین سطحی ہے، ضلعی عدالت، ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ،نچلی عدالت کے فیصلے کو ہائی کورٹ اور ہائی کورٹ کے فیصلوں کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جاتا ہے، قانون کی اسی کتاب اور دفعات کے سہارے ضلع عدالت جس کو مجرم قرار دیتی ہے، عمر قید اور پھانسی تک کی سزا سنا دیتی ہے، انہیں دفعات اور دستور کی اسی کتاب کی روشنی میں ہائی کورٹ اسے رد کر دیتا ہے، اگر باقی رکھ دیا تو معاملہ سپریم کورٹ جاتا ہے اور وہاں سے سزائیں رد ہوجاتی ہیں، پھانسی کا سزا یافتہ پھانسی کے وارنٹ جاری ہونے کے بعد بھی با عزت بری ہوجاتا ہے، نوئیڈا کا نٹھاری،ریان انٹر نیشنل اسکول کے طالب علم اور اروشی قتل معاملہ میں کچھ ایسے ہی فیصلے دیکھنے کو ملے۔
نٹھاری معاملہ29 دسمبر2006ء کو سامنے آیا تھا، جب پندرہ انسانی کھوپڑی، جسم کی باقیات اور بیگ میں رکھے کپڑے نویڈا کے سیکٹر 31میں بنگلہ نمبر D5کے پیچھے نٹھاری علاقہ میں پائے گیے تھے، نوئیڈا پولس نے اس بنگلہ کے مالک مہندر سنگھ پنگھیل اور اس کے نوکر سر یندر کوہلی کو آبروریزی اور قتل کے معاملہ میں گرفتار کر لیا تھا، جانچ سی بی آئی کے حوالہ ہوئی اور اس نے 2007ء میں سولہ چارج شیٹ داخل کیا، 2009ء میں کوہلی اور پنگھیرے کو نٹھاری معاملہ میں موت کی سزا سنائی گئی، 2015ء میں الٰہ آباد ہائی کورٹ نے پنگھیرے کو تمام الزامات سے بری کر دیا اورکوہلی کی سزا کو عمر قید میں بدل دیا۔ قابل ذکر ہے کہ کوہلی کو پھانسی دینے کے لیے میرٹھ جیل منتقل کر دیا گیا تھا اور ڈیتھ وارنٹ جاری ہو گیا تھا کہ عدالت نے پہلے اس پرروک لگا دیا اور بعد میں 16/ اکتوبر2023ء کو مجرمین کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے ثبوت وشواہد مکمل نہ ہونے کی بنیاد پر دونوں کو بری کر دیا، اور ۰۲/ اکتوبر ۳۲۰۲ء کو دونوں عدالت سے سترہ سال بعد باعزت رہا ہو گیے۔
2017ء میں ریان انٹر نیشنل اسکول کے ایک سات سالہ طالب علم کا قتل ہوا، پولیس نے اسکول کے بس کنڈیکٹر کو قتل اور جنسی ہراسانی کے معاملہ میں گرفتار کر لیا، 74/ دن کے بعد اشوک کمار کو ضمانت ملی،2018ء میں خصوصی عدالت نے اشوک کمار کو ان الزامات سے بری قرار دیا، اور اسکول کے ایک سولہ سالہ طالب علم کو اس کا ملزم قرار دیا۔
اروشی قتل معاملہ بھی ہندوستان کے سنسنی خیز قتل واردات میں سے ایک ہے، 16,15/ مئی 2008ء کو اروشی کو قتل کر دیا گیا، اس قتل کی ذمہ داری اروشی کے والدین راجیش تلوار اور نوپور تلوار کے سر ڈالی گئی اور عدالت نے 2013ء میں ان دونوں کو عمر قید کی سزا سنائی، لیکن 2017ء میں الٰہ آباد ہائی کورٹ نے ان دونوں کو بری کر دیا، کیوں کہ جانچ ایجنسیوں نے صحیح ثبوت وشواہد نہیں جمع کیے تھے۔
ان تینوں واردات کا ذکر مثال کے طور پر کیا گیا ہے، ورنہ اس قسم کے بہت سارے واقعات ہیں، جن میں نچلی عدالت کے فیصلے کو عدالت عالیہ (ہائی کورٹ) یا عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) تبدیل کر دیتی ہے، اس کی وجہ در اصل جانچ ایجنسیوں کی کوتاہیاں ہیں، اس نے ثبوت وشواہد قانونی انداز میں اکٹھے نہیں کیے اور مجرمین کو اس کا فائدہ مل گیا، اس طرح کے بدلتے فیصلے سے عوام میں بے اعتمادی کی فضا قائم ہوتی ہے اور جو مفلس اور غریب ہیں وہ اپنے کو مجبور محسوس کرنے لگتے ہیں، مجرم بری ہو گیے، لیکن نٹھاری کے مقتولوں کے وارثوں کو انصاف نہیں مل پایا۔
عدالت کے فیصلے کس طرح اور کس بینچ سے بدلے جا سکیں گے، وکیلوں کو اس کی معلومات ہوتی ہے وہ اپنی پسندیدہ بینچ تک مقدمات کو پہونچا نے کی کوشش کرتے ہیں، نہیں ممکن ہواتو انتظار بھی کرنے کو کہتے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ عدالت کے ججوں کی اپنی سوچ ہوتی ہے، دفعات تو وہی رہتے ہیں، لیکن قانون کی تشریح کا حق ان کو ہے، اس لیے ایک جگہ سے ضمانت ملتی ہے، دوسری جگہ سے رد ہوجاتی ہے، ایک جگہ سے سزا ہوتی ہے دوسری جگہ سے براء ت کا مزدہ مل جاتا ہے، کوئی حرج نہیں، لیکن اصل مجرم تک قانون کے ہاتھ پہونچیں اور ان کو سزا دلائی جا سکے یہ ہر ہندوستانی کا حق ہے۔ اور تحقیقی ایجنسیوں کو اس سلسلے میں مضبوط اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔