از قلم: معصوم مرادآبادی
’جشن ریختہ‘ گزشتہ 10دسمبر کی رات اختتام پذیر ہوگیا۔ یہ تین روزہ جشن جسے اردو زبان و تہذیب کا سب سے بڑا جشن کہا جاتا ہے، گزشتہ آٹھ برسوں سے جاری ہے۔اس مرتبہ ریختہ کا پروگرام خدائے سخن میرتقی میر کے نام وقف تھا، جن کا ہم تین سوسالہ جشن منارہے ہیں۔مجھے اس بار جشن ریختہ میں شریک نہ ہونے کا افسوس ہے۔ دیگر مصروفیات نے اس کی مہلت نہیں دی، مگر اس جشن کے حوالہ سے سوشل میڈیا پر جو بحث ہورہی ہے، اس نے مجھے یہ چند سطریں لکھنے پر مجبور کیا ہے۔
اس مرتبہ جشن ریختہ میں داخلہ کے لیے ٹکٹ لینا ضروری تھا، جبکہ اس سے پہلے ریختہ کے جو بھی جشن یہاں برپا ہوئے ہیں، ان میں داخلہ مفت ہوتا تھا۔ لوگوں کو اندیشہ تھا کہ اس بار ٹکٹ کی لازمیت کی وجہ سے جشن ریختہ کا رنگ پھیکا رہے گا، لیکن تینوں ہی دن اردو زبان و ہندوستانی تہذیب کے شیدایوں کا ہجوم رہااور لوگ یہ اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکے کہ جو نوجوان اردو زبان اور اس کی تہذیب سے عشق کرتے ہیں، ان کے لیے پانچ سو یا تین سو روپے کوئی معنی نہیں رکھتے۔
آٹھ تا دس دسمبر کو دہلی کے میجردھیان چند اسٹیڈیم میں منعقد ہ ’جشن ریختہ‘پر سب سے بڑا اعتراض یہ کیا جارہا ہے کہ وہاں اردو رسم الخط کا گزر نہیں تھا اور سب کچھ رومن یا دیوناگری میں لکھا ہوا تھا۔ اس سے بعض لوگوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ریختہ اردو رسم الخط کو ختم کرنے کے در پہ ہے۔حالانکہ یہ بات پوری طرح درست نہیں ہے،کیونکہ جگہ جگہ ہندی اور انگریزی کے ساتھ اردو بھی لکھی ہوئی تھی۔
پہلا سوال یہ ہے کہ کیا اردو رسم الخط چھوئی موئی کا درخت ہے کہ وہ کسی کے ہاتھ لگانے سے مرجھاجائے گا؟ماضی میں بھی ریختہ کے حوالہ سے یہ سوال کئی سطحوں پر اٹھایا گیا ہے، مگر لوگ اس حقیقت کو فراموش کردیتے ہیں کہ جو نوجوان جشن ریختہ کی رونقوں کو دوبالا کرتے ہیں وہ اردو رسم الخط سے ناواقف ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو حسن وعشق کے شیدائی ہیں اور انھیں اردو شعر وشاعری میں لطف آتا ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اردو کے نوجوان شیدائیوں کا یہ طبقہ خود ریختہ نے اپنی ویب سائٹ اور دیگر ذرائع سے پیدا کیا ہے۔شاید اسی لیے جشن ریختہ میں جو کچھ لکھا جاتا ہے وہ اردو رسم الخط کے ساتھ ساتھ دیوناگری اور رومن میں بھی لکھ دیا جاتا ہے۔
مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ ریختہ نے اپنے وسائل خرچ کرکے اردو کے تمام کلاسیکی لٹریچر کو نئی تکنالوجی کے ذریعہ نہ صرف محفوظ کردیا ہے بلکہ اس تک ہرشخص کی رسائی بھی آسان بنادی ہے۔ بہت سی ایسی کتابیں جو آپ کو لائبریریوں اور کتب خانوں میں نہیں ملیں گی، وہ ریختہ کی ویب سائٹ پر بآسانی دستیاب ہیں۔ان میں وہ رسائل وجرائد بھی شامل ہیں جن کی فائلیں اب کہیں نہیں ملتیں۔ بلاشبہ اردو کے نایاب اور نادر ذخیروں کو نئی تکنیک کے ساتھ محفوظ کرکے ریختہ نے بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے، جس کے لیے سنجیو صراف کو داد دی جانی چاہئے۔جہاں تک اردو کے چاہنے والوں کے لیے اردو کو رومن یا دیوناگری میں لکھنے کا سوال ہے یا پھر اردو شاعروں کے کلام کو رومن یا دیوناگری رسم الخط میں شائع کرنے کا سوال ہے تو یہ سلسلہ نیا نہیں ہے۔ میں دہلی میں ہندی اور انگریزی کے کئی بڑے پبلشروں کو جانتا ہوں جنھوں نے اردو کے مقبول ومعروف شاعروں کے مجموعے دیوناگری اور رومن میں شائع کئے ہیں اور ان کی تعداد اشاعت اردو رسم الخط میں شائع ہونے والی کتابوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ہندی اور انگریزی رسم الخط میں پڑھے جانے والے شاعروں میں غالب اور ساحر لدھیانوی کی سب سے زیادہ ڈیمانڈ ہے۔ان کے بعد بشیر بدر، منور رانا اور وسیم بریلوی کا کلام بھی بہت پسند کیا جاتا ہے۔ جبکہ اردو میں شائع ہونے والی کتابوں کا حال یہ ہے کہ جو ایڈیشن پہلے ایک ہزار چھپتا تھا، وہ بعد میں پانچ سو ہوا، پھر تین سو اور دوسو سے ہوتا ہوا اب 100کتابوں تک آپہنچا ہے، جو ڈیجیٹل پرنٹنگ کی مدد سے شائع ہورہی ہیں۔ان میں بھی بیشتر کتابیں مفت خوروں کی غذا بنتی ہیں۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ شمالی ہند میں اردو پڑھنے اور لکھنے والوں کی تعداد دن بہ دن کم ہوتی چلی جارہی ہے۔ اس میں کسی اور کا دوش نہیں ہے بلکہ ہم خود اپنے بچوں کو اردو زبان سے نابلد رکھنے کے جرم میں شریک ہیں۔ یہی وجہ ہے لوگ اپنی بات پہنچانے کے لیے دیوناگری اور رومن رسم الخط کا سہارا لے رہے ہیں۔ یہاں تک قبروں کے کتبے تک اب دیوناگری میں لکھے جارہے ہیں۔اسلام کی توسیع وتبلیغ میں مصروف ایک بڑی جماعت نے تقریباً تمام ہی اسلامی لٹریچر ہندی اور انگریزی زبان میں شائع کردیا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کرکے انھوں نے اسلام کی روح نکال دی ہے۔ یہ دراصل وقت کا تقاضا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچنے کے لیے رومن اور ناگری رسم الخط کا سہارا لیا جارہا ہے۔لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ ہم اردو رسم الخط سے غافل ہوجائیں۔رسم الخط کسی بھی زبان کی بنیادی شناخت ہوتا ہے۔ زبان اگر جسم تصور کیا جائے تو رسم الخط اس کی روح ہے، اس لیے ہمیں اس کی بقاء کی فکر ہر وقت لاحق رہنی چاہئے۔
المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے دور کے کئی مقبول شاعر اور شاعرات ایسے ہیں جو مشاعروں میں اپنا کلام دیوناگری میں لکھ کرلاتے ہیں۔ یہ لوگ اردو رسم الخط سے نابلد ہیں، مگر ہم ان کے شعروں پر خوب داد دیتے ہیں۔جہاں تک ریختہ کا سوال ہے تو اردو اس کے کام کاج کا بنیادی حوالہ ہے۔ اس نے سب کچھ اسی سے اخذ کیا ہے۔ جولوگ ریختہ کے ذریعہ اردو زبان اور رسم الخط سیکھنا چاہتے ہیں، ان کے لیے بھی معقول بندوبست ہے۔قابل ذکر ہے کہ ریختہ کے’آموزش‘نامی اردو سیکھئے پروگرام سے تقریباً ایک لاکھ لوگ اردو رسم الخط کو سیکھ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بڑے پیمانے پر اردو اوسی آر پر کام چل رہا ہے۔ ایسے میں جولوگ ریختہ پر اردو رسم الخط کو ختم کرنے کا الزام عائد کررہے ہیں،انھیں اس پر نظرثانی کرنی چاہئے اور ایک اچھے کام میں روڑے نہیں اٹکانے چاہئیں۔درحقیقت ریختہ نے اردو کو عصر حاضر کی اطلاعاتی اور مواصلاتی ٹکنالوجی سے ہم آہنگ کرکے ایک بڑا کارنامہ انجام دیاہے، جس کے لیے اسے داد دی جانی چاہئے-