جشن ریختہ اور اردو رسم الخط:ہنگامہ ہے کیوں برپا!

تحریر: مسعود جاوید

روزنامہ سہارا (اردو ) یا روزنامہ انقلاب (اردو) کے مالکان اگر یہ طے کریں کہ اگلے سال یعنی یکم جنوری 2024 سے یہ اخبارات دیوناگری (ہندی) رسم الخط میں شائع ہوں گے تو کیا آپ کو احتجاج کرنے کا حق ہو گا ؟ ظاہر ہے نہیں اس لئے کہ ان کے مالکان سہارا سبرتا رائے (پچھلے دنوں گزر گئے) اور انقلاب شیو پرساد گپتا اور ان کے بھائی ہیں۔‌ انہوں نے اردو زبان سے محبت اور اردو زبان کی خدمت کے لئے ان اخباروں میں انویسٹمنٹ نہیں کیا ہے۔  یہ ان کی تجارتی یونٹ ہیں اور تجارتی طور پر منفعت حاصل کرنے  کے لئے سرمایہ کاری کی ہے۔ اب یہ ان کے صوابدید پر ہے کہ تجارتی اعتبار سے اردو رسم الخط میں شائع کرنا زیادہ منفعت بخش ہوگا یا  دیوناگری میں۔‌ جس روز یہ سمجھ میں آئے گا کہ اردو قارئین کی تعداد کم ہوگئی وہ ہندی رسم الخط میں اخبار نکالنا شروع کردیں گے۔  

انقلاب ہو ، سہارا ہو یا ریختہ یہ پرائیویٹ لمیٹڈ ہیں اور جن کی ملکیت ہیں انہیں یہ حق حاصل ہے نہ کہ ہمیں اور آپ کو۔  آپ کا اعتراض کسی حد تک انجمن ترقی اردو ہند، ایوان غالب ، قومی کونسل برائے فروغِ اُردو کی ایسی کسی حرکت پر درست سمجھا سکتا ہے کسی پرائیوٹ ادارے پر نہیں ۔‌

 سنجیو صراف ایک بڑے تاجر ہیں اور تجارتی منفعت کو مدنظر رکھتے ہوۓ انہوں نے ریختہ قائم کیا جس کے اغراض و مقاصد پوری دنیامیں اردو سے محبت کرنے والے اشخاص اور اداروں تک اردو ادب؛ نثر و نظم پہنچانا ہے۔

ریختہ پلیٹ فارم پر انہوں نے اردو ادب کے شہ پاروں کو ڈیجیٹلائز کر کے، e-books , اور فرہنگ سہ لسانی ( اردو -ہندی – انگریزی لغت) نیٹ پر مفت میں مہیا کر کے بلا شبہ بہت بڑی خدمت انجام دی ہے۔ گرچہ انہیں بھی اردو زبان وادب سے محبت ہے  لیکن انہوں نے پیسہ کمانے کے لئے ریختہ میں ایک خطیر رقم کی سرمایہ کاری کی ہے اردو زبان وادب کے ماہرین کی خدمات حاصل کی ھے اور ان کی خدمات کے لئے وہ  معقول مشاہرہ انہیں دیتے ہیں ۔ 

اس لئے جشن ریختہ میں دیوناگری بینر وغیرہ پر اعتراض کرنے کی بجائے ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیئے کہ اردو رسم الخط کی بقاء کے لئے ہم ٢٠ کروڑ مسلمانوں نے کیا کیا ؟ گہوارہ اردو کہی جانے والی ریاست اتر پردیش میں کتنے اسکولوں میں اردو زبان وادب کی تعلیم دی جاتی ہے؟ کتنے فیصد مسلمان اردو اخبارات پڑھتے ہیں اور کتنے لوگ  اردو رسم الخط میں لکھتے ہیں! 

٢٠ کروڑ مسلمانوں کا روزنامہ انقلاب یا روزنامہ سہارا کی طرح کوئی روزنامہ کیوں نہیں ہے ؟ 

٢٠ کروڑ مسلمانوں میں سینکڑوں بڑے تاجر، صنعتکار اور کارپوریٹ ہیں کسی نے ریختہ کی طرح انویسٹمنٹ کی کیوں نہیں سوچی ؟ کسی نے انقلاب اور سہارا کی طرح کمرشیل بنیاد پر نفع کمانے کے لئے صحافت میں انویسٹمنٹ کیوں نہیں کیا ؟ افراد نے اگر اس میں کوتاہی کی تو ملی تنظیموں نے یہ کام کیوں نہیں کیا ؟ آج سے بیس پچیس سال قبل تک جمعیت علماء ہند کا ترجمان روزنامہ اور الجمعیۃ اور جماعت اسلامی کا ترجمان روزنامہ دعوت  وہ کیوں بند ہو گئے ! 

ریختہ پر اعتراض کرنے سے پہلے اس کا جائزہ لیں کہ آپ،  آپ کے دوست احباب ،متعلقین اور پڑوسیوں کے بچے اردو پڑھ رہے ہیں اگر نہیں تو اس کی ترغیب دلائیں اور پڑھانے کا نظم کریں۔  جن اسکولوں میں کم از کم دس فیصد اردو پڑھنے کے خواہشمند طلباء ہیں وہاں اردو ٹیچر ان کا حق ہے اس لئے اردو ٹیچر کی تقرری کی کوشش کریں۔ اقل درجہ یہ ہے کہ بچوں کو شام کے اوقات میں دینیات مراکز میں  اردو اور  بنیادی دین تعلیم کے والدین کو راغب کریں ۔ 

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔