از قلم:ڈاکٹر محمد طارق ایوبی
مغرب اور اس کی تہذیب کے دوغلے چہرے، دوہرے کردار اور دوہرے معیار Double Standard سے دنیا واقف ہے، اس کا گہوارہ وہ یورپ رہا ہے، جس کی تاریخ خونیں داستانوں سے بھری پڑی ہے، نسلی، لسانی اور نظریاتی عصبیتیں وہاں کل بھی تھیں اور آج بھی ہیں۔ سیکولرزم کے پُر فریب دعوؤں کے ساتھ مذہبی تعصب اور مذہب کے لیے جنگ مغرب کی شناخت بن چکی ہے، امریکی استعمار کے اس دور میں امریکہ نے کتنے مسلم ملک تباہ کر دیے، غزہ کی جنگ نے مغرب کے اس دوہرے رویّے اور دوغلے پن کو بالکل برہنہ کر دیا، جو کچھ ڈھکا چھپا تھا وہ سب واضح ہو گیا، اس صورت حال کو دیکھ کر ہمارے ایک دوست نے بالکل درست لکھا: ’’آج کے بعد جب بھی تم سے کوئی مغربی تہذیب و ثقافت اور مغرب کی جدت پسندی اور روشن خیالی کی بات کرے تو اس کے منہ پر تھوک دو۔‘‘
افسوس تو ان بے چاروں پر ہوتا ہے، جو آج بھی مغرب کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہیں، اس کی ظالمانہ، جابرانہ، مستبدانہ، متعصب اور ننگی تہذیب پر جان چھڑکتے ہیں، اس کے کالونیل استعمار، جنگی جرائم، جمہوریت کے نام پر ڈھٹائی اور دادا گیری کے باوجود اس کی اقدار کے قصیدے پڑھتے ہیں، فلسطین کے مسئلہ پر مغرب کے کھلے ہوئے دوہرے کردار کے باوجود لوگ اہلِ مغرب کو امن پسند سمجھتے ہیں اور اس کی رواداری پر سر دُھنتے ہیں، امریکہ، برطانیہ، اسرائیل کی کس کس طرح مدد کر رہا ہے، کیسے کیسے کُمک پہنچا رہا ہے۔ یہ سب کو نظر آ رہا ہے، لیکن اس کے باوجود لوگ امریکہ کو امن کا علمبردار اور اپنا دوست سمجھ رہے ہیں۔ عالمِ اسلام میں بن سلمان اور بن زاید تو گویا امریکی مفادات و اہداف کے وکیل و سفیر بنے ہوئے ہیں، بلادِ حرمین اور جزیرۂ عرب کو مغربی تہذیب کے اندھیروں میں دھکیل دینے کی پوری تیاری ہے، لیکن یہاں بھی مغربی تہذیب کا دوغلا پن ہی عملاً اپنایا جا رہا ہے، روشن خیالی کے نعرے لگائے جا رہے ہیں، مگر ظلم و استبداد کا یہ عالم ہے کہ کوئی شخص چوں تک نہیں کر سکتا، نہ صحافت آزاد ہے نہ اظہارِ رائے کی آزادی، ہزاروں آزاد دانش ور و علماء قید خانوں میں بند ہیں، شاہی طمطراق و دبدبہ کے ماتحت پردہ ختم کر کے، بتوں کی نمائش کر کے، رقص و سرود کی محفلیں قائم کر کے، جوا، شراب اور قحبہ گری کو فروغ دے کے روشن خیالی کا ثبوت دیا جا رہا ہے، مغرب نے روشن خیالی، رواداری، آزادی و مساوات جیسے کتنے پُر فریب عنوانات دیے، لیکن اس کی مذہبی جنگوں، نظریاتی بالادستی کی کوششوں، سیاہ فاموں پر ظلم، عورت کا استحصال، اسلاموفوبیا کی مہم اور استعماری ذہنیت ان عقل کے ماروں کو کیوں نظر نہیں آتی۔
اقوامِ متحدہ ہو یا اس کی سلامتی کونسل یا حقوق انسانی کمیشن ان کی کیا حیثیت ہے؟ کیا یہ طاقت ور کے ہتھیار اور کمزوروں پر ظلم کے وسائل و آلۂ کار نہیں؟ کیا ان اداروں نے مظلوموں کی مدد کرنے میں کوئی کامیابی حاصل کی؟ کیا یہ ویٹو پاور رکھنے والے ممالک کے ہاتھ میں گروی نہیں، ترکی صدر نے بار بار یہ اعلان کیا کہ دنیا کو ویٹو پاور رکھنے والے ۵؍ممالک کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا، انھوں نے اس وقت بھی مغرب کو بار بار آئینہ دکھایا کہ جو لوگ یوکرین کی حمایت میں انسانیت کی دُہائی دے رہے تھے، وہ اب غزہ پر کیوں خاموش ہیں؟ انھوں نے اپنے بیانات سے مغرب کے دوہرے معیار کو خوب واضح کیا، ترکی صدر مغرب کے طرزِ فکر اور طرزِ عمل سے خوب واقف ہیں، وہ یہ باتیں پہلے سے کرتے آئے ہیں، اپنی کتاب میں بھی انھوں نے اس سلسلے میں دو ٹوک گفتگو کی ہے، کیوں کہ وہ ان ہی کے درمیان پلے بڑھے ہیں، انھوں نے خوب دیکھا اور سمجھا ہے کہ مغرب جمہوریت کا نعرہ لگاتا ہے، لیکن مسلم ممالک میں وہ جمہوریت کے بجائے، بادشاہت اور فوجی بغاوت اور ڈکٹیٹرشپ کو پسند کرتا ہے، یورپین یونین کی رکنیت کے لیے ترکی سے جمہوری اقدار کی مضبوطی کا مطالبہ بار بار کیا گیا، مگر جب وہاں جمہوریت مضبوط ہوئی تو فوجی بغاوت کی کوشش کی گئی، ترکی کو رکنیت صرف اس لیے نہیں دی گئی ، کیوں کہ ترکی کی مسلم آبادی یونین کےرکن ممالک میں سے کئی ملکوں کی آبادی سے زیادہ ہے۔ سیکولرزم کا مکھوٹا چڑھانے والے مسیحی یورپ کو یہ کب گوارہ ہوگا کہ ترکی ارکان ممالک کی کل آبادی کا 14 سے 15 فیصد مسلم آبادی والا ملک بن جائے۔
خوش آئند یہ ہے کہ اب بہت سے لوگ اس حقیقت کو سمجھنے لگے ہیں اور کھل کر دوہرانے لگے ہیں، قطر کے وزیرِ خارجہ کا یہ بیان بہت معنیٰ خیز اور حقیقت پسندانہ ہے کہ ’’غزہ کی جنگ نے مشرق و مغرب کے درمیان فرق اور دوہرے معیار کو واضح کر دیا ہے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ بات اب بھی نہ سمجھی گئی تو کب سمجھی جائے گی؟ مغرب کے پُر فریب نعروں، سیکولرزم، جمہوریت اور شفافیت اور انسانی اقدار کی پاسداری کو ایک طرف رکھیے اور حالیہ اقدام و بیانات پر غور کیجیے، امریکہ نے سلامتی کونسل میں جنگ بندی تک کی قرار داد کو ویٹو کر دیا، بائیڈن کے دورۂ اسرائیل کے وقت کیے گئے خطاب کو پڑھیے، بلنکن کا وہ بیان دیکھیے جو اس نے اسرائیل پہنچ کر دیا تھا اور کہا تھا کہ میں یہاں امریکی وزیرِ خارجہ نہیں، بلکہ ایک یہودی کی حیثیت سے آیا ہوں۔ بائیڈن نے کہا کہ صہیونی ہونے کے لیے یہودی ہونا ضروری نہیں، میں صہیونی ہوں اور اس حقیقت کے اظہار پر مجھے فخر ہے۔ اسرائیلی صدر نے کہا کہ غزہ کی جنگ صرف حماس اور اسرائیل کی جنگ نہیں ہے، بلکہ یہ مغربی تہذیب کو بچانے اور اس کی حفاظت کرنے کی بھی جنگ ہے۔ ان بیانات کے بعد بھی کیا کوئی مغرب کے دوغلے پن کا انکار کر سکتا ہے! کیا کوئی یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ مغرب فلسطین میں مذہبی اور نظریاتی جنگ نہیں لڑ رہا ہے، وہ اسلامی تہذیب پر مغربی تہذیب کی بالا دستی کے لیے کوشاں نہیں ہے، اسے قیامِ اسرائیل پر کوئی شرمندگی نہیں ہے، اس لیے کہ اس کو قائم ہی اس لیے کیا گیا تھا کہ عربی و اسلامی تہذیب کے قلب میں مغربی تہذیبی استعمار کی ایک چھاؤنی بنائی جائے اور ایک ماڈل قائم کیا جائے، آج اسرائیل کے سبب مغرب شہرِ قدس کے عربی و اسلامی شناخت مٹانے، عرب ممالک سے اسلامی تہذیب کو کھرچ کر صاف کرنے، عرب حکام کو فکری طور پر یہودیانے اور ان کے ذریعہ معاشرہ کو فحاش بنانے میں بڑی حد تک کامیاب ہو چکا ہے۔ بائیڈن کھل کر کہہ رہا ہے کہ ’’صہیونی ہونے کے لیے یہودی ہونا ضروری نہیں، میں صہیونی ہوں اور اس حقیقت کے اظہار پر میں کوئی معذرت نہیں کروں گا، اگر اسرائیل آزاد و مامون نہیں ہے تو پھر دنیا کا کوئی یہودی مطمئن و مامون نہیں رہ سکتا‘‘۔ نتن یاہو نے پہلے عرب حکام کو یہ نصیحت کی کہ ان کی بھلائی اس میں ہے کہ وہ خاموش رہیں، اس کے بعد وہ نام لے لے کر ایک کے بعد ایک مسلم ملک کو دھمکیاں دے رہا ہے۔ لیکن افسوس اس پر ہے کہ مسلم ممالک میں پاکستان سے ترکیہ تک اور سعودیہ سے انڈونیشیا تک کوئی ایک فرد ایسا نہیں ہے جو یہ کہتا اور بائیڈن کے جواب میں بے جھجھک کہتا کہ ’’میں مسلم ہوں اور میں اپنے حق کا دفاع واجب سمجھتا ہوں، مجھے اس حقیقت کے اظہار اور مزاحمت کاروں کی حمایت میں کوئی عار نہیں‘‘۔ مگر اے کاش……….!!
قطری وزیر خارجہ نے جو کچھ کہا درست کہا ، دیر آید درست آید، کاش یہ بات لوگ اور پہلے سمجھ لیتے اور جنھوں نے اب تک نہیں سمجھا وہ بھی سمجھ جاتے ۔مغرب کے نعرے، مغرب کے معاملات، مغرب کی تحقیقات و تحریکات سب جگہ اس کا دوغلا پن Double Standard بہت واضح ہے ، ہماری پریشانی یہ ہے کہ ہمارا دانشور طبقہ (انٹیلیکچول کلاس) ہمیشہ مغرب کی طرف للچائی ہوئی نظروں اور مرعوبیت کے ساتھ دیکھتا ہے اور نتیجے میں پوری قوم کو فکری ، ثقافتی اور سیاسی شکست قبول کرنے کی دعوت دیتا ہے ، بھلا ہو اقبال کا جنھوں نے ’’خیرہ نہ کر سکا مجھے دانشِ جلوۂ فرنگ‘‘ کی طرح ڈالی ، بھلا ہو سفر الحوالی (فک اللہ اسرہ) کا جنھوں نے مغرب کے دوہرے معیار اور کھوکھلے پن کو مغرب کے کردار و عمل اور مغربی دلائل سے اس طرح واضح اور منقح کر دیا کہ اب تک کے نقد و استدراک میں ایسی تفصیل و تدقیق اور لوہے کو لوہے سے کاٹنے کی مثال کم ہی دیکھی گئی ہے، ان کی کتاب ’’المسلمون و الحضارۃ الغربیۃ‘‘ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے، اقبال کو بھی اصل شکوہ مغرب سے نہیں تھا، مغربی تہذیب و تمدن اور افکار و نظریات کے وہ بڑے ناقد تھے، انھوں نے اس کی نا ہمواری اور مفسدات و گمراہیوں کو خوب بیان کیا، انھیں اصل شکوہ تو مغرب سے مرعوب اور مغربیت زدہ مسلم طبقے سے تھا:
یورپ کی غلامی پہ رضا مند ہوا تو
مجھ کو تو گلہِ تجھ سے ہے، یورپ سے نہیں
اقبال ایسے لوگوں کو ’’پست فطرت‘‘سمجھتے تھے ، وہ مغربی افکار کے محرمِ راز تھے، وہ جانتے تھے کہ مغرب کی بنیاد سرمایہ دارانہ سوچ، ہوس پرستی اور ظلم و استبداد پر ہے۔ اسی لیے وہ کہہ گئے:
وہ حکمت ناز تھا جس پر خرد مندانِ مغرب کو
ہوس کے پنجۂ خونیں میں تیغ کار زاری ہے
تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا
جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے
اقبال نے مغربی تہذیب کے کھوکھلے پن، ظاہر پرستی، ظلم پسندی اور استحصالی مزاج اور دوہرے معیار کو خوب واضح کیا ہے، انھوں نے جو کچھ کہا ہے، سوچ سمجھ کر کہا اور مطالعہ و مشاہدہ کی بنا پر کہا :
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ مغرب کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
اقبال کو شک اس کی شرافت میں نہیں ہے
ہر ملتِ مظلوم کا یورپ ہے خریدار
سچ کہا قطری وزیر نے ، اب تک جو کچھ ڈھکا چھپا تھا وہ سب واضح ہو گیا، غزہ نے مغرب کو بالکل بے نقاب کر دیا ، اب بھی اگر کوئی مغرب کی غیر جانبداری کا قصیدہ پڑھے، تو اسے عقل سے کورا یا فکری غلام ہی شمار کرنا چاہیے، جنگ سے لے کر اخلاقی اقدار تک، سیاست سے لے کر علمی تحقیقات تک، مشرق کے ساتھ مغرب نے ہمیشہ دوہرا رویّہ ہی اپنایا ہے، اس کی بنیاد صرف عناد و عداوت رہی ہے اور ہدف صرف فکری، تہذیبی، ثقافتی ، اقتصادی ، سیاسی اور عسکری سطح پر مشرق پر مغرب کی بالادستی ثابت کرنا رہا ہے ، اپنے مقصد میں مغرب سو فیصد کامیاب رہا۔ کیونکہ آج بھی اس کے فکری غلام ہمارے درمیان موجود ہیں جو اس کے ننگے پن کے باوجود اس کی سائنٹفک اپروچ اور غیر جانبداری کے قصیدے پڑھتے ہیں، اس وقت کی بڑی ضرورت یہ ہے کہ مغرب کے دوہرے رویّوں اور علمیت کے پردے میں عداوت اور دلیل کے نام پرغیر منطقی دلیلوں سے پردہ اٹھایا جائے اور اس کے دوغلے پن کو واضح کیا جائے اور دنیا کو دامِ تہذیبِ مغرب سے بچایا جائے، صحیح کہا تھا اقبال نے کہ عربوں نے خلافتِ عثمانیہ کو توڑا اور خود مختاری کا اعلان کیا، لیکن مغرب کے خونی پنجوں میں گرفتار ہو گئے اور ساتھ ہی پیرِ کلیسا کی کرم فرمائی اور فریب کاری سے فلسطین کو ایسا لہو لہان کیا کہ آج تک فلسطینیوں کا خون بہہ رہا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے:
یہ پیرِ کلیسا کی کرامت ہے کہ اس نے
بجلی کے چراغوں سے منور کیے افکار
جلتا ہے مگر شام و فلسطیں پہ مرا دل
تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدۂ دشوار
ترکانِ ’جفا پیشہ‘ کے پنجے سے نکل کر
*بیچارے ہیں تہذیب کے پھندے میں گرفتار