جو ‘اہل دل’ ہیں،مختلف ہیں‘اہل ظاہر ’سے
از قلم :محمد علم اللہ، نئی دہلی
یقینا آپ کو بھی کبھی نہ کبھی اس’سفاک‘،’بے رحم‘اور کسی حد تک ’حقیقت پسندانہ نقطۂ نظر کا سامنا کرنا پڑا ہوگا جس میں اکثر کہا جاتا ہے کہ اگر فلاں شخص اپنے علم یا صلاحیتوں کے باوجود زندگی میں ’ناکام‘ہے تو یہ صرف اس کی اپنی خطا ہے۔ یہ خیال بھی پیش کیا جاتا ہے کہ اگر اس نے اپنی صلاحیتوں کو ’صحیح‘سمت کی طرف موڑا ہوتا، تو اس کے معاشی حالات بلاشبہ بہتر اور زندگی خوشحال ہوتی۔
جب بنیادی طور پر معاش کی عینک سے چیزوں کو پرکھا جائے تو اس نقطۂ نظر میں موجودسنجیدگی حقیقت کی کڑواہٹ کو واضح کرتی ہے۔ بلاشبہ، جیسے ہی کوئی اپنے کیریئر کا آغاز کرتاہے، اس کابنیادی مقصد،مستحکم آمدنی حاصل کرنا ہوتا ہے۔ تاہم، دل والے افراد، یااہل دل کے معاملات یکسر مختلف ہوتے ہیں۔اس معاملے میں بھی وہ اپنے دل سے کام لیتے ہیں،یہاں تک کہ مالی معاملات سے بھی آگے نکل جاتے ہیں۔
آسان لفظوں میں کہوں تو،یہ افراد اپنی خوشی سے اپنے لیے’سودو زیاں‘کاسوداکرتے ہیں۔ وہ اکثردوسروں کے فائدے، معاشرے کی بھلائی، یا ذاتی فائدے پر مفادعامہ کو ترجیح دیتے ہیں اور بخوشی اپنی آمدنی پر سمجھوتہ کرنے کی’قیمت‘ برداشت کرتے ہیں۔اس کانتیجہ دس سے بارہ برس کے بعد ظاہر ہوتا ہے جب مالی استحکام کی نچلی سطح تک پہنچنے کے بجائے، وہ خود کو اس دوڑ میں پیچھے پاتے ہیں۔ انھیں بھانت بھانت کے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا۔آخر کیسے ہوا؟ افسوسناک پہلویہ ہے کہ کچھ لوگ ایسی شخصیات کی قربانیوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور عجلت میں ان پر بدھو، بے وقوف یا احمق ہونے کا لقب لاد دیتے ہیں۔ وہ ان چنوتیوں کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے جن کا سامنا کرنے کے لیے ان دیوانوں نے خود کی بجائے دوسروں اور معاشرے کے زیادہ فائدے کا انتخاب کیا تھا۔
کئی بار، آپ کو معروف اور مقبول شخصیات جیسے ’بڑے آدمیوں‘کی کہانیاں سنائی جاتی ہیں، جو اپنی شہرت و ناموری کے باوجود تہی دست وتنگ دست رہے۔ جس کا مشاہدہ کرنے سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ ان کے خاندان کی مالی حیثیت اس سماجی رتبہ سے میل نہیں کھاتی جو وہ رکھتے تھے۔ وہ اپنے آپ کو کرائے کے مکانوں میں رہتے ہوئے یا کافی روزی کمانے کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
اگر ہم مالی حالات سے کامیابی کا اندازہ لگائیں، تو بلا شبہ، اسے ’ناکامی‘سمجھا جاتا ہے۔یہ بھی سچ ہے کہ روپیہ پیسہ ایک اہم کردار ادا کرتا ہے اور زندگی کے بہت سے پہلوؤں میں سہولت فراہم کرتا ہے۔ اس حقیقت کے باوجودکہ روپیہ پیسہ سب کچھ نہیں ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بہت سی چیزوں کو انجام دینے کی طاقت رکھتا ہے۔ ایسے میں ان حالات کی پیچیدگیوں پر غور کرنا ضروری ہے،حالانکہ دوسروں کے نقطہ نظر کو سننے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ معاملات اتنے سادہ بھی نہیں ہیں۔
ہم جس فانی دنیا میں رہتے ہیں،کنکر پتھر اور بڑی عمارتیں بھی مٹی میں مل جاتی ہیں اور یہ بھی دولت کی بنیاد پر ہی کھڑی ہوتی ہیں۔ کوئی فرد کتنا ہی قابل کیوں نہ ہو، وہ اپنے پیٹ کی آگ کو نہیں بجھا سکتا، نہ سر چھپانے کی جگہ تلاش کر سکتا ہے، یا صرف ذہانت، قابلیت، علمی مرتبے یا دانشورانہ حیثیت سے اپنا یا اپنے خاندان کا علاج نہیں کرا سکتا۔ یہ حقیقت ہے، جب تک کہ ان صلاحیتوں کو صحیح سمت میں منتقل نہ کیا جائے اور موثر طریقے سے استعمال نہ کیا جائے، جسے اکثر ’مارکیٹ‘کہا جاتا ہے۔
اس بات کو نظرانداز کرنامشکل ہے کہ کھانے پینے اور سودا سلف سے لے کر کپڑے لتے تک، جس میں مارکیٹ میں مختلف ’سروسز‘میں، ’فروخت‘ میں مشغول ہنر مند کارکنان شامل ہیں، کسی بھی اچھی پروڈکٹ کی طرح، ان کو بھی کامیابی کے ساتھ تجارت کرنے کے لیے ’ڈیمانڈ‘ اور’سپلائی‘جیسے اہم عوامل کی ضرورت ہوتی ہے، ساتھ ہی مؤثر تشہیر بھی۔
اب چیزیں تو بے جان ہوتی ہیں، آپ انہیں جہاں چاہیں بیچ سکتے ہیں، لیکن جو ’خدمت‘کرتے ہیں وہ زندہ انسان ہوتے ہیں۔ اگر وہ اپنے مالی فائدے کو دوسروں کے سماجی، سیاسی، طبی یا تعلیمی فائدے کے لیے قربان کر دیں گے تو ان کا مالی’فائدہ‘یقینا کم ہو گا، لیکن یہ معاشرے میں کہیں اور جمع ہو جائے گا، جب کہ ان کی تہی دستی دیکھنے اور جاننے والے کو صرف ان کی’ناکامی‘ ہی کا پتہ دے گی۔
افسوس کے ساتھ، ان لوگوں کے لیے جو کامیابی کو صرف عددی یافت کی کوتاہ نظری سے دیکھتے ہیں، ان افراد پر غیر منصفانہ طور پر ’ناکامیوں‘کا لیبل لگایا جا سکتا ہے اور ان کے خاندانوں کو ’پھکڑ‘سمجھا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ مالیاتی معیارات کی سطح کے نیچے ان کی لگن اور قربانیوں نے ممکنہ طور پر بہت سے لوگوں کی زندگیوں کو ان کے اور ان کے رشتہ دار دونوں کی زندگیوں کو ان طریقوں سے مالا مال کیا ہوا ہوتا ہے جو روایتی کامیابی کے دائرہ سے کہیں آگے ہوتے ہیں۔
آپ سوچیں کہ اگر اساتذہ، مفکرین، دانشوروں، شاعروں، ادیبوں اور صحافیوں وغیرہ نے ہماری سوچ اور فکر کو نئی سمت نہ دی ہوتی تو معاشرے میں روشنی کی قندیل کون جلاتا؟ علم و حکمت کے سوتے کہاں سے پھوٹتے؟ اگر پورے معاشرے کی ذمہ داریاں نبھانے والے اور ان کے بارے میں سوچنے والے یہ مٹھی بھر’سر پھرے‘زندگی کے دکھوں اور غموں کو خوشی سے نہ چومیں تو اپنی اور اس کے بغیر اپنے سماج کی زندگی کا تصور کریں، کیسا ہوگا؟ مختلف سائنسی اور سماجی علوم کے ماہرین، طبی محققین، سائنسدانوں اور انجینئروں کی ناگزیر شراکت پر غور کریں۔ اگر ان کی توجہ صرف اور صرف مالیاتی فوائد اور خود کی کیرئیر پر مرکوز ہوتی، جنھوں نے عارضی کامیابی کو نظر انداز کرتے ہوئے ہمیں بے شمار دریافتوں، ادویات اور سائنسی ترقیوں سے مالا مال کر دیا اور جنھوں نے ہماری زندگیوں کوآسانی اور سہولت سے بھر دیا،اگر وہ یہ سب نہ کرتے تو ہمارا سماج کیسا ہوتا؟
یہ ان لوگوں کے اہم کردار کی نشاندہی کرتا ہے جنہوں نے مالی کامیابی پر محدود توجہ کے بجائے علم، تخلیقی صلاحیتوں اور عوامی بہبود کے حصول کو ترجیح دی۔ ان کا اثر انفرادی کامیابیوں اور مالی فوائد سے بہت آگے تک پھیلا ہوا ہوتا ہے، جو مجموعی طور پر معاشرے کی اجتماعی حکمت اور فلاح و بہبود کو تقویت بخشتے اور ہمارے سماج کو مزید توانا اور مضبوط بنانے میں معاون و مددگار ہوتے ہیں صرف مادی نہیں بلکہ روحانی اور اخلاقی اعتبار سے بھی۔
بلاشبہ محض مالی فوائد سے بے پرواہ افراد جنہوں نے معاشرے کی بہتری کے لیے اپنے ذاتی سکون کو قربان کر دیا، ان کی شراکتیں نہ صرف تعریف کی مستحق ہیں بلکہ مقام ادب پر رکھنے کے لائق بھی ہیں، اس لیے ہمیں ان پرناکام ’زندگی‘کا لیبل لگانے کے بجائے،اجتماعی بہبود پر ان کے زبردست اثرات کو پہچاننے کی کوشش کرنی چاہیے۔
ان پر طعن و تشنیع کے تیر برسانے سے پہلے سائنسی تحقیق اور ترقی میں ایسے افراد کے اہم کردار پر بھی غور کرنا چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ اگر ہر کوئی صرف اور صرف مالی منفعت کے پیچھے بگ ٹْٹ بھاگنا شروع کر دیتا تو کیا آج ہم اپنی زندگی میں اسی سطح کی ترقی اور آسانی کا مشاہدہ کرتے؟ اسی طرح وہ لوگ جنہوں نے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی، اکثر اپنے معاش کی پرواہ کیے بغیر، معاشرے کی ترقی اور فلاح و بہبود کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کیا ،کیا وہ سچ مچ بے وقوف تھے؟
ایسی سوچ رکھنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسے افراد کے کاموں کی تعریف کریں کہ ان افراد کی نام نہاد’ناکام زندگی‘درحقیقت اہم سماجی ترقی اور فلاح و بہبود کا باعث ہے۔ ان کی بظاہر چھوٹی ’ناکامیاں‘ مثبت تبدیلی کے لیے مشعل راہ ہیں جو معاشرے کے مختلف گوشوں میں امید اور روشنی کی کرن دکھاتی ہیں۔
اگر قدرت کے نظام کی وجہ سے ان کی جیبیں خالی رہتی ہیں تو یہ بات تسلیم کرنے کے قابل ہے کہ بدلے میں وہ سماجی بہتری کی اپنی خواہش اور ارادے کی تکمیل کی صورت میں کامیابی فراہم کرتے ہیں،ان کی قربانیاں ایک ایسے نظام میں حصہ ڈالتی ہیں جہاں معاشرتی ترقی اور انفرادی بھلائی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں، یہ نہ ہوں تو ہمارا سماج اداس جنگل اور بے روح انسانی ڈھانچوں کا ریوڑ بن جائے۔
ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ کامیابی مالی فائدے سے کہیں آگے کی چیز ہے، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو علم، تخلیقی صلاحیتوں اور عوامی فلاح و بہبود کو ترجیح دیتے ہیں۔ معاشرہ اکثر انھیں ناکامیوں کے طور پر دیکھتا ہے، لیکن ان کی لگن زندگیوں کو ان طریقوں سے مالا مال کرتی ہے جو مالی معیارسے بالاتر ہیں۔ اساتذہ، دانشوران ، مصنفین اورماہرین اجتماعی دانش مندی اور سماجی فلاح و بہبود کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس لیے اگر آپ ان کے لیے کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم طنز و تعریض سے ان کا دل بھی نہیں دکھائیں۔