از:ـ عبدالغفارصدیقی
آج کل ہر طرف ایک بار پھر بابری مسجد کا چرچا ہے لیکن ایودھیا والی نہیں بلکہ مرشدآباد (مغربی بنگال والی)۔وہاں ہمایوں کبیر صاحب نے چھ دسمبر 2025کو بابری مسجد کا سنگ بنیاد رکھا ہے۔انھوں نے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ہم یہ مسجد ایودھیا میں منہدم بابری مسجد کی جگہ بنارہے ہیں۔حالانکہ ہر شخص جو ذرا سی بھی عقل رکھتا ہے یہ جانتا ہے کہ اگر ملک میں ایک نہیں سو بابری مسجدیں بھی تعمیر ہوجائیں تو ایودھیا میں ظالمانہ طور پر منہدم کی گئی مسجد کی جگہ پُر نہیں ہوسکتی۔نہ اس سیاہ دن کی سیاہی میں ذرہ برابر فرق آسکتا ہے۔اصل بابری مسجد کو جس طرح سازش کرکے ڈھایاگیا اور پھر جس طرح عدالت عالیہ نے بغیر شواہد و ثبوت کے رام مندر کے حق میں فیصلہ سنایا وہ بھارتی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھاجائے گا۔بابری مسجد کا انہدام ہندوستانی مسلمانوں کے تشخص کا انہدام تھا۔اس دن محض ایک عبادت گاہ کو نہیں ڈھایاگیا تھا بلکہ وطن عزیز میں اسلام کی عظمت کو سبوتاژ کیا گیا تھا۔یہ تو مسلمانوں کا ظرف تھا کہ انھوں نے عدالت عظمیٰ کا احترام کیا اور ہمیشہ کی طرح آئین ہند پر یقین و اعتماد کا اظہار کیا۔
ہمایوں کبیر پر بات کرنے سے پہلے ذرا چند باتوں کو سمجھنا لینا چاہئے۔پہلی بات یہ ہے کہ جس ملک میں بابر کا نام لینا جرم ہو،جہاں مغل بادشاہوں کے نشانات کو مٹایا جارہا ہو،جہاں مسلم سلطنت کے باقیات ”غلامی کے پرتیک“سمجھے جاتے ہوں،وہاں بابرکے نام پر مسجد بنائے جانے پر گودی میڈیا بہت خوش نظر آرہا ہے۔ہر ٹی وی ڈبیٹ میں اینکر مسلم دانشوروں سے یہی سوال کررہا ہے کہ آپ بابری مسجد کی مخالفت کیوں کررہے ہیں؟گودی میڈیا کی خوشی دیکھنے لائق ہے۔تعجب اس پر بھی ہے کہ بی جے پی کی لیڈر شپ کی زبانوں پر بھی تالے ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بابر کے نام پر مسلمانوں کو مطعون کرنے والے رہنما ؤں کی اس پرجیکٹ کو خاموش تائید حاصل ہے۔کلکتہ ہائی کورٹ کو بھی اس پر کوئی ”آپتّی“ (اعتراض) نہیں ہے۔عدالت نے نہ صرف یہ کہ اس کی تعمیر پر روک لگانے سے انکار کردیا بلکہ ریاستی پولس کو امن و قانون بنائے رکھنے کی ہدایت بھی دی۔اس نے یہ بھی نہیں کہا کہ آپ اس کا نام بدل لیں۔آخر اس کے پیچھے کیا سازش ہے؟مسجدوں کو منہدم کرنے والے بابر کے نام پر مسجد کی تعمیر پر کیوں خاموش تماشائی ہیں؟
ہمایوں کبیر کے بارے میں جو معلومات سوشل میڈیا کے ذریعہ دستیاب ہوئی ہیں۔وہ کوئی بہت اہم نہیں ہیں۔وہ کوئی بڑے مسلم رہنما کبھی نہیں رہے۔نہ ان کا تعلق کسی علمی و دینی گھرانے سے ہے۔انھوں نے اصل بابری مسجد کی بازیابی میں کوئی کردار ادا نہیں کیا،نہ اس کے انہدام پر آنسو بہائے۔ان کا سیاسی کیرئر بھی قابل اعتماد نہیں رہا۔کیوں کہ وہ کسی بھی پارٹی کے وفادار نہیں رہے۔ادھر سے اُدھر ہوتے رہے۔ٹی ایم سی سے پہلے بھی چھ سال کے لیے نکال دیے گئے تھے،کانگریس میں رہے اور بی جے پی سے بھی الیکشن لڑچکے ہیں،ایک بار آازد امید وار کی حیثیت سے قسمت آزمائی تھی۔یہ کردار اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ ان کا یہ اقدام مخلصانہ نہیں بلکہ منافقانہ ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ بابری مسجد کے عوض سنی وقف بورڈ کو جو پانچ ایکڑ زمین دھنی پور میں دی گئی تھی،اس کا کیا حال ہے؟یہ زمین تو عدالت عالیہ کے حکم پر الاٹ ہوئی ہے۔سنا ہے کہ وہاں مسجد بنانے میں سرکاری دفاتر رکاوٹیں کھڑی کررہے ہیں۔اس ایشو پر ہمایوں کبیر جیسے لوگ کیوں خاموش ہیں؟
دراصل مغربی بنگال وہ ریاست ہے جہاں بی جے پی کی دال ذرا کم گل رہی ہے۔اسے کسی ایسے ایشو کی ضرورت ہے جس کے ذریعہ وہ ہندوووٹروں کو اپنے حق میں پولرائز کرسکے۔اگر مسجد بن گئی (جس کے امکان کم ہیں) تو وہ شور مچاکر کہے گی کہ دیدی نے مسجد بنوادی،اگر نہیں بنی تو مسلمانوں کو اکسائے گی کہ دیدی نے مسجد نہیں بننے دی۔اس کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لڈونظر آرہے ہیں۔اب دیکھئے آگے آگے کیا ہوتا ہے؟کہیں ایسا تو نہیں بنگال کو بھی اترپردیش بنانے کا ارادہ ہو کہ پہلے بابر کے نام پر مسجد بنانے دی جائے اور پھر اس کے خلاف ریاست اور ملک میں رتھ یاترا نکالی جائے۔یہ بھی ممکن ہے کہ ملک کی اکثریت کو مندر مسجد میں الجھائے رکھنے کے لیے نئی بابری مسجد کی تعمیر کرائی جارہی ہو۔کلکتہ میں منعقدہ ”بھویہ گیتا پاٹھ“ سے مغربی بنگال کو ہندوراشٹر کی اگلی تجربہ گاہ بنانے کا آغاز کیا جاچکا ہے۔
ایسی ہی ایک مسجد نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں تعمیر کی گئی تھی۔جس کا مقصد اللہ کی عبادت نہیں بلکہ مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنا تھا۔ مدینہ کے منافقین—جن کی رہنمائی عبداللہ بن اُبی اور اس کے ساتھی کر رہے تھے۔ وہ یہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کا شیرازہ بکھر جائے اور ان کے درمیان بدگمانی اور اختلافات جنم لیں۔ایک روز انہوں نے منصوبہ بنایا کہ مدینہ کے ایک کنارے پر ایک الگ ”مسجد“ قائم کی جائے۔ بظاہر اس کا مقصد یہ ظاہر کیا گیا کہ یہ مسجد کمزور اور بیمار لوگوں کے لیے ہے تاکہ بارش اور اندھیری راتوں میں وہ آسانی سے عبادت کر سکیں۔ لیکن اس کی اینٹوں میں نفاق کی آگ چھپی ہوئی تھی۔ قرآن نے ان کے اس عمل کی حقیقت یوں آشکار فرمائی:
وَالَّذِینَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّکُفْرًا وَّتَفْرِیقًا بَیْنَ الْمُؤْمِنِینَ… (التوبہ: 107)
”اور (وہ لوگ) جنہوں نے ایک مسجد بنائی نقصان پہنچانے کے لیے، کفر کے لیے اور اہلِ ایمان میں تفرقہ ڈالنے کے لیے…“
یہ ”مسجد ضرار“ دراصل ابو عامر الراہب—جو اسلام کا سخت دشمن تھا—کا منصوبہ تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ یہ عمارت منافقین کا خفیہ مرکز بنے، جہاں سے وہ مسلمانوں کے خلاف سازشیں بُن سکیں۔جب مسجد تیار ہوگئی تو منافقین چند صاف ستھرے کپڑے پہن کر بارگاہِ نبوی میں حاضر ہوئے۔ بڑی عاجزی سے عرض کیا:۔”یا رسول اللہ! ہمارے محلے میں بیمار اور کمزور لوگ رہتے ہیں، بارش اور سردی کے دنوں میں انہیں مسجدِ قباء جانا مشکل ہوتا ہے۔ ہم نے ایک چھوٹی سی مسجد بنائی ہے، آپ اس میں آکر نماز پڑھ دیں تاکہ یہ جگہ برکت والی ہوجائے۔“یہ دعوت بظاہر بڑی نیک تھی، لیکن جیسے ہی رسول اللہ ﷺ غزوہ تبوک کی طرف روانہ ہوئے، اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے اس مسجد کا اصل چہرہ کھول دیا۔ آپ ﷺ کو بتایا گیا کہ یہ مسجد خیر کے لیے نہیں بلکہ ضرر، تفرقہ اور نفاق کے لیے بنی ہے۔ چنانچہ نبی ﷺ نے واپسی پر اس مسجد میں قدم رکھنے سے منع فرما دیااور تبوک سے واپسی پر نبی کریم ﷺ نے دو جلیل القدر صحابہ—مالک بن دخشم رضی اللہ عنہ اور معن بن عدی رضی اللہ عنہ—کو بلوایا۔ انہیں حکم دیا:”اس مسجد کے پاس جاؤ، جسے ظلم و شر کے لیے بنایا گیا ہے، اسے گرا دو اور جلا دو۔“(مسند احمد)
رات کے پر سکوت ماحول میں یہ دونوں صحابی چند ساتھیوں کے ساتھ مسجد ضرار کی طرف روانہ ہوئے۔ وہاں پہنچے تو اس عمارت پر خاموشی کا سایہ تھا۔ مگر اس کی دیواروں سے نفاق کی سیاہی جھلک رہی تھی۔ انہوں نے لکڑیوں اور کنڈوں کی مدد سے اسے زمین بوس کرنا شروع کیا۔ کچھ ہی دیر میں اس کی دیواریں گر گئیں۔ پھر اس کے ملبے کو آگ لگا دی گئی۔ شعلے بلند ہوئے تو یوں لگا جیسے اُس فتنہ کا دھواں آسمان کی طرف اٹھ رہا ہو جو منافقین نے مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا تھا۔صبح ہوئی تو وہاں مسجد نہیں تھی، صرف ایک ہموار زمین تھی۔ حقیقت آشکار ہوچکی تھی کہ جو گھر اللہ کے نام پر نہیں بلکہ فتنہ و فساد کے لیے بنایا جائے، وہ عبادت گاہ نہیں رہتا، بلکہ ظلم کا اڈہ بن جاتا ہے اور اللہ کی سنت یہ ہے کہ ایسے مراکز ہمیشہ مٹائے جاتے ہیں۔
مغربی بنگال کے لوگوں کو یہ بھی سوچنا ہے کہ اس مسجد کی تعمیر میں کسی بھی مسلم ملی و سماجی اور دینی جماعت نے حصہ نہیں لیا۔مسلم پرسنل لاء بورڈ نے بھی کوئی دل چسپی نہیں دکھائی۔انھیں مسجد کی تعمیر میں اگر حصہ لینا ہے تو اس صرف رضائے الٰہی کے لینا چاہئے۔انھیں کسی کے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل میں معاون نہیں بننا چاہئے۔دنیا میں کون مسلمان ہوگا جو مسجد کی تعمیر سے خوش نہیں ہوگا۔لیکن اگر وہ مسجد کسی سیاسی سازش کا حصہ ہو تو اس سے دورر ہنے میں ہی عافیت ہے۔ملک کے مسلمانوں کو اس پر بھی غور کرنا چاہئے کہ نئی مسجد کا نام بابری مسجد ہی کیوں ہے،اگر کسی مسجد کی واقعی ضرورت ہے تو کسی دوسرے نام پر بھی بنائی جاسکتی ہے۔اسلام میں ہم وطنوں کے حقوق میں یہ ان کا حق بھی شامل ہے کہ ان کی دل آزاری سے گریز کیا جائے،جن ناموں سے انھیں تکلیف پہنچتی ہو،وہ نہ رکھے جائیں۔قرآن مجید میں ان کے معبودوں کوبراکہنے سے اسی لیے منع کیا گیا ہے۔بھارتی مسلمان اسی رواداری کے سبب گائے کا ذبیحہ نہیں کرتے۔یا د رکھیے جو مسجد اللہ کی عبادت کے لیے بنے گی اس میں حصہ لینا کارخیر کہلائے گا اور جو مسجد کسی سیاسی مفاد کے حصول کے لیے بنے گی اس میں تعاون کرنے پر کوئی اجر نہیں ملے گا۔
مغربی بنگال میں ٹی ایم سی مضبوط پوزیشن میں ہے،بی جے پی اور سنگھ کی کوشش ہے کہ اس قلعہ میں سیندھ لگائی جائے۔بی جے پی کے اس ہدف کو حاصل کرنے میں ہمایوں کبیرمعاون بنتے نظر آرہے ہیں۔انھوں نے اعلان کیا ہے کہ اپنی پارٹی بنائیں گے اور 130سیٹوں پر اپنے امید وار اتاریں گے،دوسری طرف بقلم خود قائد ملت حضرت اویسی صاحب بھی رہیں گے،عام آدمی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی بھی قسمت آزمائے گی۔کمیونسٹ تو تال ٹھونکیں گے ہی۔ایس آئی آر بھی اسی مقصد کے لیے کرایا جارہا ہے،باقی بچا کھچا کام ای وی ایم کردے گی۔یہ ہم سب بہار میں دیکھ چکے ہیں۔مگر میں سمجھتا ہوں کہ بنگال کے لوگ ذہین ہوتے ہیں۔وہ دل سے کم دماغ سے زیادہ کام لیتے ہیں۔ وہ مسجد بھی بنائیں گے اور ریاست کو فرقہ پرستی کے زہر سے بھی محفوظ رکھیں گے۔
ہر کوئی یہ جانتا ہے جو ذرا ہشیار ہے
بابری مسجدنہیں یہ مسجد ضرار ہے