ترتیب: ڈاکٹر سلیم انصاری جھاپا، نیپال
یہ مضمون معروف عالم دین شیخ عبدالمعید مدنی کے ایک بصیرت افروز تجزیے پر مبنی ہے، جس میں مشرقِ وسطیٰ میں جاری مسلسل کشمکش اور فلسطینیوں کی حالتِ زار کو گہرائی سے بیان کیا گیا ہے۔ عام قارئین کی سہولت کے لیے اسے مختصراً پیش کیا جا رہا ہے۔
مشرقِ وسطیٰ کا خطہ طویل عرصے سے مغربی استعماری طاقتوں کے نشانے پر ہے۔ برطانیہ، امریکہ اور ان کے اتحادی ممالک نے گزشتہ ایک صدی سے اس خطے کو اپنے سیاسی، عسکری اور معاشی مفادات کے لیے استعمال کیا ہے۔ ان طاقتوں نے یہاں کے قدرتی وسائل، خصوصاً تیل اور گیس پر قبضہ کیا اور مقامی عرب حکومتوں کو اپنی حفاظت اور عیش و عشرت کے وعدوں سے بے دست و پا بنا دیا۔ ان کی سیاست کا مقصد صرف یہی رہا کہ عرب حکمران مغرب کے رحم و کرم پر رہیں، اور ان میں خود اعتمادی اور خود ارادیت پیدا نہ ہو۔ اس ماحول میں مقامی ریاستیں مغرب کی عیاشی زدہ پالیسیوں کی پیروی کرتی رہیں، جبکہ ان کے فیصلے کسی خود مختار قوم کے شایان شان نہ رہے۔
فلسطین کا مسئلہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت پیدا کیا گیا، اور رفتہ رفتہ اسے دنیا کا سب سے پیچیدہ اور مظلوم ترین تنازع بنا دیا گیا۔ ایک صدی قبل عرب دنیا میں ہاشمی قیادت نے فلسطینیوں سے غداری کی، جس کے نتیجے میں صہیونی ریاست کو فلسطین میں جڑیں جمانے کا موقع ملا۔ فلسطینی قوم بے گھر ہو گئی، ان کی زمینیں چھین لی گئیں، اور پوری قوم خیموں میں رہنے پر مجبور ہو گئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ تمام جنگیں، معاہدے اور امن کوششیں ناکام ہو گئیں کیونکہ مغرب نے ہمیشہ اسرائیل کی حمایت کی اور عربوں کو کمزور کیا۔ عرب حکومتیں بے بسی کا شکار ہو کر صرف مذمتی بیانات پر اکتفا کرتی رہیں۔
فلسطین کی حالیہ تاریخ میں سب سے نمایاں کردار حماس کا رہا ہے، جس نے غزہ میں اپنی حکومت قائم کی اور مسلسل صہیونی ریاست کے خلاف مزاحمت کی قیادت کی۔ حماس کی تحریک نے ایک اسلامی اور عربی شناخت کو اجاگر کیا، جبکہ باقی دنیا صرف کانفرنسیں، قراردادیں اور محدود امداد تک محدود رہی۔ فلسطینیوں نے صدیوں کی غلامی، ذلت اور تشدد کو سہا ہے۔ 1967 اور 1973 کی جنگوں کے بعد کی نسلوں نے صلح، مزاحمت، معاہدے اور استسلام سب کچھ دیکھ لیا، مگر حقیقی آزادی نہ ملی۔ حماس کی قیادت میں فلسطینی عوام نے اپنی خودداری اور دینی وابستگی کو قائم رکھا، جس نے اسرائیل کو چیلنج دیا اور دنیا کی توجہ حاصل کی۔
ایران اور حماس کے تعلقات پر کافی اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب پوری عرب دنیا نے فلسطینیوں کو تنہا چھوڑ دیا تو ایران وہ واحد ملک تھا جس نے کھل کر ان کی حمایت کی۔ ایران کی سیاست اور مذہبی شناخت سے اختلاف کے باوجود، اس نے فلسطینی مزاحمت کی اخلاقی اور عسکری مدد کی۔ یہ تعلق صرف ایک مجبوری کے تحت ہے، کیونکہ مغرب اور اس کے حامی ممالک نہ صرف خاموش ہیں بلکہ بعض اوقات اسرائیل کے مظالم میں شریک بھی نظر آتے ہیں۔ حماس کا ایران سے تعلق دراصل عرب دنیا کی ناکامی کا مظہر ہے، جس نے فلسطینیوں کو حمایت کے بجائے تنقید کا نشانہ بنایا۔
حماس اور فلسطینی عوام کو ایران سے تعلقات کی بنیاد پر رافضی یا دشمن اسلام قرار دینا ایک سنگین اخلاقی و دینی جرم ہے۔ شیخ مدنی کے تجزیے کے مطابق، ایسے افراد جو فلسطینیوں کی مظلومیت پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں، ان کی شہادتوں کا مذاق اڑاتے ہیں یا ان کے خلاف فتوے صادر کرتے ہیں، وہ درحقیقت انسان نہیں بلکہ درندے ہیں۔ دین اسلام ہمیں عدل، رحم اور مظلوم کی حمایت کا درس دیتا ہے۔ اگر کسی مسئلے کا مکمل فہم نہ ہو تو خاموشی بہتر ہے۔ دشمنی میں بھی انسانیت اور عدل کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔
مشرقِ وسطیٰ کا اصل مسئلہ جیو پولیٹکس (سیاسی طاقت کا کھیل) اور جیو اکنامی (معاشی مفادات) بن چکا ہے۔ اسرائیل اور اس کے حمایتی ممالک عربوں اور مسلمانوں کے مسائل کو صرف اسی نظر سے دیکھتے ہیں۔ فلسطینیوں کی جدوجہد کو یا تو دہشتگردی کہا جاتا ہے یا اسے ایران کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ شیخ مدنی کے مطابق، جب تک اہلِ سنت کی قیادت مشرقِ وسطیٰ میں مضبوط نہیں ہوتی، یہ خطہ مغربی استعماری طاقتوں اور داخلی کمزوریوں کی بھینٹ چڑھتا رہے گا۔ مصر، سعودی عرب اور قطر جیسی ریاستیں اگر قیادت کا کردار ادا کریں تو ایک توازن قائم ہو سکتا ہے، مگر بدقسمتی سے ان میں فیصلہ کن قیادت کی کمی ہے۔ اسی لیے فلسطینیوں کا مقدمہ کمزور ہو جاتا ہے اور دنیا اسے صرف ایک سیاسی تنازع سمجھ کر نظر انداز کر دیتی ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں جاری کشمکش، بالخصوص فلسطین کا قضیہ، محض ایک سیاسی یا مذہبی تنازع نہیں بلکہ ایک تہذیبی اور انسانی مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کو صرف مسلکی یا جیوپولیٹکل زاویے سے دیکھنا ناانصافی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوں، بغیر کسی تعصب کے، اور امت کو اس فتویٰ بازی، مسلکی تقسیم اور غیر انسانی رویوں سے نکالیں۔ اگر ہم نے اس نازک مرحلے پر بھی انصاف کا ساتھ نہ دیا، تو ہماری تاریخ بھی انہی قاتلوں کے ساتھ لکھی جائے گی جنہوں نے مظلوموں کا خون بہایا۔