مذہبی مافیا ازم ، مسلم معاشرے کا ایک خطرناک ناسور

از:- ہارون رشید عاصم

از:- جمعیت دار ارقم، دار الرشید، گولا

دنیا کے ہر شعبے میں مافیا ازم (Mafia-ism) نے اپنی جڑیں مضبوط کر لی ہیں۔ معیشت، سیاست، صحافت، طب، تعلیم، حتیٰ کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اس کی لپیٹ میں آ چکی ہیں۔ اب یہ زہر مذہبی اداروں، افراد اور شخصیات میں بھی سرایت کر چکا ہے۔ مذہبی دنیا میں بھی طاقت، وسائل اور اثر و رسوخ کو محفوظ رکھنے کے لیے وہی خفیہ ہتھکنڈے اپنائے جا رہے ہیں جو اصل میں جرائم پیشہ نیٹ ورک کا شیوہ ہوتے ہیں۔ اس فکری زوال نے اسلامی معاشرے میں عقیدت کو اثاثہ اور خدمت کو تجارت بنا دیا ہے۔ معاشرے میں
قرآنی مزاج کی پامالی عام ہوچکی ہے۔ اسلام نے اہل ایمان کو ایک دوسرے کے لیے "رُحَمَاءُ بَیْنَہُمْ” (الفتح) کا مزاج دیا، یعنی وہ آپس میں نرم دل اور باہمی شفقت رکھنے والے ہوں اور کفر کے مقابلے میں سخت۔ یہ آیت نہ صرف افراد بلکہ اداروں اور جماعتوں پر بھی یکساں لاگو ہوتی ہے۔ لیکن افسوس کہ آج مذہبی اختلاف کا محور رحم و درگزر کے بجائے سیاسی رسہ کشی اور ذاتی مفاد اور عداوت وبغض کا نقطہ ارتکاز بن چکا ہے۔ باہمی نرمی کی جگہ گروہی سختی نے لے لی ہے، گویا ہم نے آیت کے بنیادی مدعا کو پس پشت ڈال دیا ہے۔
مذہبی مافیا ازم اب ایک واضح مذہبی شکل اختیار کر چکا ہے، جس کے بنیادی مظاہر کچھ اس طرح ہیں۔ عقیدت اور اثر و رسوخ کی نجکاری، شخصیات اور گروہوں نے عقیدت کو موروثی سرمایہ بنا لیا ہے۔ پیروکاروں کو نہ سوال کی گنجائش ہے، نہ اختلاف کی اجازت۔ بس ہاں حضوری، تملک وچاپلوسی کو دین کا معیار سمجھا جانے لگا ہے۔وسائل پر اجارہ داری کوشریعت کہا جانے لگا۔ مسجد، مدرسہ اور تحریک وتنظیم کا چندہ مخصوص افراد یا گروہوں کی ذاتی ملکیت تصور کیا جاتا ہے۔ اپنا چندہ حلال اور دوسروں کا حرام قرار دینے کا غیر اخلاقی مزاج عام ہو چکا ہے۔
نظریاتی بلیک میلنگ کا دور دورہ ہے۔فتوے، بائیکاٹ ،غیبت وچغلی کے حلقے اور میڈیا مہمات کے ذریعے ہر مخالف آواز کو کچلنے کی منظم کوشش کی جاتی ہے۔اخلاقی دیوالیہ و دوغلا پن کو خوبی سمجھا جاتا ہے۔ ظاہری خطابت میں وحدت امت کی بات کی جاتی ہے، مگر درپردہ فرقہ وارانہ سرپرستی، تعصب،بغض وعداوت اور ذاتی انا کو بڑھاوا دیا جاتا ہے۔ زبان پر تقویٰ، عمل میں ریا یہی اس منافقت کی نمایاں علامت ہے۔

چندہ کلچر اور دینداری کی ملکیت

کا مزاج مضبوط ہورہا ہے۔ دینی اداروں کے مالی وسائل کبھی ’’وقف فی سبیل اللہ‘‘ ہوا کرتے تھے۔ آج وہ شفافیت سے محروم ہو کر ذاتی یا گروہی خزانے بن چکے ہیں۔ اس ‘‘نجی ملکیت’’ نے خدمت کو ریونیو ماڈل( آمدنی کا طریقہ کار) میں بدل دیا ہے۔ جب علم، کردار سازی کے بجائے ناموری کی تشہیر کا ذریعہ بن جائے، اور تحقیق امت کی رہنمائی کے بجائے کسی فرد یا ادارے کی واہ واہ کے لیے ہو، تو سمجھ لیجیے کہ تعلیم اب عبادت نہیں، شہرت کا ہتھیار بن چکی ہے۔ اور انفرادی شہرت کو شرعی مقصد کا ہم معنی قرار دے دیا گیا ہے۔ یہ وہ خطرناک رجحان ہے جو دین کی بنیادوں کو متزلزل کر رہا ہے۔ مذہبی مافیا ازم کے تباہ کن اثرات ہر سطح پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ تحقیق وتفقہ فی الدین کا دروازہ تنگ کر دیا گیا ہے، صالح نقدو تبصرہ کی بھی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ ملت کا اجتماعی موقف کمزور ہو چکا ہے۔ مذہبی قیادت خارجی ایجنڈوں کے لیے نرم ہدف بن چکی ہے۔ اخلاص کی جگہ دکھاوا، زہد کی جگہ ظاہرداری نے لے لی ہے۔ فرقہ وارانہ بدگمانی عام ہے، اور امت کسی اجتماعی منصوبے پر جمع نہیں ہو پاتی۔ مسلم معاشرے میں اشداء بینہم کی صورت حال بنتی نظر آتی ہے۔ اسلام نے ’’رحماء بینہم‘‘ کا مثالی معاشرہ قائم کیا تھا، ہم نے اسے ’’اشداء بینہم‘‘ میں بدل دیا ہے۔ جب مافیا ازم دین ومذہب کی چادر اوڑھ لیتا ہے، تو نہ صرف عقل بلکہ ایمان بھی اندر سے کھوکھلا ہو جاتا ہے۔ مسلم معاشرے کی انتہائی افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ،ایک دوسرے کے خلاف زہریلی گفتگو، بلا تحقیق پروپیگنڈہ اور ذاتیات پر حملے، آج کے اکثر علماء، ائمہ اور مذہبی نمائندوں کا محبوب مشغلہ بن چکا ہے۔ جس دین نے زبان، دل، اور نیت کی پاکیزگی کو ایمان کا جزو قرار دیا، وہاں آج ان اوصاف کا جنازہ نکالا جا رہا ہے۔

اصل ضرورت ہے کہ ہم اپنی نیتوں میں وسعت اور منہج نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کریں۔ بصورت دیگر ، نہ دین بچے گا نہ دنیا، اور تاریخ ہمیں ’’دین کے مافیاؤں‘‘ کے طور پر یاد رکھے گی۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔