از:- شاہد عادل قاسمی ارریہ
اکتوبر کی پندرہویں شب خنک کے ساتھ گزر چکی ہے،سولہویں کا سرد سورج شعاعوں کو لپیٹ میں لیے محو سفر ہے، دن کے اجالے میں میری شریکٍ حیات ماضی کے پنوں کو بھلاکر حالیہ حالات پر ہم کلام ہیں، طرز گفتگو اور انداز بیان سے مجھے آج منطق اور فلسفہ کی استانی دٍکھ رہی ہیں، اندازٍ سخن نے مجھے انھیں یہ کہنے پر مجبور کیا کہ موسم کا مزاج اور معیار تو بدل چکا ہے مگر آپ کا اسلوب
کلام بھی آج لاجواب ہے، استعارہ، اشارہ، کنایہ، فی البدیہہ اور حاضر جوابی نے مجھے گیسوۓ شما کی طرح کلام شما کے مزاج کا بھی مرید بنالیاہے، تعریفی بول سے ان کے رگ رگ میں انبساط وفرحت کی موجیں ٹھاٹھیں مارنے لگیں،عوض میں دونوں نینوں کی گہرائیوں سے انھوں نے میرااستقبال کیا اور جوابا بول پڑی کہ مزاج یار کا بھی جلوہ آج مختلف ہے جنھوں نے برسوں بعد آج اپنے محبوب کو قدر کی زبان سے نوازا ہے،فلاسفر سے اردو ادیبہ کے پیکر میں ڈھلی گفتگو مجھے آج کچھ زیادہ ہی امپریشن میں ڈال رہی تھی، رشتے اور راستے کے حوالے سے بڑی دانشمندانہ گفتگو فرمارہی تھیں،پیسہ اور دولت کی اہمیت کوباریکی سے سمجھا رہی تھی،احساس کے رشتے کو خون کے رشتے والی وجہٍ ترجیح کی تھیوری سمجھا رہی تھی،پاؤں کے تھک جانے سے راستے اور رشتے نہیں ختم ہوتے بلکہ جب دل تھک جاتا ہے تب یہ ختم ہوتے ہیں جیسی والی سچائ پر میں حلقۂ جاناں سے مزید قریب ہوگیا،فرصت اور ضرورت کا رشتہ اٌتنا پائیدار نہیں ہوتا جتنا دٍل کا رشتہ مضبوط ہوتاہے، رشتوں کی بقاء ملاقات کا خواہاں ہوتا ہے فراموشی سےتو لگاۓ پودے بھی سوکھ جایا کرتے ہیں،ایسی بے مثال اور پھول جھڑی باتوں سے میں اس پر لٹتا چلا جارہا تھا،امید سے زیادہ حسنٍ کلام پر مجھے بھی یہ گمان ہونے لگا کہ شاید اٍن پر میری سنگت کا اثر ہو پھر اس گمان پر وٍرام بھی لگا کہ کانٹوں کو مہکنے کا سلیقہ کہاں آتا ہے جب کہ اًن کی سنگت پھولوں سے ہے،تیور پر آج آسماں بھی محو حیرت ہوگا کیوں کہ ان کے ہونٹوں سے شیریں بول ہی نہیں بلکہ حقیقت پسند الفاظ آبٍ زر کی طرح بہہ رہے تھے، پتہ ہے یہ وقت مصنوعی دور کا ہے،قدرتی خلق سے زیادہ مصنوعی ایجاد کی قدردانی ہے،زمانۂ قدیم کے لوگ زہر پی کر رشتہ نبھاتے تھے،دھیرے دھیرے لوگ پریکٹیکل ہوگئے جو رشتوں سے فائدہ نکالنے لگے اور آج تو لوگ مکمل پروفیشنل ہوگئے جو بغیر فائدہ رشتہ رکھتے بھی نہیں۔
یہ بھی دیکھیں: آر ایس ایس کا سو سالہ جشن
بات دم دار تھی مجھے سرخم تسلیم کرنا پڑا اور یہ کہنا پڑا کہ واقعتا آج رشتہ داری بھی پیسہ کا محتاج ہوگیا ہے،جن کے پاس پیسہ نہیں ان سے رشتہ داری نہیں والا جملہ بھی تلخ حقیقت ہے،پیسہ ہے تو بات وزنی ہے،پیسہ ہے تو سبھی لہجہ مرغوب ہے،پیسہ ہے تو مزاج بولتا ہے،
بات نکلی نکلتی گئ،چاۓ کی چسکی بہت پہلے پھیکی ہوچکی تھی مگر مجلس کی ہم کلامی آج کے گفتگو کے شانٍ نزول کی متلاشی تھی، بڑی دیر میں گویا ہوئ کہ بہار میں سیاسی چہل پہل ہے،گٹھ جوڑ اور پارٹی پٹول کی مار ماری ہے،عمل ،رد عمل،الزام،بہتان اور سچ جھوٹ کی کاشت کاری سے عالمٍ ڈیجیٹل پر ہنگامہ بپاہے،کیا اپنے کیا غیر سبھی دشنام طرازی پر اڑے ہیں، سبھی اپنی پرورش اور پرداخت کی سند خود کی زبانی دے رہے ہیں،کیا ملا کیا پنڈت،کیا قیادت کیا سیادت،کیا وکاس کیا ترقیاں،کیا اچھے کیا برے سبھی آج اس پلیٹ فارم پر یکساں ہیں، ایک دوسرے کی جنم کنڈلی دکھاکر سیاست کو اتنا پراگندہ بنادیا ہے ہاۓ توبہ ہاۓ توبہ اس بحرٍ گنداں سے گھریلو حمام ہی اچھا ہے-
یہاں تو ایک کاغذی ٹکٹ کے لیے کوئ کچھ بھی قربان کرسکتا ہے کوئ کسی کے لیے کوئ بھی انہونی انجام دے سکتا ہے اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ
ناچ میری بلبل ٹکٹ ملے گا
اس درد اور کرب داستاں پر مجھے ایسا محسوس ہوا کہ َ
ٓعجیب درد کا رشتہ تھا سب کے سب روۓ
شجر گرا تو پرندے تمام شب روۓ
انسانیت اس قدر کثافت زدہ ہوجاۓ گی،انسانی مزاج اتنا خود غرض ہوجاۓ گا کہ برسر عام عزتٍ نفس کا تار تار کیا جاۓ گا اور ایک دوسرے کو ہیچ ثابت کرنے کے لیے ایسے ّکوکٌرم کئے جائیں گے جب کہ سبھی واقف ہیں کہ وقت جیسا ہو گزر جاتا ہے مگر یادیں اور رویے یاد رہ جاتے ہیں اس لیے ندا فاضلی کو گنگنانا چاہیئے
ٓدشمنی لاکھ سہی ختم نہ کیجئے رشتہ
دل ملے یا نہ ملے ہاتھ ملاتے رہیے