ایوانِ اقتدار کی لغزش اور حجابِ نسواں کا وقار

✍️محمدابوالکلام قاسمی

جمہوریت کی بنیاد عددی اکثریت پر نہیں بلکہ انسانی وقار اور کمزور طبقات کے احساسِ تحفظ پر استوار ہوتی ہے اور جب کسی ریاست کا سربراہ عوامی اسٹیج پر کسی خاتون کے مذہبی لباس یا نقاب کے ساتھ غیر محتاط رویہ اختیار کرتا ہے تو یہ محض ایک اتفاقی لغزش نہیں بلکہ پورے معاشرتی ڈھانچے کے لیے ایک تازیانہ بن جاتی ہے کیونکہ اسلام میں حجاب محض کپڑے کا ایک ٹکڑا نہیں بلکہ یہ منشائے الٰہی کی تکمیل اور حیا کے اس عالمگیر تصور کا مظہر ہے جس کی اساس قرآنِ حکیم کی آیاتِ بینات "يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ” میں پیوست ہیں، پردہ مسلم خاتون کے لیے کوئی قید خانہ نہیں بلکہ اس کی عفت کا وہ حصار ہے جو اسے بازاری نظروں سے بچا کر معاشرے میں ایک محترم مقام عطا کرتا ہے مگر افسوس کہ آج کی سیاست میں سیکولرزم کے علمبردار بھی اس نزاکت کو سمجھنے سے قاصر نظر آتے ہیں اور بہار کے ایک پروگرام میں پیش آنے والا واقعہ اسی ذہنی کجی اور غیر حساسیت کا شاخسانہ ہے جہاں نتیش کمار نے ایک خاتون ڈاکٹر کی مذہبی شناخت اور پردے کے ساتھ مزاق اڑایا اس نے نہ صرف بھارتی آئین کی روح کو مجروح کیا بلکہ لاکھوں مسلم خواتین کے دلوں میں عدمِ تحفظ کی ایک نئی لہر دوڑا دی ہے جس کا تدارک محض سیاسی مصلحتوں سے نہیں بلکہ ایک سچی اور دوٹوک معذرت سے ہی ممکن ہے، کیونکہ جب اقتدار کے ایوانوں سے ایسے غیر سنجیدہ اشارے ملتے ہیں تو سماج کے شر پسند عناصر کو اقلیتوں کی تذلیل کا لائسنس مل جاتا ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں جمہوریت کے دعوے کھوکھلے ثابت ہونے لگتے ہیں لہٰذا ریاست کے ذمہ داروں کو یہ بات گرہ میں باندھ لینی چاہیے کہ عورت کا وقار اور اس کی مذہبی آزادی کوئی ایسی چیز نہیں جسے سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا جائے بلکہ یہ وہ امانت ہے جس کی حفاظت ہر حاکمِ وقت پر شرعاً اور قانوناً فرض ہے اور اگر آج اس سنگین اخلاقی ناکامی پر خاموشی سادھ لی گئی تو تاریخ کے اوراق میں یہ واقعہ ایک ایسے ناسور کے طور پر درج ہوگا جو انسانیت اور جمہوریت دونوں کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ بن کر رہ جائے گا اس لیے وقت کا تقاضا ہے کہ اقتدار کے نشے سے باہر نکل کر ان مذہبی شعائر کا احترام کیا جائے جو کروڑوں انسانوں کی زندگی کا محور و مرکز ہیں۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔