بھارت خیر سگالی کا شاندار مرکز و محور

بھارت خیر سگالی کا شاندار مرکز و محور

از:- ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی

بھارت کا عہد حاضر میں سماجی منظر نامہ عجیب و غریب صورت حال سے دو چار ہے ۔ نفرت آمیز کلمات اسی طرح سے جذباتی اور اشتعال انگیز خطبات کے ذریعہ جس طرح کے حالات پیدا ہورہے ہیں اس سے معاشرے میں باہم دوری اور مذہب و دھرم یا مسلک و مشرب کے نام پر طبقوں کے درمیان کشیدگی و کشمکش پیدا ہورہی ہے یہ عمل قطعی طور پر ٹھیک نہیں ہے ۔ دانستہ طور پر اور صراحت کے ساتھ مسلم اقلیت کو نیست و نابود اور تہس نہس کرنے کی باتیں خوب ہورہی ہیں۔

اسی پر بس نہیں بلکہ کھلم کھلا یہ اعلان کیا جارہاہے ہے کہ اگر” پولیس کو ہٹا دیا جائے تو ایک بھی مسلم زندہ نہیں بچے گا” تکثیری سماج اور جمہوری نظام حکومت میں یعنی ایک ایسے معاشرے میں جہاں سب کو دستوری اور آئینی طور پر یکساں حقوق حاصل ہوں ،اس طرح کی تشدد آمیز زبان استعمال کرنا ٹھیک ہے ؟ اشتعال انگیز تقاریر ہوں یا پھر اشتعال انگیز کوئی تحریر سب کا مقصد ایک ہی ہوتا یعنی سماج میں طبقات انسانی کے مابین نفرت و عداوت کو بڑھانا اور تہذیب و ثقافت یا بھائی چارگی کو معدوم کرنا ۔ نفرت آمیز تقاریر اور کلمات کا بنیادی نقصان اور منفی پہلو یہ ہے کہ اس کے ذریعہ سے سماج میں بد امنی اور بد عنوانی و تشدد جیسے جرائم کو ہوا ملتی ہے ۔
اگر سیاسی بالادستی کی خاطر اشتعال انگیزی کرنے والے مجرمین کو کیفرِ کردار تک نہ پہچایا جائے یا انہیں قرار واقعی سزا نہ ملے تو ان کے حوصلے مزید بلند ہوجاتے ہیں۔

بھارت کی یکجہتی اور رنگارنگی کو داغدار کرنے اور معاشرے کی پر امن فضاء نفرت سے مسموم کرنے کے لیے آج اس طرح کے بہت سارے لوگ ہیں جو غیر سنجیدگی پر مبنی بیانات دیتے رہتے ہیں ۔ اس طرح کے لوگوں کی خواہش اور کوشش یہ ہوتی کہ مذہب و دھرم کے نام پر جذباتی باتیں کرکے سستی شہرت حاصل کرلی جائے، کوئی عہدہ و منصب بھی مل سکتا ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آج کل مسلم اقلیت کو گالی دینے ، سب و وشتم کرنے اور ان کے مذہب و دھرم کو برا بھلا کہنے والوں کی ایک لمبی قطار ہے۔ ماحول کچھ اس طرح کا بنایا گیا اور سیاسی بساط بھی ایسی بچھائی گئی کہ مسلمانوں کو اذیت پہنچا کر ہی عہد حاضر میں کوئی اپنے مخصوص طبقہ کا ہیرو بن سکتا ہے یا پھر وہ کسی مناسب منصب پر فائز و متمکن ہوسکتا ہے ۔ بقائے باہم اور سماجی بہبود کے لیے بنیادی طورپر اس منفی نظریہ اور مسلم اقلیت کے تئیں غیر مہذب اور ناشائستہ کلمات ادا کرنے والوں کی تنبیہ کی جاتی اور پوری ایمانداری سے معاملہ کیا جاتا تو یقینی طور پر ہمارے سامنے اس طرح کے حالات نہیں ہوتے۔

بھائی چارگی امن اور انصاف کی آج معاشرے کو بنیادی ضرورت ہے ، بغیر امن و سلامتی اور یکجہتی و رواداری کے سماج کو کسی بھی طرح مستحکم نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ نفرت آمیز بیانات کے خلاف ہر دور اور ہر زمانہ میں لوگ بولتے رہے ہیں ۔ ابھی حال ہی میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے مکھیا موہن بھاگوت نے اپنے ایک بیان میں بڑی سنجیدہ اور متوازن بات کہی اور جو لوگ مندر اور مسجد کے جھگڑے کو ہوا دے رہے ہیں انہیں تنقید کا نشانہ بنایا:

” ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے بعد کچھ لوگ ایسے مسائل اٹھا کر خود کو ہندوؤں کا لیڈر ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں جس کو قبول نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ انہوں نے ایک جامع معاشرے کی وکالت کی اور کہا کہ دنیا کو یہ دکھانے کی ضرورت ہے ہے کہ ہندوستان خیر سگالی کے ساتھ رہ سکتا ہے ۔ یہ صرف ہم کرسکتے ہیں ہیں کیونکہ ہم ہندو ہیں ۔ انہوں نے یہ بھی کہا یہاں یہ نہیں چلے گا کہ صرف ہماری باتیں ہی درست ہوں اور باقی سب غلط ہیں ۔ ہم سب مل جل کر رہیں گے ، ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ہماری وجہ سے دوسروں کو کوئی پریشانی نہ ہو ۔ ہمیں دوسروں کے خدا کا مذاق نہیں اڑانا چاہیے ۔دنیا کو ایک گرو کی ضرورت ہے اور ہندوستان وہ گرو ہوسکتاہے ۔ کون اکثریت اور کون اقلیت ہے یہاں سبھی مساوی ہیں ۔ یہ اس ملک کی روایت ہے کہ سبھی اپنے مذہب پر عمل پیرا ہوسکتے ہیں "

آر ایس ایس سربراہ کے اس بیان کی معنویت اور افادیت یہ ہے کہ یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ملک میں نفرت اور معاشرے میں تشدد و تنگ نظری جیسی چیزیں فروغ پارہی ہیں اجتماعی خیر سگالی کا احساس معدوم ہوتا نظر آرہا ہے ۔ مذہب و دھرم کے نام پر ہندوستانی معاشرے میں بدامنی اور کشیدگی پھیلانے کا کام کیا جارہا ہے ۔ آر ایس ایس سربراہ کے اس بیان کے ہندوستانی معاشرے میں یقینی طور پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

یہاں یہ بتانا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آر ایس ایس سربراہ کے اس بیان کی مسلم کمیونٹی کے ایک بڑے حلقہ نے پذیرائی بھی کی ہے اور اسے یقینی طور پر قابلِ ستائش اقدام سے تعبیر کیا ہے۔

چنانچہ معروف مفکر اور انٹر فیتھ ہارنی فاؤنڈیشن آف انڈیا کے بانی و صدر ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد نے آر ایس ایس سربراہ کے اس بیان عہد حاضر کی ضرورت بتایا اور کہا کہ اس طرح کے مثبت بیانات آر ایس ایس سربراہ ماضی میں بھی دیتے رہے ہیں ،انہوں نے خوشی ظاہر کی کہ یہ بیان سماج میں ہم آہنگی اور بقائے باہم کے لیے پیش رفت ہے ۔ اسی طرح رام جنم بھومی مندر کے چیف پجاری آچاریہ ستیندر داس نے اپنے ایک بیان میں آر ایس ایس سربراہ کے بیان حمایت کی اور کہا: اگر لیڈر بننا ہی واحد مقصد ہے تو فرقہ وارانہ تنازعات ٹھیک نہیں ہیں ۔انہوں نے اے این آئی کو بتایا کہ مندر اور مسجد کا تنازعہ ایک فرقہ وارانہ تنازعہ ہے اور جیسے اس طرح کے تنازعات بڑھ رہے ہیں کچھ لوگ لیڈر بن رہے ہیں اگر لیڈر بننا ہی واحد مقصد ہے تو ایسے تنازعات ٹھیک نہیں ہیں ۔ جو لوگ لیڈر بننے کے لیے جد و جہد شروع کرتے ہیں وہ ٹھیک نہیں ہے”
ستیندر داس جی کا یہ بیان آر ایس ایس سربراہ کے بیان کے بعد میں سامنے آیا ہے اس واضح طور پر مطلب یہ ہے کہ ستیندر داس جی نے بھی آر ایس ایس سربراہ کے بیان کی حمایت کی اور انہوں نے معاشرے میں اتحاد و یگانگت کے ساتھ رہنے کا پیغام دیا ۔ سچ بات بھی یہی ہے کہ آج ہمیں خیر سگالی اور بھائی چارگی پر مبنی بیانات و تحقیقات اور تحریروں کو فروغ بھی دینا چاہیے اور اس طرح کے اقدامات کی پذیرائی بھی کرنے کی ضرورت ہے ۔ مگر افسوس یہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے سے توسع کی روایت بڑی تیزی سے پامال ہورہی ہے ۔ ہم ہر مثبت پیغام یا بات میں کوئی نہ کوئی منفی پہلو تلاش کرنے کے عادی ہو گئے ہیں اپنے حصار اور اپنے حلقے کے علاوہ کسی اچھی کاوش کو ہم قطعی قبول نہیں کرتے ہیں ۔

یہی حال ہمارا سیاسی اور دیگر شعبوں میں ہے۔
اس لیے اجتماعی طور پر آگے بڑھنے اور ملک کے و سماج کو آگے لے جانے کے لیے بنیادی طور پر نظریاتی اور فکری توسع کی ہی ضرورت نہیں ہے بلکہ عملی طوربھی ہمیں توسع کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔ آر ایس ایس سربراہ کا فرقہ پرست عناصر کو آئینہ دکھانا بڑی بات ہے اور اس کے اثرات بھی اچھے مرتب ہوں گے ۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔