بلڈوزر ایکشن پر عدالت کی جائز برہمی
شکیل رشید
ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز
_____________________
دیر آید درست آید تو نہیں کہا جا سکتا کیونکہ سیکڑوں افراد تباہ و برباد کیے جا چکے ہیں ، لیکن بلڈوزر ایکشن پر سپریم کورٹ کی برہمی کو سراہا تو جا ہی سکتا ہے ۔ سپریم کورٹ کی دو رکنی بنچ نے جمعیۃ علماء ہند کے دونوں دھڑوں اور جماعتِ اسلامی کی ضمنی تنظیم اے پی سی آر کی ، بلڈوزر ایکشن کے خلاف دائر عرضیوں کی شنوائی کرتے ہوئے یہ بات بہت صاف صاف کہی ہے کہ ’’ جھٹ پٹ انصاف کے لیے بلڈوز ر سسٹم نہیں چلے گا ، مُلزم تو دور کی بات کسی مُجرم کے گھر پر بھی بلڈوزر چلانے کا کسی کو اختیار نہیں ہے ۔‘‘ سپریم کورٹ نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ غیر قانونی تعمیرات کا تحفظ نہیں کرے گی ، مگر کچھ رہنما اصول وضع کرنا ضروری ہیں ۔ جب سے بلڈوزر ایکشن شروع ہوا ہے ، اس ملک میں نفرت کی لہر زیادہ ہی تیز ہوگئی ہے ۔ جہاں جہاں بلڈوزر چلے ہیں وہاں وہاں ، جن کے گھر ڈھائے جا رہے تھے ، اُن کی تضحیک کرنے والوں کی بھیڑ جمع ہوتی رہی ہے ۔ سچ یہی ہے کہ بی جے پی کی ریاستی حکومتوں نے بلڈوزر کو مسلمانوں کے خلاف نفرت کی علامت بنا دیا ہے ! افسوس ناک بات یہ ہے کہ جب بلڈوزر چلتے ہیں تو بہت سارے لوگ خوش ہوتے ہیں ، ہنستے ہیں ! ان میں سنگھی تو ہوتے ہی ہیں ، عام لوگ بھی ہوتے ہیں اور میڈیا کے لوگ بھی اور دانشور بھی ۔ یہ کیسے لوگ ہیں ! ننھےبچے ، اپنی کھلی آنکھوں سے ، اپنے گھر اور اپنی دوکانیں منہدم ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں ، خواتین اپنی آنکھوں سے اپنے آشیانوں کو اجڑتے ہوئے دیکھتی ہیں ، لوگوں کے خواب ٹوٹتے ہیں ، وجود بکھرتے ہیں ، لیکن لوگ ہنستے رہتے ہیں ! بلڈوزر چاہے جہانگیرپوری میں چلے ہوں چاہے کھرگون میں یا چھتر پور وغیرہ میں ، سارے مناظر ایک ’ تماشا ‘ کی طرح دکھائے گیے ہیں ۔ ٹی وی پر یہ ’ شو ‘ اس طرح سے پیش کیے گیے ہیں کہ لوگ یہ جان جائیں کہ ’ فسادی مسلمانوں ‘ کو ان کے کیے کی سزا دی جارہی ہے ۔ اور مسلمانوں نے کیا کیا تھا ؟ کچھ نہیں معمولی احتجاج ، مظاہرہ یا کوئی معمولی گناہ ، اور اکثر جگہ صرف اپنا دفاع ۔ گویا کہ اب دفاع اس ملک میں مسلمانوں کے لیے ’جرم ‘ ٹھہرا ہے ، دوسرے بھلے ہی جارحیت کریں ۔ چھتر پور میں تو مدھیہ پردیش کے نئے حکمران وزیراعلیٰ موہن یادو نے جبر کی ساری حدیں پار کردی ہیں ، مکانوں اور کوٹھی پر بلڈوزر تو چلوایا ہی مہنگی کاروں پر بھی بلڈوزر چڑھوا دیا ! یہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کا کھلا ہوا اظہار تھا ، اور اس کے لیے ان سے بازپُرس ہی نہیں ہونی چاہیے ، عدالت سے انہیں سزا ملنی چاہیے ۔ معمولی معمولی باتوں پر مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزر چڑھا دینا بی جے پی کی ریاستی حکومتوں کا پسندیدہ کھیل بن گیا ہے ۔ مدھیہ پردیش میں یہ غیر جمہوری اور غیر آئینی عمل گزشتہ حکومت سے چلا آ رہا ہے ، بہت سارے مسلمانوں کو اجاڑا گیا ہے ، اور مقصد اجاڑنا ہی ہے ۔ پہلے شیوراج سنگھ چوہان کی حکومت تھی اور وہاں کے وزیر داخلہ نروتم مشرا تھے ، جو بات بے بات بلڈوزر چڑھوا دیتے تھے ۔ ضرورت تھی کہ اس کے خلاف قانونی لڑائی لڑی جائے اور مسلم تنظیمیں اس معاملہ کو وسیع پیمانے پر اٹھائیں ۔ اور جمعیۃ علماء ہند کے دونوں دھڑے اور جماعت اسلامی نے قانونی جنگ کی شروعات کر دی ہے ، اس کے لیے ان تنظیموں کی حوصلہ افزائی ضروری ہے ۔ سپریم کورٹ نے ابھی کوئی فیصلہ تو نہیں سُنایا ہے لیکن یہ واضح کر دیا ہے کہ ملزم تو دور مجرم کا گھر بھی نہیں ڈھایا جا سکتا ۔ اس کا مطلب سیدھے سیدھے یہ ہے کہ چاہے یوگی کی حکومت ہو ، موہن یادو کی یا اتراکھنڈ کی ، ان سب نے صرف الزامات کی بنا پر مکانات ڈھانے کی جو کارروائیاں کی ہیں ، وہ سب غیر قانونی اور غیر آئینی تھیں ۔ ایک بات اور صاف ہو گئی ہے ، یہ بی جے پی کی ریاسٹی حکومتیں مسلمانوں کے خلاف کارروائیوں میں قانون کا لحاظ نہیں رکھتیں ۔ تو کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان ریاستی حکومتوں کو یہ آئین نہیں بھاتا ؟ یہ آئین مخالف ہیں ؟ بات یہی سچ ہے ۔ امید ہے کہ سپریم کورٹ آئندہ شنوائی میں اس معاملہ پر کوئی ایسا فیصلہ کرے گا کہ لوگوں کے آشیانے جبراً نہ اجاڑے جا سکیں۔