۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

یہ بدبو دار اور گندى چیز ہے ، اس سے دور رہیں

از: ڈاکٹر محمد اکرم ندوی

آکسفورڈ

_________________

آج ہندوستان و پاكستان كے متعدد اہل علم حضرات نے مجهے توجہ دلائى كہ فلاں شخص كو گمراه قرار دينے كى مہم چلائى جائے، اسے بے اعتبار كر ديا جائے، بلكہ اس كے كفر كا فتوى صادر كيا جائے، اس نوع كى تحريك وقت كا اہم فريضہ اور سب سے بڑا علمى كارنامہ ہے۔
كيا كسى كو گمراه يا كافر قرار دينا بهى كوئى فريضہ اور كارنامہ ہے؟ كيا واقعى ہمارى عقلوں كے دريچے اس طرح كچكچا كر بند ہوگئے ہيں كہ ہم اس غلاظت كے علاوه كوئى اور دينى وعلمى فريضہ نہيں سوچ سكتے؟ حيف اس كند ذہنى پر! دريغ اس پست عقلى پر! لعنت اس تنگ نظرى پر! كيا ہم نے حديث كى كتابوں ميں نہیں پڑها كہ يہى وه خصلت شنیعہ ہے جس كے بارے ميں نبى اكرم ﷺ نے فرمايا تها ” دعوها فإنها منتنة “ يہ بدبو دار اور گندى چیز ہے، اس سے دور رہيں؟ كيا ہميں سنت و فقہ كا يہ سبق ياد نہ رہا كہ كسى مسلمان كو گمراه يا كافر كہنا گناه كبيره اور جرم عظيم ہے؟
جب مسلمانوں كے فرقے ايك دوسرے پر گمراہى كى تہمت دهرتے ہيں، تو ان ميں سے كسى كى جيت نہيں ہوتى ، بلكہ دونوں ہارتے ہيں اور برى طرح ہارتے ہيں، ان كے اندر ايك دوسرے سے نفرت بڑھتی ہے، دشمنى كا بازار گرم ہوتا ہے، اور انتقام كى ايسى آگ بهڑكتى ہے جو كبهى نہيں بجھتى، اسلام اور مسلمانوں كے دشمن ہنستے ہيں اور اس دين كا مذاق اڑاتے ہيں، اور بہت سے مسلمان نوجوان ہم سے اتنا بدظن بلكہ بيزار ہوجاتے ہيں كہ وه يا تو اسلام چهوڑ ديتے ہيں، يا پهر منافقانہ زندگى گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہيں۔
انيسويں صدى كے آخر ميں ہندوستان ميں ہر سمت تکفیر و تفسیق كا ہنگامہ تها، مسلمان اپنے مذہبى اختلافات كے تصفیے ہندو راجاؤں اور انگريز حكمرانوں كى عدالتوں ميں كرا رہے تهے، ان كى تفصیلات سے اس وقت كے پرچے اور كتابيں پُر ہيں، کچھ درد مند اہل علم و دانش نے متفكر ہوكر ندوة العلماء كى بنياد ركهى، جس كا مقصد اعظم تها فرقہ واريت كو ختم كرنا، اس تحريك كو بڑى حد تك كاميابى ملى، اور اس سے وابستہ علماء نے اتحاد امت اور اصلاح معاشره كو اپنا مشن بنايا۔
ان نيك دل اور پاك طينت علماء نے دين و ملت كو در پیش چيلنجوں كے مقابلہ كے لئے نہ يہ كہ تکفیر و تفسیق كا نجس طریقہ اختيار نہيں كيا، بلكہ اس كى مخالفت كى اور ہميشہ اسے كرِیہ و مبغوض سمجھا ، اس تنگ و تاريك گلى كو چهوڑ كر انہوں نے دو پاكيزه شاہراہوں كا انتخاب كيا، جن پر چل كر انہيں حيرت انگيز كاميابى ملى، اور مخالفين نے بهى ان كى شرافت نفسى اور بلند ہمتى كا اعتراف كيا۔
يہ دو پاكيزه شاہراہيں كيا ہيں؟
1گمراه كن خيالات كا سنجيده علمى تعاقب: اسكندريہ كے كتب خانہ كے جلانے كا الزام مسلمانوں پر لگايا گيا تو علامہ شبلى نے اس موضوع پر ايك نہايت عالمانہ مقالہ لكھ كر اس فتنہ كو ہميشہ كے لئے دفن كرديا، اسى طرح انہوں نے جزیہ وغيره موضوعات پر علمى انداز سے مستشرقین كے شبہات كا جواب ديا، جرجى زيدان كى كتاب ” تاريخ التمدن الاسلامى “ كا رد لكها، ان كى كتاب ” الانتقاد “ كو علامہ رشيد رضا نے سراہا اور اسے شائع كيا، اسى قبیل سے شیعیت اور قاديانيت كى ترديد ميں مفكر اسلام مولانا ابو الحسن على ندوى كى كتابيں ہيں۔
2– گمراه كن مصنفين كى كتابوں سے بلند تر معيار كى علمى تحقيقات پيش كرنا: مستشرقین نے نبی اكرم صلى الله عليه وسلم كى حيات طيبہ كو مطعون كيا اور خدشہ بڑها كہ مسلمانوں كى نئى نسل اس موضوع پر مستشرقین كى كتابيں پڑھ کر گمراه ہوگى، علامہ شبلى نے اس خطره كو محسوس كيا اور ” سيرت النبى “ جيسى عظيم كتاب لکھی جسے ان كے مايۂ ناز شاگرد علامہ سيد سلیمان ندوى نے مكمل كيا، ” الفاروق “ ، ” النعمان “ وغيره بهى اس قبیل كى كوششيں ہيں۔
ميں ان بزرگوں كى خاك پا كے برابر بهى نہيں، پهر بهى الله تعالى نے مجهے ان كے نقش قدم پر چلنے كى توفیق دى، مغرب كا ايك اہم اعتراض تها كہ مسلمان عورتوں كى تعلیمی پسماندگى كا ذمہ دار خود ان كا مذہب ہے، آكسفورڈ كے ايك مستشرق نے لكها تها كہ اگر مسلمان اپنى تاريخ سے پانچ پڑهى لکھی عورتوں كے نام پيش كر ديں تو ہم تسليم كرليں گے كہ اسلام نے عورتوں پر ظلم نہيں كيا، اس موضوع پر ميں نے كام كيا، ايك دن آكسفورڈ ہى كا ايك مستشرق ميرے پاس آكر كہنے لگا كہ اب يہ اعتراض ہميشہ كے لئے دفن ہوگيا، اگر آپ پانچ نام پیش كرتے تو پهر بهى لوگ اعتراض كا كوئى نہ كوئى پہلو نكال ليتے، آپ نے اتنے ہزار نام پيش كرديئے ہيں، اب كوئى اشكال كرنے كى جرأت نہيں كرے گا، چند سالوں پہلے ايك انسائيكلوپيڈيا نے اعتراف كيا كہ ہم عورتوں كے تئيں جب مذاہب و اديان كو مطعون ٹهہراتے ہيں تو اسلام اس سے مستثنا ہے۔
ان سب سے زياده كامياب اور بابركت كام مولانا حميد الدين فراہى رحمة الله عليه كا ہے، انہوں نے اس دين اور قرآن كريم پر كئے گئے اعتراضات كا مناظرانہ انداز سے جواب نہيں ديا، بلكہ سنجيدگى كے ساتھ محققانہ علمى متبادل پيش كئے، اس وقت صرف ان كا ايك كارنامہ بيان كرتا ہوں، يورپ كے مصنفين قرآن كريم پر ايك بڑا اعتراض يہ كرتے تهے كہ قرآن ميں كوئى ترتيب نہيں، سورتوں كى تقسيم بے معنى ہے، كسى بهى سوره ميں كوئى بهى بات كہدى گئى ہے، مولانا فراہى نے تيس سال لگا كر وه كتابيں لکھیں جو يہ بات روز روشن كى طرح عياں كرتى ہيں كہ پورا قرآن مرتب ہے، ہر سوره كا ايك مركزى مضمون ہے، اور اس سوره كى تمام آيات اس مركزى مضمون سے مربوط ہيں، اس وقت يورپ و امريكہ كى مختلف يونيورسيٹيوں ميں مولانا فراہى كے نظريہ پر تحقیقی كام ہو رہا ہے، ميں نے خود آكسفورڈ ميں ديكها كہ قرآنيات سے اشتغال ركهنے والے مستشرقین مولانا فراہى كى عبقريت كے سامنے انگشت بدنداں ہيں۔
يہ وه كوششيں ہيں جو ہمارے عہد ميں بر صغير ميں ہوئيں، اسلامى تاريخ كے ہر دور ميں علمائے عظام نے علمى تحقیق كے ذريعہ مخالفين پر اپنى برترى ثابت كى، امام غزالى كى ” تہافت الفلاسفه “ ، امام ابن تیمیہ كى ” الرد على المنطقيين “ ، ” درء تعارض العقل والنقل “ ، اور شاه ولى الله دہلوى كى ” ازالة الخفاء عن خلافة الخلفاء “ اسى فبیل كى ہيں۔
آپ جب دیکھیں كہ كسى كى فكر يا تحرير سے كوئى فتنہ رو نما ہونے والا ہے، تو آپ اس شخص كو برا بهلا كہنے يا اسے گمراه اور كافر قرار دينے كے بجائے علمى دلائل كى روشنى ميں اس كى غلطى واضح كرديں وه فتنہ خود بخود مر جائے گا يا كمزور ہو جائے گا، اور اس سے بہتر يہ ہے كہ آپ اس موضوع پر اس سے بہتر كتاب تيار كرديں، لوگ آپ كى كتاب پڑهنے لگیں گے اور وه ضلال نامہ طاق نسياں كے سپرد ہوجائے گا ، ” فأما الزبد فيذهب جفاء وأما ما ينفع الناس فيمكث في الأرض “
اگر آپ خلافت و ملوكيت كے موضوع پر كسى كى تحقیق سے ناخوش ہيں تو اس موضوع پر اس سے بہتر كوئى كتاب تيار كرديں، اگر كوئى شخص یہ دعوى كر رہا ہے كہ يہود و نصارى كے لئے نبى اكرم ﷺ پر ايمان لانا ضرورى نہيں تو آپ جديد ترين علمى اسلوب ميں یہ ثابت كرديں كہ نبى اكرم ﷺ پر ايمان لائے بغير نجات ممكن نہيں، اگر كسى نے يہ دعوى كيا ہے كہ حضرت عيسى علیہ السلام انتقال فرما چكے ہيں تو آپ یہ مبرہن كريں كہ وه زنده ہيں اور قرب قيامت ان كا نزول ہوگا۔
ياد ركهيں كہ دليل كى طاقت شمشیر و سناں سے بڑھ کر ہے، آپ كسى كى جان تو لے سكتے ہيں، ليكن اس كے خيالات و نظريات كا خاتمہ نہيں كر سكتے، گوش دل سے سن ليں كہ سب و شتم سے نہ كوئى مذہب پھیلتا ہے اور نہ كسى فكر كو فروغ ہوتا ہے، كسى كو گمراه يا كافر قرار دينا آپ كى فكرى قلاشى اور علمى بے مائيگى كا ثبوت ہے، اور اس سے زياده كچھ نہيں۔
اے غيوران ملت بيضاء! اے حاميان دين متين! اے ناصران كتاب مبين! آپ جس درد سے بيتاب ہيں وه دليل ہے آپ كے ايمان كى، اس درد كے مقتضا پر عمل كريں، اٹهيں اور عقل و خرد كو مخاطب كريں، علم وعقل كى بنياد پر قائم كوئى فكر كبهى نہيں مرتى، علمى دلائل كا جواب تکفیر و تضلیل نہيں، بلكہ علمى دلائل ہيں، جس طرح شبلى نے ” الانتقاد “ لكھ کر جرجى زيدان كى كتاب كى سحر آفرينى ختم كردى، اسى طرح آپ بهى عصر حاضر كے سامريوں اور كاہنوں كو بے وزن كرديں، الله ہميں ہدايت دے اور ہمارى مدد كرے، آمين۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: