از: احمد سہیل
______________
لالہ لاجپت رائے نے لاہور سے ایک اردو روزنامہ ’’وندے ماترم‘‘ شروع کیا جس کی تقریباً 5000 کاپیاں شائع ہوتی تھیں۔
لالہ لاجپت رائے جی نے لاہور سے ہفتہ وار اخبار ’’عوام‘‘جاری کیا تھا۔ وہ خود اس اخبار کے مدیر تھے۔ یہ سرونٹ آف پیپل سوسائٹی کا ترجمان پرچہ تھا جس نے نوجوانوں کو قوم کی خدمت کے لیے حوصلہ دیا۔ لالہ لاجپت رائے جی کے واضح اور بے خوف سیاسی تبصروں، مستحکم زبان اور متوازن ایڈیٹرشپ کی وجہ سے اخبار میں اضافہ ہوا۔ اس اخبار میں بھارتی قومیت کی ایک توانا آواز سمجھا جاتا تھا۔ اس اخبار کو اردو صحافت کی سیکولر آواز بھی کہا جاتا تھا۔ وندے ماترم نے بڑی ہمت کے ساتھ پابند زندان بھگت سنگھ کا اردو میں لکھا ہوا خط بھی چھاپا تھا۔اس کے علاوہ اس پرچے میں بھگت سنگھ کا لکھا ہوا ایک مضمون بھی شائع ہوا تھا۔
وندے ماترم برطانوی راج میں جون 1920ء میں لاہور سے جاری ہونے والا ایک روزنامہ اخبار تھا۔ یہ اردو کا پہلا روزنامہ تھا جو ایک لمیٹڈ کمپنی دی پنجاب اخبارات اینڈ پریس کمپنی لمیٹڈ لاہور کے زیرِ اہتمام جاری ہوا۔ لاہور کے بندے ماترم پریس میں چھپتا تھا۔ اگرچہ اس کا اجرا ایک لمیٹڈ کمپنی کے زیر اہتمام ہوا تھا لیکن اس کے بانی اور کرتا دھرتا لالہ لاجپت رائے تھے۔اس کی ضخامت دس صفحات تھی۔ قیمت فی پرچہ تین پیسے، ماہوار ڈیڑھ روپیہ اور سالانہ پندرہ روپے تھی۔ ایڈیٹر لالہ لاجپت رایے اور جوائنٹ ایڈیٹر رام پرشاد بی اے تھے اور قلمی معاونین میں کماری لبمیاری ، اور لالہ فیروز چند تھے۔ کچھ عرصے اس اخبار کے مدیر پنڈت کرم چند شکل بھی رہے۔ صفحہ اول کے اوپر کے چوتھائی حصہ پر پیشانی ہوتی تھی۔ جس کے اوپر سوراجیہ ہمارا پیدائشی حق ہے عبارت درج ہوتی تھی۔ پیشانی کے دونوں جانب علامہ اقبال کے اس شعر کے دو مصرعے درج ہوتے تھے۔
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہیں ہندوستان ہمارا
یہ ہفت روزہ بندے ماترم پریس میں چھپتا تھا۔ اخبار کا صفحہ تین کالموں پر مشتمل ہوتا تھا۔ صفحہ اول پر خبریں دی جاتی تھیں۔ بعض اوقات ایک ہی خبر پورے صفحے پر محیط ہوتی تھی۔
لالہ لاجپت رائے ایک محب وطن اور آزادی پسند جنگجو تھے۔ یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ بھگت سنگھ کے ساتھی تھے اور بھکت سنگھ کی قوم پرست بائیں بازو کی ریڈیکل تحریک کے ہمدرر تھے۔
اس وقت ہندوؤں کی ایک اچھی تعداد نے اصل میں اردو بطور مضمون/زبان سیکھی تھی۔ زیادہ تر مغل اثرات کی وجہ سے۔ آج بھی حیدرآباد میں پرانے مقامی تلگو بولنے والے ہندو اردو پڑھ سکتے ہیں۔
وندے ماترم کا پس منظر
بَنْدے ماتْرَم یا وندے ماترام کے بنگالی: لفظا "اے مادر وطن میں سرجھکائے ہاتھ جوڑے کھڑا ہو کر تیری تعظیم بجا لاتا ہوں”) ایک نظم ہے جو کے بنگالی زبان کے مصنف بنکم چندرا چٹوپادھیائے کی ناول آنند مٹھ سے لی گئی ہے۔ یہ 1882 میں شائع ہوئی تھی۔ یہ بنگالی اور سنسکرت زبان میں لکھی گئی تھی۔ یہ مادر وطن کو مذہب کا درجہ دیتی ہے۔ اسے تحریک آزادی ہند میں خوب پڑھا گیا اور پہلی دفعہ رابندر ناتھ ٹھاکُر نے 1896ء کے انڈین نیشنل کانگریس کے اجلاس میں اسے گایا۔
1950ء میں بھارتی حکومت نے اس کے ابتدائی مصرعوں کو قومی گیت کی حیثیت دی۔ یہ قومی ترانہ جَنا گَنا مَنا کے مساوی درجے کا حامل ہے۔