✍️ شکیل رشید ( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )
______________
ایسا قطعی نہیں ہے کہ ملک کے وزیراعظم نریندر مودی کی نفرت بھری تقریر کا ذکر ملک کے اندر ہی ہو رہا ہے ، عالمی میڈیا میں بھی ان کی تقریر چھائی ہوئی ہے ، بس فرق اتنا ہے کہ ملک میں میڈیا کا ایک بڑا طبقہ مودی کی تقریر کو یوں پیش کر رہا ہے جیسے انہوں نے ملک کے مسائل کے حل کا کوئی بہت ہی لا جواب حل تلاش کر لیا ہے ، اور غیر ملکی میڈیا ان پر نتنقید کی بوچھار کر رہا ہے ۔ ’ نیویارک ٹائمز ‘ ، ’ دی گارڈین ‘ ،’ واشنگٹن ٹائمز ‘ ، سی این این ‘، ’ وال اسٹریٹ جرنل ‘ ، ’ دی ٹائمز ‘ ، ’ الجزیرہ ‘ ، ’ بی بی سی ‘ اور ’ ٹائم میگزین ‘ وغیرہ نے پی ایم مودی کی راجستھان کی تقریر کے باقاعدہ حوالے دے کر ان کی ’ زبان ‘ کے تعلق سے تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ ’ نیویارک ٹائمز ‘ نے لکھا ہے کہ مودی نے جو کچھ کہا وہ ان کی اس تصویر سے ، جو عالمی سطح پر بنائی گئی ہے ، قطعی مختلف ہے ۔ غیر ملکی میڈیا میں اس خدشے کا اظہار کیا گیا ہے کہ پی ایم مودی کی تقریر سے دائیں بازو کے نظریات رکھنے والوں کو ، یعنی شدت پسندوں کو شہ ملے گی اور اسلاموفوبیا کی لہر میں اضافہ ہوگا نیز فرقہ وارانہ جھڑپوں کو ہوا ملے گی ۔ ’ واشنگٹن ٹائمز ‘ نے مودی کی تقریر پر الیکشن کمیشن آف انڈیا کا ردعمل جاننا چاہا تھا ، لیکن الیکشن کمیشن نے کسی طرح کا ردعمل نہیں دیا ۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ الیکشن کمیشن پی ایم مودی کی تقریر کو قابلِ گرفت نہیں سمجھتا ۔ پی ایم مودی کو یہ پتا ہے کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی ، شاید اسی لیے انہوں نے دوسرے دن اترپردیش کے علی گڑھ میں میں اپنی تقریر دوہرائی ۔ راجستھان کی تقریر کے مقابلے علی گڑھ کی تقریر میں مزید سخت باتیں تھیں ۔ انہوں نے کہا : ’’ مَیں ہم وطنوں کو خبردار کرنا چاہتا ہوں ، کانگریس اور انڈیا الائنس کی نظریں آپ کی کمائی اور آپ کی جائیداد پر ہیں ، کانگریس کے شہزادے ( راہل گاندھی ) کہتے ہیں کہ اگر ان کی حکومت آئی تو ہم ان کی جانچ کریں گے ، کون کتنا کماتا ہے ، کس کی کتنی جائیداد ہے ، ہماری ماؤں بہنوں کے پاس سونا ہے ، اسے مقدس سمجھا جاتا ہے ، قانون اس کی حفاظت کرتا ہے ، وہ اسے چھین لیں گے ، اگر گاؤں میں کسی بوڑھے کا پشتینی گھر ہے اور آپ نے اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے شہر میں ایک چھوٹا سا فلیٹ بھی خریدا ہے تو وہ ان دونوں میں سے ایک کو چھین لیں گے ۔‘‘ کیا واقعی کانگریس نے اس ملک کے شہریوں کی جائیدادیں چھینے کا اعلان کیا ہے ؟ یقیناً نہیں ۔ لیکن ووٹ کے لیے پی ایم غلط بیانی کو بُرا نہیں سمجھتے ، لہذا وہ غلط بیانی کیے جا رہے ہیں ۔ یہاں ایک سوال پی ایم مودی سے یہ ہے کہ اگر انہیں واقعی اس ملک کے غریبوں کی اتنی فکر ہے تو کیوں وہ اُن دھنّا سیٹھوں اور صنعت کاروں سے ، جن کے قبضے میں ملک کی ستّر فیصد دولت ہے ، غریبوں کی بھلائی کا کوئی منصوبہ شروع نہیں کروا دیتے ؟ اس سوال کا ان کے پاس شاید کوئی جواب نہیں ہے ، اگر ہوتا تو وہ اب تک اس ملک کے بے روزگاروں کو نوکریاں دلو چکے ہوتے ۔ واضح رہے کہ وزیراعظم کے دوست کہے جانے والے گوتم اڈانی کے پاس سب سے زیادہ دولت ہے لیکن ان کی کمپنیوں میں سب سے کم ملازم ہیں ! خیر بات عالمی میڈیا کی ہو رہی ہے جس نے جم کر پی ایم مودی کی تقریر کی دھجیاں بکھیری اور سوالات کھڑے کیے ہیں ۔ ایک طرف عالمی میڈیا نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اس تقریر سے اسلامو فوبیا بڑھے گا ، فرقہ وارانہ تشدد کو ہوا ملے گی ، اور دوسری جانب امریکی محکمۂ خارجہ کی سالانہ رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ہندوستان میں اقلیتوں ، اختلافِ رائے رکھنے والوں اور صحافیوں پر حملے کیے گیے ہیں ۔ اس رپورٹ میں ملک کی مذہبی اقلیتوں کے ساتھ روا سلوک کا بھی ذکر کیا گیا ہے ۔ یہ ہے پی ایم مودی اور ان کی حکومت کی عالمی ساکھ جس کے بڑے چرچے کیے جاتے تھے ۔ اور خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں ساکھ کو مزید بٹہ لگ سکتا ہے ، اگر پی ایم نے اپنی زبان پر قابو نہ کیا ، ابھی تو لوک سبھا الیکشن کے چھ مرحلے باقی ہیں ۔