✍️محمد ناصرخان ندوی دبئی
___________________
معاشرہ ایک نقطہ سے شروع ہوکر دائرہ کی شکل اختیار کرتاچلاجاتا ہے، ہر دائرہ پہلے دائرے سے بڑا اور زیادہ دور تک پھیلتا ہے،اصلاح کی شروعات بھی ایک نقطہ یعنی فرد واحد سے ہوتی ہے، جس طرح ٹھہرے ہوئے پانی میں کنکر پھینکنے سے جو منظر آنکھوں کے سامنے رونما ہوتا ہے کہ پانی کی وہ ہلچل جو پتھرکے گرنے سے پیدا ہوتی ہے، ایک ہی جگہ پر نہیں رکتی، بلکہ وہ دور تک پانی میں پھیل جاتی ہے، یا جیسے شمع روشن کریں تو نقطہ روشنی شمع تک محدود نہیں رہتا ،بلکہ آس پاس کے ماحول کو بھی ضیاء بار کردیتا ہے، یا پھول جب کھلتا ہے تو خوشبو پھول تک ہی نہیں سمٹی رہتی،بلکہ چاروں طرف فضا معطر کردیتی ہے ، جس طرح سورج نکلتا ہے تو اس کی روشنی کروڑوں میل دور زمین کو بھی روشن کردیتی ہے، اسی طرح اچھائی کی بنیاد جب بھی ڈالی جائے گی تو وہ محدود نہ رہے گی ،بلکہ دور دور تک پھیلے گی۔
جب ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالتے ہیں تو ہرطرف برائی، بد اخلاقی، بدعملی کی تاریکی نظر آتی ہے،تو کیا اب صرف معاشرے کی حالت زار پر آنسو بہا کر یا اسے برا بھلا کہہ کر کوئی فائدہ حاصل ہوسکتا ہے؟ نہیں، تو پھر کیا اسی معاشرے کے رنگ میں رنگ کر سکون حاصل ہو سکتا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں تو پھر کیا کریں ؟
جس طرح ایک فرض شناس ڈاکٹر اپنے مریض کی بہت ساری بیماریوں کا حال سننے کے بعد جڑ کا پتہ لگا کر صرف اس کا علاج شروع کرتا ہے کہ باقی بیماریاں تو اس جڑ کے ٹھیک ہوتے ہی آسانی سے دور ہوجائیں گی، آج اس معاشرےمیں پھیلی ان گنت بیماریوں کا سد باب بھی اسی طرح ممکن ہوگا، کہ ان برائیوں کی جڑ معلوم کرنی ہوگی،پھر اصلاح کی شروعات ہوگی، آخر اس کی جڑ کیا ہے؟ کہاں ہے؟ شاید آپ لوگوں نے وہ قصہ پڑھاہوگا کہ ایک صاحب کچھ ضروری کام کر رہے تھے، ان کا پانچ سالہ بچہ انہیں ڈسٹرب کر رہا تھا، تو انہوں نے سامنے رکھے اخبار میں سے دنیا کے نقشے کی تصویر لے کر اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے بچے کو دیدیئے اور کہا کہ جائو دنیا کا نقشہ جوڑ کر ٹھیک کر لائو، بچہ گیا اور ٹھوڑی ہی دیر میں بنا کر لے آیا، تو ان صاحب کو بہت حیرت ہوئی، اور پوچھا کہ بیٹا تم نے اتنی جلدی دنیا کا نقشہ ٹھیک کیسے کردیا؟ بچے نے جواب دیا کہ جب آپ اخبار پھاڑ رہے تھے، تو میں نے دیکھا کہ نقشے کے پیچھے ایک آدمی کی تصویر بنی ہوئی ہے،بس میں نےآدمی کی تصویر ٹھیک کردی،تو دنیا کانقشہ اپنے آپ ٹھیک ہوگیا، آج بھی اگر آدمی کی اصلاح ہوجائے تو پوری دنیا کا نقشہ ٹھیک ہوجائےگا، اب سوال یہ ہے کہ وہ آدمی کون ہو جس کی تصویر ٹھیک کی جائے۔ تو غور کریں کہ وہ شخص وہی ہوسکتا ہے ،جس پر آپ کو پورا پورا حق ہو، جس کا ہر معاملہ آپ طے کرسکیں، جس کو آپ اپنے اشارے پر چلا سکیں، جس کے پاس آپ کی بات ماننے کے سوا کوئی چارہ نہ ہو، جو آپ کی بات رد کرنے کی ہمت وطاقت اور حوصلہ نہ رکھ پاتا ہو، وہ کون ہے؟ وہ شخص دراصل ہم میں سے ہر ایک کا اپنا نفس اور اپنا وجود ہے، کیونکہ نہ خود سے زیادہ زور کسی پر چل سکتا ہے، نہ خود سے زیادہ معلومات کسی کے بارے میں ہوسکتی ہے، اور نہ خود سے زیادہ زیر نگرانی کوئی اور رہ سکتا ہے، یعنی وہ شخص جس کی اصلاح پردنیا کی اصلاح کا دار ومدار ہے، وہ میں اور آپ خود ہیں، اچھا اب اصلاح کی شروعات کیسے کی جائے، پھر واپس آجائیں ٹھہرے ہوئے پانی کے منظر پر اور ماریں ایک کنکری اور دیکھیں ہلچل کو پھیلتے ہوئے، ہلچل کا نقطہ دل ہے ، اور بڑھتے ہوئے دائرے خواہشات، احساسات، جذبات، عزم اور پھر قولی اور عملی دائرہ کار ہیں ،جو وسیع تر ہوتے جا رہے ہیں، یعنی سب سے پہلے اپنی اصلاح کرنی ہے ، بغض و عداوت ،چغلی، چھوٹ، وعدہ خلافی، حسد، کینہ، نفرت، غصہ ، لالچ، خواہش،تکبر، غرور،اور بداخلاقی ہماری ہی غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے یہ کوڑا کرکٹ ہمارے دلوں میں جمع ہوجاتا ہے،
لہذا جو شخص بھی اپنے دل کو ان عیوب سے پاک کرلے گا،اور اپنے نفس کی اصلاح کرنے میں کامیاب ہوجائے گا،ان شاء اللہ وہ خود بھی چمکے گا اور دوسروں کے دلوں کے صیقل کا ذریعہ بھی بنےگا
( قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا [سورة الشمس:9، 10]: