۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

اپنے اور بیگانے کی پہچان

✍️ سیّد جاوید احمد ندوی

جامعہ اسلامیہ ، مظفر پور ، اعظم گڑھ

_______________________

بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں دو خواتین اپنا مقدمہ لے کر آئیں ، ان دونوں کا دعوی یہ تھا کہ یہ بچہ میرا ہے ، جب کہ ان کے درمیان بچہ صرف ایک تھا ، معاملہ بڑا پیچیدہ اور حساس تھا ، یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ وہ دونوں اپنے دعوے میں سچی ہوں اور وہ تنہا بچہ ان دونوں کا ہو ؟ کوئی ایک تو ضرور جھوٹ بول رہی تھی اور نبئ وقت اور بادشاہِ وقت کو دھوکہ رہی تھی ، لیکن ان دونوں میں سے کسی ایک کے پاس بھی اپنے دعوے کے حق میں پیش کرنے کے لیے کوئی دلیل اور ثبوت نہیں تھا ، اب ایسے میں نہایت مشکل اور دشوار تھا کہ حقیقی ماں اور جھوٹی ماں کے درمیان کس طرح امتیاز کیا جائے ؟ کہ اچانک حضرت سلیمان علیہ السلام ذہن میں ایک انوکھی ترکیب آئی ، انہوں نے کہا :
” تم دونوں میں سے کسی کے پاس بھی اپنے دعوے پر پیش کرنے کے لیے کوئی دلیل اور ثبوت نہیں ہے ، اس لیے ہم مجبور ہیں کہ بچہ کو دو حصوں میں کاٹ کر تم دونوں کے درمیان آدھا آدھا تقسیم کر دیں "۔
یہ سن کر بچہ کی حقیقی ماں تڑپ اٹھی اور کہا حضور ! میں جھوٹی ہوں ، یہ بچہ میرا نہیں ہے ، بلکہ اس کا ہے ، لہذا اسے اس کا بچہ دے دیں اور بچہ کو خدا کے لیے دو حصوں میں کاٹ کر تقسیم نہ کریں ، جب کہ دوسری خاتون دل ہی دل میں خوب خوش ہو رہی تھی اور اپنی قابلیت پر اترا رہی تھی ، تب ہی حضرت سلیمان علیہ السلام نے کہا : *” مجھے حقیقی ماں اور جھوٹی ماں کے درمیان فرق معلوم ہو گیا ہے”* ، جو خاتون اپنے حق سے دست بردار ہوئی تھی ، اس کو اس کا بچہ دیا اور دوسری کو قید میں ڈال دیا۔

یہ بھی پڑھیں:

اگر ہم اس واقعہ کو ذہن میں رکھیں اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی منطق کو ذہن میں تازہ کریں ، تو ایران کے ساتھ حماس کے تعلقات و مراسم اور اس سے تعاون حاصل کرنے پر ملت میں جو دو جماعت پیدا ہوگئی ہے ، ان دونوں کی اصل حقیقت کو بآسانی سمجھا جا سکتا ، جو لوگ حماس اور ان کی قربانیوں کے قدر داں ہے اور ان کی جنگ و تحریکِ آزادی کے لیے دل سے مخلص اور دعا گو ہیں اور انہیں فتح یاب دیکھنا چاہتے ہیں ، وہ اس بات پر نا خوش نہیں کہ حماس نے ایران اور حزب اللہ سے تعاون کیوں لیا ؟ بلکہ وہ اس تعاون کے لیے ایران و حزب اللہ کی تعریف و توصیف کر رہے ہیں ، لیکن جو غیر مخلص اور فرقہ پرست ہیں ، جنہیں یہود و نصاری سے جنگ لڑنے سے زیادہ ملت کی آپس کی جنگ میں مزہ زیادہ آتا ہے ، وہ شیعہ سُنی کرنے میں مصروف ہیں ، وہ تنگ نظری اور دقیانوسی کا ثبوت دے رہے ہیں اور معلوم ہے تنگ نظر دشمن سے نہیں ، بلکہ آپس میں لڑنے میں دلچسپی زیادہ رکھتا ہے ، یہ تنگ نظر اور دقیانوس قسم کے لوگ بجائے نتیجہ پر نظر رکھنے کے ماضی کی کچھ دھندلی اور گندی تصاویر پر نظریں جمائے ہوئے ہیں ، یہ اس بات کے قائل ہیں کہ ماضی میں جیسا ہوتا رہا ہے ، انہیں بار بار ہی دہرایا جاتا رہنا چاہیے ، ہمیں اپنے اندر تبدیلی لانے کی ضرورت نہیں ، یہود و نصاری نے اپنے ماضی کو بھلا کر خود کو ہمارے خلاف شیر و شکر کر لیا ہے ، لیکن تنگ نظروں کے یہاں اس کی ذرا گنجائش نہیں ، سلام ہو حماس پر اور ان کے حلیف شیعہ ایران پر کہ انہوں نے ماضی کی یادوں کو بھلا کر ایک نئی تاریخ رقم کرنے کی قسم کھائی ہے اور دشمن کو خوف و ہراس میں مبتلا کر دیا ہے ، ہونا یہ چاہیے تھا کہ اہل سنت کے افراد اس پیش رفت کا دل سے خیر مقدم کرتے ، اس کی قدر کرتے ، لیکن افسوس کہ الٹا اس پر منفی تبصرے کرنے لگے ، برے انجام کی پیش گوئی کرنے لگے ، شیعہ سُنی کرنے لگے اور اس میں مولوی برادری پیش پیش نظر آ رہی ہے ، اس واقعہ نے ثابت کر دیا ہے کہ مولوی برادری سوائے مناظرہ بازی اور فتوے بازی کے کسی اور مصرف کی بالکل بھی نہیں بچی ہے ، انہیں عالمی سیاست و مصلحت کی کوئی خبر نہیں ، انہیں آفاقی ملت کی دریافت و بازیابی کا کوئی ذوق نہیں ، دشمن کیا کچھ تیاریاں کر چکا ہے ، اس سے انہیں کوئی مطلب نہیں ، اسی طرح کے تنگ نظر مولویوں کے لیے اقبال نے کبھی کہا تھا :
قوم کیا چیز ہے اور قوم کی امامت کیا ہے
اس کو کیا سمجھیں یہ بے چارے دو رکعت کے امام

ان موجودہ حالات میں اگر دیکھا جائے ، تو شیعہ فرقہ اہلِ سنت سے زیادہ دور اندیش اور معاملہ فہم ثابت ہو رہا ہے کہ اس نے بڑے دشمن کی پلاننگ کو سمجھ کر ماضی کی تلخ یادوں کو بھلا کر بڑے دشمن سے نمٹنے کو ترجیح دی ہے ، حالانکہ اس موقف کو اختیار کرنے کی ضرورت اہل سنت کو زیادہ تھی ، کیونکہ ان کی مسجد اقصی اور فلسطین دشمن کے قبضہ میں ہے ، ابھی ہماے لیے حماس کی قیادت کو ہمارے لیے آئیڈیل ہونا چاہیے تھا ، وہ میدانِ عمل میں سرگرمِ عمل ہیں ، ان کا فیصلہ زیادہ حقیقت پسندانہ اور مصلحت پسندانہ ہوگا ، اگر وہ یہ کہہ اور سمجھ رہے ہیں کہ ایران ہمارا ساتھ ہر موقع پہ دے رہا ہے ، اور ہمیں ان کی مدد کی ضرورت ہے ، تو ہم کون ہوتے ہیں مفت کا فتوی صادر کرنے والے ؟ ایران و حزب اللہ کی نیتوں پر شک کرنے والے ؟ اس قماش کے لوگوں سے اتنا تو ضرور پوچھا جا سکتا ہے کہ انگریزوں کے خلاف لڑنے کے لیے ہندوستان کے مسلمانوں نے ہندؤوں سے اتحاد کیا ، کیا تمہیں اس پر کوئی اعتراض ہے ؟ اسی طرح افغانیوں نے روس کا قبضہ ختم کرنے کے لیے امریکہ سے اتحاد کیا ، کیا تم نے اس پر کوئی فتوی صادر کیا ؟ تو ان کا جواب کیا ہوگا ؟ سوائے خاموشی کے اور کچھ نہیں ، لیکن انہیں اس بات پر اعتراض ہے کہ تحریکِ حماس نے ایران کے ساتھ اتحاد کیوں قائم کیا ہے اور اس سے تعاون کیوں قبول کر رہی ہے ؟ گویا اس قضیہ میں دنگل میں لڑ رہے پہلوانوں سے زیادہ اچھے داؤ باہر سے تماشہ دیکھ رہے تماشہ بینوں کو سمجھ آنے لگے ہیں ، حماس کو اطمینان ہے ، حماس کو وقت پر مدد پہنچ رہی ہے ، انہیں کوئی شکایت نہیں ، لیکن *مدعی سست ، گواہ چست* کیا ہی خوب کھیل چل رہا ہے ۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: