Slide
Slide
Slide

’دی کیرالہ اسٹوری‘ کے فلم ساز کا یوٹرن ؟

’دی کیرالہ اسٹوری‘ کے فلم ساز کا یوٹرن ؟

ڈاکٹر ممتاز عالم رضوی

 یہ سیاست آدمی کو لے چلی ہے اس طرف

جس طرف سے لوٹنے کا راستہ کوئی نہیں

یہ گنہگاروں کی بستی اس لیے خاموش ہے

بھید کھل جانے کے ڈر سے بولتا کوئی  نہیں

یہ بند ان کے لیے ہے جو مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں اور ہندوستان تباہی کے دہانے تک پہنچ چکا ہے ۔ کیا شہرت اور پیسے کے لیے کوئی اس قدر گر سکتا ہے کہ ملک اور کسی قوم کی پگڑی اچھال دے ؟ میں نے کل کے اداریہ میں حکومت ہند اور خفیہ ایجنسیوں پر سوال قائم کیا تھا کہ اگر ’’دی کیرالہ اسٹوری ‘‘ کے فلم ساز کا دعویٰ صحیح ہے کہ 32؍ہزار ہندو لڑکیوں کو غائب کیا گیا ، ان کا مذہب تبدیل کیا گیا اور ان کو دہشت گردانہ عمل میں جھونک دیا گیا تو سوال یہ ہے کہ ہماری خفیہ ایجنسیاں کہاں تھیں ؟ ان کو اس کی بھنک کیسے نہیں لگ سکی ؟ مودی حکومت گزشتہ 9؍سال سے کیا کر رہی ہے ؟ قومی سلامتی کے مشیر کیا کر رہے تھے ؟ ہماری وزارت داخلہ کیا کر رہی تھی ؟ لیکن اب سب دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو گیا کہ جو کچھ بھی فلم میں دکھایا گیا ہے وہ سفید جھوڑ اور سستی شہرت اور پیسے کمانے کے لیے گڑھی گئی کہانی ہے ۔یا پھر اس کے پیچھے مسلمانوں کے خلاف بڑی سازش ہے ۔

جب فلم کے ٹیزر میں 32000؍ہندو لڑکیوں کا ذکر کیا گیا تھا اس وقت ہی کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ششی تھرور نے اعلان کیا تھا کہ اگر اس کو فلم ساز پروف کردیتے ہیں تو ہم ان کو ایک کروڑ روپے انعام دیں گے ۔اسی طرح کا اعلان انڈین مسلم لیگ کی جانب سے بھی کیا گیا تھا۔ معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچا اور کیرالہ ہائی کورٹ میں بھی ۔ سپریم کورٹ نے تو خیر پٹیشن خارج کردی لیکن ہائی کورٹ نے منظور کرتے ہوئے سنسر بورڈ اور فلم ساز کو نوٹس دیا ہے کہ وہ جواب دیں کہ اس میں جو پیش کیا گیا ہے وہ کتنا سچ ہے ؟اس کے جواب دینے سے پہلے ہی فلم ساز کی طرف سے اب کہا گیا ہے کہ 32000؍ کا اعداد و شمار غلط ہے ، صرف 3؍لڑکیوں کے ساتھ ایسا ہوا ہے ۔ یہ فلم تین لڑکیوں کی کہانی ہے ۔ اب آپ سوچئے کہاں 32000؍ اور کہاں تین ۔ اس کے ساتھ ہی جب کل میں نیوز 18؍انڈیا کی ڈبیٹ میں شامل ہوا تھا تو وہاں فلم ساز نے دعویٰ کیا تھا کہ قریب 100؍لڑکیوں کے فوٹیج موجود ہیں اور 500؍لڑکیوں کی فہرست موجود ہے ۔ یہی نہیں بلکہ ان فلم ساز نے یہ تک دعویٰ کر دیا تھا کہ اس فلم کا ایک ایک لفظ سچ ہے ، کوئی بات جھوٹی نہیں ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ اب یوٹرن کیوں ؟ اور اتنا بڑا جھوٹ ٹیزر  کے ذریعہ کیوں پھیلا یا گیا ؟ اس کے پیچھے کی سازش کیا ہے ؟ کون ہے اس کے پیچھے یہ سب انھیں بتانا تو پڑے گا ۔

 اس سلسلہ میں ماہر قانون اے رحمن کا یہاں تک کہنا ہے کہ انھیں تو جیل تک ہو جائے گی ۔ اور جب تک یہ عدالت کو مطمئن نہیں کردیتے یہ فلم ریلیز نہیں ہو سکتی۔ 5؍مئی کو یہ فلم ریلیز ہونے کے لیے تیار ہے لیکن اس سے پہلے سنسر بورڈ اور فلم بنانے والوں کو ہائی کورٹ کو جواب دینا ہوگا اور اس کو مطمئن کرنا ہوگا ،اس کے بعد اگر ہائی کورٹ اجازت دے گا تب یہ فلم ریلیز ہو پائے گی ۔اس کے ساتھ ہی اس فلم کے ذریعہ جس قسم کی باتیں کی گئی ہیں اور ایک خاص مذہب کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ درج ہو سکتا ہے ۔ پھر اس سے بڑا مسئلہ تو قومی سلامتی کا ہے ۔ کوئی کیسے اس طرح کا جھوٹ بول سکتا ہے ۔ ایک دو تین نہیں 32000؍لڑکیوں کا دعویٰ کر دیا گیا اور اس کو چلا دیا گیا ۔ اب اگر یوٹیوب سے ڈلیٹ بھی کر دیا گیا تو جو نفرت پھیلانی تھی وہ تو پھیلا دی گئی ۔ ایک بات اور وہ یہ ہے کہ کیا جس طرح اس فلم کا پرموشن گودی میڈیا کر رہا تھا ، اب وہ اس جھوٹ کے خلاف بھی خبریں چلائے گا ۔ سنا ہے کہ جے این یو میں بھی اس فلم کی اسکریننگ ہوئی ہے ، آخر اس پر بین کیوں نہیں لگایا جا رہا ہے ؟ جب معاملہ سپریم کورٹ میں ہے تو اس کی اسکریننگ کی اجازت کیوں دی جا رہی ہے ؟ حیرت اس بات کی ہے کہ جے این یو میں اس فلم کے خلاف کوئی مظاہرہ نہیں ہوا ؟ کیا جے این یو بھی اب بدل گیا ہے ؟ وہاں اب حق بولنے والے طلباء نہیں رہ گئے ہیں ؟ سچ سامنے آنے کے بعد بھی اس کا بائیکاٹ نہیں کیا گیا ۔ کچھ بھی ہو لیکن یہ بہت ہی شرمناک واقعہ ہے اور اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔ مجھے لگتا ہے کہ اب اس فلم کو روک دینا چاہئے یا پھر اس میں جوجھوٹ دکھایا گیا ہے اس کو نکال کر پیش کیا جانا چاہئے ۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: