زمینی حقیقت اور علیحدہ مسلم سیاست!
زمینی حقیقت اور علیحدہ مسلم سیاست!
✍️ محمد قمر الزماں ندوی
_________________
اس موضوع پر قلم اٹھانے اور خامہ فرسائی سے پہلے ایک صاحب نظر اور صاحب خبر نے جو کچھ اس ضمن میں لکھا ہے پہلے ہم اس کو پیش کرتے ہیں ،پھر زمینی حقیقت اور ہندوستان میں علیحدہ مسلم سیاست پر ہم گفتگو کریں گے۔
"سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہم ہیں کون ہیں، ہندوستان میں ہماری اصل حیثیت کیا ھے؟ اور یہاں ہم کس حد تک اپنا پاؤں پسار سکتے ہیں؟
دستوری طور پر تو ہم بٹوارے کے بعد بھی ہندوستان کی متحدہ قومیت میں ہیں ۔ مگر اصل میں ہیں، ہندوستان کی ایک اقلیت ۔ چونکہ یہاں اب جمہوری نظام قائم ہے اور جمہوریت میں تعداد ہی سب کچھ ہوتا ہے ۔ اس لئے ہمارا مقام و منصب یہاں حکمت اور سوجھ بوجھ سے طے ہوگا ، نہ کہ تعداد سے ۔ تعداد سے اکثریت کا مقام بنتا ہے، اقلیت کا نہیں ۔ یہیں سے وہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ کسی ملک میں اقلیت کا مقام و مرتبہ سیاست کے راستے سے طے نہیں ہوسکتا ۔ سیاست میں اگر ہم پوری طرح متحد بھی ہوجائیں اور ہمارے لیڈر حکومتوں کو للکارتے بھی رہیں، تو بھی اس کا کوئی ٹھوس فائدہ مسلمانوں کو نہیں ملےگا۔ بلکہ برعکس طور پر یہ اکثریت کیلئے دلیل بنےگی۔ یاد رہے اقلیت کی للکار سے اکثریت جاگتی ہے، اقلیت نہیں ۔ اس تلخ حقیقت کو ملک کی دوسری اقلیتوں نے سمجھ لیا ہے ۔ اس لئے انہوں نے کبھی قومی سطح پر الگ سےکوئی سیاسی پارٹی نہیں بنائی، بلکہ mainstream parties میں رہکر ہی تمام سیاسی معاملوں کو طے کیا۔ مسلمانوں کی بھی کوئی سیاسی پارٹی قومی سطح پر کبھی کامیاب نہیں ہوسکی، مگر مسلم لیگ، انصاف پارٹی، مجلس اتحاد المسلمین وغیرہ نے اس کوشش میں للکارنے والا انداز اختیار کیا جس کی وجہ سے ہندو رائے عامہ مسلمانوں کے خلاف ہوگئی۔
ہمیں سمجھنا ہوگا کہ کسی ملک میں اقلیتوں کی طاقت کا راز سیاست میں نہیں بلکہ تعمیری اور فلاحی کاموں ( social contribution) میں ہوتا ہے، جو وہ اپنے ملک میں تمام لوگوں کیلئے انجام دیتی ہیں۔ اس کی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔
حاصل کلام یہ کہ جمہوری نظام میں کسی اقلیت کے لئے سیاسی غلبہ حاصل کرنا قریب قریب ناممکن ہوتا ہے ۔ (ویسے اللہ چاہے تو پھر ماضی کی تاریخ قائم ہوسکتی ہے ،وما ذلک علی بعزیز ،، لیکن اس کے لیے وہی دل، گردہ ہمت اور حوصلہ درکار ہے, جو کار جہاں بانی کے لیے شرط ہے)
مسلم قومیت پر سیاست کرنے والے لیڈرز ہمیں بار بار تاکید کرتے ہیں کہ اپنی طاقت پیدا کرو ۔ اپنی قیادت تیار کرو ۔اپنی پارٹی بناؤ وغیرہ ، درآنحالیکہ سیاست کوئی خالی سیٹ نہیں جہاں جاکر آپ براجمان ہو جائیں ۔ دنیا میں کہیں بھی کسی اقلیت کو حسبِ خواہش سیاسی عظمت نہیں مل سکتی ۔ یہ ایکدم نا ممکن سی چیز ہے’ الا یہ کہ ملوکیت قائم ہوجائے۔
بٹوارے کے بعد اب ہمارے پاس ایک ہی اوپشن رہ گیا ہے کہ ہم صرف king maker بنیں ، king بننے کی خواہش دل سےنکال دیں۔ اس میں قومی سطح پر ہماری عزت بھی رہے گی’ اہمیت بھی اور سیکولر پارٹیاں ہمارے ووٹوں کے محتاج بھی رہیں گی”۔
ذیل کی تحریر سے ممکن ہے ہمارے بہت سے قارئین اتفاق نہ کریں اور وہ اس تحریر کو بزدلی بے ہمتی اور بے شعوری قرار دیں اور اس تحریر اور فکر اور نظریہ کو غیر منطقی قرار دیں۔
لیکن راقم الحروف کا نظریہ تقریباً یہی ہے کہ اب ملک کی تقسیم کے بعد(جب مسلمان یہاں اب پندرہ یا بیس فیصدی ہیں) ہندوستان میں خالص مسلم سیاست اور علیحدہ مسلم پارثی کا قیام کسی طرح بہتر نہیں ہے ، (البتہ بعض صوبوں کے بعض حصے میں یا صوبئہ کشمیر و آسام کے بعض سیٹوں پر اس کی گنجائش ہے، جہاں بعض حصوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں اور کشمیر میں تو مسلمان ہی وزیر اعلیٰ بنتے ہیں)۔
لیکن پورے ہندوستان میں اس فارمولے پر عمل کرنا اور علیحدہ مسلم پارثی کا قیام یہ کسی طرح دانشمندانہ فیصلہ نہیں ہوسکتا ۔ ملک کی آزادی اور تقسیم سے پہلے اس ملک کی نوعیت الگ تھی، لیکن اب صورتحال کچھ اور ہے ۔ سیاست میں بہت کچھ تبدیلیاں حالات و واقعات کے الٹ پھیر اور ملکی جغرافیہ اور آبادی کے کم و بیش سے آتی ہیں۔
اگر سارے مسلم کسی ایک مسلم پارٹی کے نام پر متحد ہو جائیں گے تو بتائیے کہ ملک کے ایوان بالا اور ایوان زیریں اور صوبائی اسمبلیوں میں ہمارے کتنے ممبران اور اراکین جیت کر جاسکتے ہیں اور وہاں مسلم مسائل کو اٹھا سکتے ہیں ، ۔۔۔ آپ مثال میں کہہ سکتے ہیں کہ پنجاب میں سکھ متحد ہوکر اپنی پارٹی کو جیت دلاتے ہیں تو یاد رہے کہ اس صوبہ میں سکھ اکثریت میں ہیں ،جس طرح کشمیر میں مسلمان اکثریت میں ہیں۔
اگر مسلم پارٹی کا قیام ہوگا اور مسلمان سیکولر پارٹیوں سے علیحدہ ہوکر مسلم پارٹی کو صرف ووٹ کریں گے اور برادران وطن وہ متحد ہوکر اپنے نظریے کے حامی پارٹی کو ووٹ کریں گے تو ملکی سیاست کا منظر نامہ کیا ہوگا ؟ اس سے آپ سب واقف ہیں۔
اس لیے ملک کی زمینی حقیقت اور سیاسی بساط کو سمجھے بغیر صرف جذباتیت کی بنیاد پر علیحدہ مسلم پارٹی کی وکالت کرنا اور اس پر زور دینا یہ کسی طرح مناسب نہیں ہوگا۔
ہمیں اس ملک میں اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لیے پہلے بحیثیت مسلم ایک سچا پکا مسلمان بننا ہوگا ، تعلیم ، قانون، ،تجارت ،معیشت، دفاع اور دیگر شعبوں میں مضبوط ہونا ہوگا اور جمہوریت نواز اور سیکولر پارٹیوں کے ساتھ مضبوطی اور حکمت عملی کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا اور بحیثیت ایک مسلم اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا ہوگا اور مسلمانوں کو خود باہم ایک ہونا ہوگا اور ایک پلیٹ فارم پر مضبوطی سے کھڑا ہونا ہوگا۔
ماضی کے سیاسی واقعات اور مشاہدات سے بھی یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہندوستان میں علیحدہ مسلم سیاسیت اور علیحدہ مسلم پارٹی کا قیام موثر اور مفید نہیں رہا اور اس کے مثبت نتائج نہیں آئے۔
اس لیے میری سمجھ میں اس ملک میں جمہوری حکومت کو مضبوط کرنا اور متحدہ قومیت کے نظریہ کو فالو کرنا یہ زیادہ مناسب ہوگا اور اس سے ہی ملک میں امن و شانتی اور استحکام کی فضا قائم ہوگی۔