امیت شاہ کا بیان: دلتوں اور ڈاکٹر امبیڈکر کی توہین
امیت شاہ کا بیان: دلتوں اور ڈاکٹر امبیڈکر کی توہین
از: محمد شہباز عالم مصباحی
سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی، کوچ بہار، مغربی بنگال
__________________
وزیر داخلہ امیت شاہ کا لوک سبھا میں دیا گیا بیان، جس میں انہوں نے کہا کہ "امبیڈکر امبیڈکر اتنی بار کہنے کے بجائے رام کا نام لو تو سات جنموں کا سورگ پالو گے”، نہ صرف ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی توہین ہے بلکہ دلت سماج کے جذبات پر بھی گہری چوٹ ہے۔ امبیڈکر صرف ایک شخصیت کا نام نہیں بلکہ ایک تحریک کا عنوان ہیں، جو سماجی مساوات، انسانی حقوق، اور انصاف کی علامت ہے۔
امبیڈکر: مساوات اور انصاف کے علمبردار
ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر وہ شخصیت ہیں جنہوں نے ہندوستان کے آئین کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کیا اور سماج کے پسماندہ طبقات کو عزت، حقوق اور مساوی مواقع فراہم کرنے کے لیے انتھک محنت کی۔ انہوں نے منو اسمرتی دھرم کی اُن ناپاک روایات اور ذات پات کے نظام کو بے نقاب کیا جس نے صدیوں تک دلتوں کو غلامی اور ذلت کے گڑھے میں دھکیلا۔
امبیڈکر کو "رام” کے نام کے ساتھ موازنہ کرنا اور ان کے ذکر کو "فیشن” قرار دینا اس حقیقت کی نفی ہے کہ امبیڈکر نے اپنے سماجی اصلاحی اقدامات کے ذریعے ہندوستان کے دلتوں کو زندگی کی نئی روشنی دی۔ ان کے خیالات کسی ایک مذہب کے ماننے والوں کے لیے نہیں، بلکہ تمام انسانوں کے لیے ایک مشعل راہ ہیں۔
منو اسمرتی اور امبیڈکر کی مخالفت:
امیت شاہ اور ان کی پارٹی کی نظریاتی وابستگی "منو اسمرتی” سے ہے، جو ذات پات کے نظام کو جائز ٹھہراتی ہے اور دلتوں کو کمتر مانتی ہے۔ اس کے برخلاف، ڈاکٹر امبیڈکر نے منو اسمرتی کو سماجی برابری کے خلاف قرار دیتے ہوئے اسے نذرِ آتش کیا اور دلتوں کو اس استحصال پسند نظریے سے آزاد ہونے کی تلقین کی۔
امیت شاہ کا بیان دراصل اسی نظریاتی تضاد کی عکاسی کرتا ہے۔ وہ ایک ایسے ہندوستان کا خواب دیکھ رہے ہیں جہاں "رام” کا نام لے کر ذات پات کے نظام کو برقرار رکھا جائے اور دلتوں کی آواز کو دبایا جائے۔ یہ بیان اس بات کی بھی علامت ہے کہ حکمران جماعت اب بھی امبیڈکر کے نظریات کو ایک چیلنج کے طور پر دیکھتی ہے اور دلت سماج کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہی ہے۔
دلت سماج کی توہین:
امیت شاہ کے اس بیان نے نہ صرف امبیڈکر کی توہین کی، بلکہ دلت سماج کی بھی بے عزتی کی ہے جو انہیں اپنے حقوق اور عزت کی علامت مانتے ہیں۔ دلت سماج کے لیے امبیڈکر ایک مسیحا ہیں جنہوں نے ان کے وقار کی بحالی کے لیے اپنی زندگی وقف کی۔ اس طرح کا بیان دراصل ان کی جدوجہد کی توہین ہے اور سماج میں مذہبی جذبات کو بھڑکانے کی کوشش ہے۔
سیاست اور مذہب کا کھیل:
بی جے پی اور اس کے رہنما اکثر مذہب کو سیاست کا ہتھیار بناتے ہیں۔ امیت شاہ کا یہ بیان بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ رام کے نام کو بار بار استعمال کرنا اور اسے دلتوں کی تحریک کے رہنما سے موازنہ کرنا، ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ معلوم ہوتا ہے تاکہ دلتوں کے سیاسی اور سماجی اتحاد کو کمزور کیا جا سکے۔
نتیجہ:
امیت شاہ کا بیان ایک غیر ذمہ دارانہ اور متعصبانہ اقدام ہے جس کی ہر سطح پر مذمت کی جانی چاہیے۔ یہ ہندوستان کے سیکولر اور جمہوری اصولوں کے خلاف ہے اور سماج کو تقسیم کرنے کی سازش کا حصہ ہے۔ ہمیں ڈاکٹر امبیڈکر کے نظریات اور ان کے مشن کو یاد رکھنا ہوگا اور دلت سماج کی عزت اور مساوی حقوق کے لیے کھڑا ہونا ہوگا۔
دلت سماج اور تمام انصاف پسند افراد کو اس بیان کے خلاف متحد ہو کر آواز بلند کرنی چاہیے تاکہ ایسے نظریات کو شکست دی جا سکے جو سماجی ہم آہنگی اور برابری کے خلاف ہیں۔