رباعی تحقیق:ایک قابلِ قدر کتاب

از:- نایاب حسن

رباعی چار مصرعوں کی صنفِ سخن ہے، جس میں شاعرانہ اختصار کے ساتھ کوئی اہم بات،کوئی نکتۂ حکمت، کوئی نصیحت آمیز خیال،کوئی قیمتی فکر ، کسی درس انگیز موضوع اور کسی تخیل افروز مضمون کو ادا کیا جاتا ہے۔یہ لفظ خالص عربی ہے،البتہ اس صنف سخن کی ایجاد کا سہرا عموماً فارسی شاعر رودکی کے سر بندھتا رہا ہے۔ڈاکٹر امیر حمزہ جنھوں نے رباعی کی تنقید پر ہی اپنا اکیڈمک ریسرچ کیا ہے ،ان کی ایک کتاب چند ماہ قبل شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی کی رباعیوں کے کلیات کی شکل میں منظر عام پر آئی اور اب دوسری کتاب ’رباعی تحقیق‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے۔اس کتاب میں انھوں نے رباعی کے فن پر بنیادی نوعیت کی تحقیقی گفتگو کی ہے،جو اس فن سے دلچسپی رکھنے والے سکالرز اور اساتذہ کے لیے خاصی دلچسپ،خیال انگیز اور معلومات افزا بھی ثابت ہوگی۔
کتاب اپنے مواد کے اعتبار سے بہت ضخیم نہیں ہے،کل ۲۲۴صفحات کو محیط ہے اوراس میں کل نو مختلف عناوین کے تحت رباعی سے متعلق تحقیقی مباحث کو سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔پہلا عنوان ہے’فارسی کتب سے‘ ، اس کے تحت مصنف نے فارسی ادب و تنقید میں رباعی کے ظہور کا زمانی سرا تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہوئے فارسی شاعری کی مختلف اصناف اور خود رباعی کے لیے استعمال کیے جانے والے مختلف ناموں کی نشان دہی کی ہے۔ دوسرا عنوان’شعرالعجم‘ ہے،جو کہ علامہ شبلی نعمانی کی مشہور زمانہ تصنیف ہے،مصنف نے ان کی اس کتاب میں مذکور رباعی کے وجود میں آنے کا پس منظر نقل کیا ہے۔’خیام‘ سید سلیمان ندوی کی کتاب ہے، جس میں خیام کی زندگی اور ادبی خدمات پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے،چوں کہ خیام رباعی کا یکہ تاز شاعر رہا ہے؛اس لیے علامہ نے اس کی رباعی گوئی اور مطلق فن رباعی پر جوکلام کیا ہے،ڈاکٹر امیر حمزہ نے اس پر یہاں ناقدانہ گفتگو کی ہے۔’مقالات حافظ محمود شیرانی‘ رباعی پر شیرانی صاحب کے مقالے کا تجزیہ کرتا ہے۔اس کے علاوہ انھوں نے ڈاکٹر فرمان فتحپوری کی ’اردو رباعی:فنی و تاریخی ارتقا‘،سلام سندیلوی کی ’اردو رباعیات‘، محمد ارشاد کی ’رباعی:تحقیق و تنقید‘اور ڈاکٹر سیروس شمیسا کی’سیر رباعی‘ کے مشتملات کا بڑا فاضلانہ جائزہ پیش کیا ہے۔کتاب کا آخری حصہ اختصار کے ساتھ اردو میں رباعی کے فن کا مکمل تعارف پیش کرتا ہے،جس میں اس کی لغوی و اصطلاحی تعریف،اس کے وزن اور بحر،اس کے خصوصاً آخری مصرعے کی اہمیت و معنویت،شروع زمانے سے اب تک اس کی مقبولیت، اس کی اقسام،اس کے موضوعات کے تنوع،اس کے اوزان و بحور اور اس سلسلے میں کیے گئے نئے پرانے تجربوں کی نشان دہی کی گئی ہے اور آخر میں دوسری اصنافِ سخن سے رباعی کی مشابہت یا اختلاف کا بھی مختصر تذکرہ کیا گیا ہے۔

گویا یہ کتاب فن رباعی پر اب تک موجود لٹریچر کا ایک تحقیقی و محاکماتی جائزہ پیش کرتی ہے،جس میں رباعی کی اصل،اس کے معرضِ وجود میں آنے کے زمانے اور اس کے اوزان و مواد وغیرہ پر بھی قدرے تفصیلی بحث آگئی ہے۔مصنف اپنے دیباچے میں کتاب کی نوعیت و مشمولات پر روشنی ڈالنے کے ساتھ یہ بھی بتایا ہے کہ یہ کتاب انھوں نے کس کے لیے لکھی ہے اور کس کے لیے اس کا مطالعہ مفید ثابت ہوگا،ہم بھی انھی کی بات نقل کیے دیتے ہیں:’اول یہ کہ جو شخص اس موضوع سے واقف ہو،دوم یہ کہ اسے عربی و فارسی کا بھی علم ہو۔موضوع کی واقفیت یہ ہے کہ کم ازکم ڈاکٹر سلام سندیلوی اور ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے توسط سے سید سلیمان ندوی اور حافظ محمود شیرانی کو پڑھا ہو،نیز صاحبِ ذوق ہو۔اگر نہیں تو پھر اس پر یہ کتاب گراں گزرے گی۔عربی و فارسی کا علم اس لیے ضروری ہے کہ اکثر شواہد و دلائل عربی و فارسی سے لیے گئے ہیں؛اس لیے کتاب کی راست تفہیم کے لیے مذکورہ دونوں زبانوں سے واقفیت بھی ضروری ہے۔طویل اقتباسات کے مفاہیم تو درج کردیے گئے ہیں؛لیکن مختصر جملوں کی کوئی تشریح نہیں ہے،ایسے میں مشکل پیدا ہوگی اور قاری پر ایک صفحے کا مطالعہ بھی گراں گزرے گا‘۔

ہمارے خیال میں فن سے دلچسپی،ادبی و شعری ذوق اور فارسی و عربی زبان سے عبارت فہمی کی حد تک آشنائی اس کتاب کے مطالعے کے لیے کافی ہے؛کیوں کہ شبلی و شیرانی و سید سلیمان ندوی کی رباعی سے متعلق تحریروں اور ان کے بعد لکھی گئی کتابوں کے مباحث سے آگاہی تو اس کتاب کے ذریعے ہو ہی جائے گی۔بہرکیف امیرحمزہ صاحب نے بڑا اہم اور غیر معمولی نوعیت کا تحقیقی کام کیا ہے۔فن رباعی پر لکھی گئی جن کتابوں یا مقالات پر انھوں نے گفتگو کی ہے،ان میں بطور حوالہ ذکر کی گئی کتابوں تک بھی انھوں نے رسائی حاصل کی اور محولہ عبارتوں کو اصل کتاب سے ملاکر بہت سی بحثوں کی سمتیں سیدھی کیں اور بہت سے اہم نکات دریافت کیے ہیں۔ اس مختصر کتاب کی تالیف میں انھوں نے عربی،فارسی اور اردو کی تقریباً ستر کتابوں سے استفادہ کیا ہے۔بات بڑی مدلل انداز میں کی اور موضوع سے متعلق ابھرنے والے ہر قسم کے شبہات و اعتراضات کو مختلف سیاق و سباق اور موزوں قرائن کی روشنی میں دور کرنے کی کوشش کی ہے۔اس طرح ان کی اس ایک مختصر سی کتاب کے مطالعے سے نہ صرف ایک ساتھ پانچ چھ کتابوں کے مشتملات سے آگاہی حاصل ہوتی ہے؛بلکہ فن رباعی کی تمام ضروری جہتیں روشن ہوجاتی ہیں۔ایک خالص تحقیقی نوعیت کی کتاب کو سادہ و سلیس انداز میں لکھنے کی ان کی کوشش بھی قابلِ ستایش ہے۔ کتاب کا سراپا تو لاجواب ہے،بہترین طباعت،جاذب نظر ٹائٹل کے علاوہ کتاب کو جیکٹ بند کرنے کا ان کا آئیڈیا ان کے جمالیاتی ذوق کا بہترین نمونہ ہے اور اس کتاب کی یہ خوبی ایسی ہے کہ وہ شخص بھی اسے اپنے پاس رکھنا چاہے گا،جسے فن رباعی یا اس موضوع کے مطالعے سے کوئی خاص دلچسپی نہ ہو۔عذرا بک ٹریڈرس سے کتاب کی اشاعت عمل میں آئی ہے،قیمت ساڑھے تین سو روپے ہے رعایتی قیمت میں نگارشات بک اسٹور دیوبند سے حاصل کی جاسکتی ہے

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔