مخمصے میں مسلمان ! "الیکشن میں پولرائزیشن روکے یا دکھ کا اظہار کرے ؟ ۔
ان دنوں مسلمانانِ ہند کو ایک عجیب وغریب مخمصے کا سامنا ہے۔ حکومت کی کسی پالیسی، کسی مسودہ قانون یا مخصوص ذہنیت کے شرپسند عناصر کے خلاف آواز اٹھانا چاہیں اور پر امن احتجاج کرنا چاہیں تو فوراً یہ نصیحت کر دی جاتی ہے کہ فریق مخالف تو یہی چاہتی ہے کہ مسلمان سڑکوں پر اتریں۔ جس قدر یہ مشتعل ہوں گے مذہب کی بنیاد پر اتنا ہی پولرائزیشن ہوگا اور پولرائزیشن ہی الیکشن جیتنے کا نسخہ کیمیا ہے۔ لیکن کیا پولرائزیشن روکنے کا ٹھیکہ مسلمانوں نے لیا ہے !
بات تو بہت حد تک صحیح ہے کہ اب انتخابی مہم میں امیدوار کی کارکردگی نہیں بتائی جاتی ہے۔ رپورٹ کارڈ نہیں بتایا جاتا ہے جیتنے کے بعد کے منصوبوں پر بات نہیں کی جاتی ہے ۔۔۔ اب تو مذہبی منافرت کو ہوا دینے والی باتیں ؛ عوام کو مذہب، اونچی نیچی ذات برادری اور اکثریت و اقلیت کے نام پر پولرائزیشن ووٹ حاصل کرنے کا مجرب نسخہ ہے۔ اس میں بھی سب زیادہ مفید کبھی اشارے کنائے میں نشانہ ؛ میاں ، بیگم ، کبھی کھل کر ملے اور مسلمان یعنی ہندو -مسلم کے نام پر تفریق کی کوشش ہاٹ کیک ثابت ہوتی ہے۔
پچھلے دنوں جو افسوس ناک واقعات رو نما ہوئے اس پر ردعمل کے طور پر افسوس کا اظہار فطری تو ہے لیکن یہاں بھی پولرائزیشن کی دہائی دے کر خاموشی اختیار کرنا مصلحت کا تقاضا سمجھا جا رہا ہے۔
ستم ظریفی دیکھیں کہ مسلمان مصلحت کے تقاضوں کا خیال رکھتے ہیں تو ایک طرف اپنے انہیں بزدل اور اکثریت سے مرعوب کا طعنہ دیتے ہیں تو دوسری طرف نام نہاد پارٹیاں انہیں سیاسی طور بے وقعت اور ان کو ووٹ دینے کے لئے مجبور سمجھتی ہیں ۔
مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جائیں پھر بھی سیاسی پارٹیوں کے رہنما ان کے نام لے کر مذمت کرنے سے گریز کرتے ہیں! بہت جرأت کی تو مجموعی طور پر اقلیتوں پر ظلم کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں!
ملک میں ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ نام نہاد سیکولر پارٹیاں یہ سمجھتی ہیں کہ ان کی زبان پر لفظ "مسلم” آتے ہی وہ ٹرول ہو جائیں گی۔ وہ اکثریتی فرقہ کا ووٹ بینک گنوانا نہیں چاہتی ہیں شاید اس لئے ایسا کرتی ہیں ۔
یہ بھی پڑھیں: فرقہ وارانہ فسادات اور ہندوستانی پولیس
مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ سیکولر پارٹی یا پارٹیوں کے اتحاد کو اقتدار میں دیکھنا چاہتے ہیں لیکن قدم قدم پر انہیں آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ سیکولر پارٹیاں انہیں ٹکٹ دیں یا نہ دیں ان کے ووٹ انہیں ضرور چاہیے ! دراصل ان سیاسی پارٹیوں نے مسلم ووٹرز کو مجبور محض سمجھ رکھا ہے!
اگر نہیں تو پھر بی جے پی کے خلاف ٢٤ سیاسی پارٹیوں کا کل ہند اتحاد میں اجمل اور اویسی شجر ممنوعہ کیوں ہیں! الیکشن کمیشن نے ان پارٹیوں کو انتخابات میں حصہ لینے کے اہل سمجھا ہے تو کوئی انہیں فرقہ پرست پارٹی کیسے کہہ سکتا ہے ؟ اصولاً ایسی کسی ریگنائزد پارٹی کو اچھوت سمجھنا بھی غلط ہے۔
میں خالص مسلم یا خالص ہندو سیاسی پارٹی کی تشکیل کے حق میں نہیں ہوں اور مسلمان عموماً مذہب کے نام پر ووٹ نہیں دیتا ہے یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے۔
مسلمان کیا کریں ؟ ملی مفاد میں ہیجان انگیز ہوں ؟ سڑکوں پر اتریں؟ یکساں سول کوڈ ، ممبئی ٹرین سانحہ یا ہریانہ فسادات پر پرامن مظاہرہ کریں۔۔۔ یا ملکی مفاد میں پولرائزیشن کو روکنے کے لئے اور جمہوریت وسیکولرازم کے تحفظ کے لئے خاموش بیٹھ جائیں ؟ اس مخمصے سے باہر کیسے نکلیں !
یہ بھی پڑھیں: وطن کے سینے پہ خون ناحق کی یہ گہری لکیریں
دراصل مقتدرہ جماعت کا کونسیپٹ بہت واضح نہیں ہے۔ مسلمانوں کے تئیں ان کے قول و فعل میں تضاد کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اس سے قبل کے انتخابات میں کسی ایک فرد کو بھی ٹکٹ نہیں دیا لیکن اس بار ان کو قریب کرنے کی بات کر رہی ہے ۔ اپنے لیڈروں سے کہہ رہی ہے کہ پسماندہ مسلمانوں سے قربت بڑھائیں اور یہ کہ راکھی کا تہوار آرہا ہے اس میں مسلم خواتین سے راکھی بندھائیں ! میرے خیال میں ایسی کوششوں کی حیثیت کاسمیٹک میک اپ سے زیادہ نہیں ہوتی ہے۔
اس وقت مسلمانوں کی سب سے بڑی ضرورت پرامن زندگی کی ہے۔ سیفٹی اور سیکورٹی اس کی اولین ضرورت ہے تعلیمی اور معاشی مسائل ثانوی درجے میں ہیں ۔ یہ پرامن بقائے باہم میں یقین رکھتے آئے ہیں اس اصول کو مزید ہر فرقہ کے لوگوں میں راسخ کرنے کے لئے حکومت زمینی سطح پر کام کر کے ہر فرقہ کے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا سکتی ہے ۔