Slide
Slide
Slide

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تحمل اور سماجی تقاضے

 عین الحق امینی قاسمی،معہد عائشہ الصدیقہ بیگو سرائے

  بہت سی دفعہ ہم غیر ضروری باتوں میں اس طرح مصروف ہوجاتے ہیں ،مانو ہمارے پاس کرنے کے لئے بس یہی اک کام ہیں ،جب کہ بہت سے اہم پہلو ہیں ،جس پر ہمیں اپنا دماغ ،اپنی صلاحیت، زاویہ نگاہ,اپنی توانائیاں سمیت بہت کچھ کھپانے کی ضرورت ہے. بات تب بگڑتی ہے جب غیر ضروری لوگ کسی کام میں کود پڑتے ہیں اور نظام کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرنے لگتے ہیں ،زندگی کے ہر شعبے میں اور ہر آبادی میں ایسے کچھ جذباتی لوگ مل جائیں گے ،جہاں بنے بنائے کام پر پانی پھیر تے اور زمینی حقائق وکردار پر کالک پوتتے ہوئے وہ آپ کو بغیر ڈھونڈے نظر آئیں گے۔ اگر آپ ان سے گفتگو کریں کہ بھائی! یہ سب غیر مناسب حرکت ہے ، اتنا جذبات میں آنا  بھی اچھا نہیں ، سورج پر تھوکنے یا چھوٹا منھ بڑی بات کرنے سے پہلے آپ اپنے قد کو بھی تو دیکھ لیجئے ،تو وہ بہ طور دلیل ایسی باتیں کرجائیں گے کہ جس سے لگے گا کہ وہ قوم وملت اور تنظیم وادارے کے سب سے بڑے ہمدرد ہیں۔ مگر سچائی بالکل برعکس ہوتی ہے۔

  آدمی اپنے حصے کے کام پر توجہ دے اور ذمہ دارانہ خوبیوں کے ساتھ اس کو سرانجام دینے کی فکر وکوشش کرے ،جہاں تک اختلاف رائے کی بات ہے ،تو اس کو دبایا نہیں جاسکتا ، کام کے لوگوں کے بیچ نظریاتی اختلافات کی گنجائش ہے اور بعض دفعہ اس تعمیری اختلاف سے خیر کا پہلو چھن کر سامنے آتا ہے۔ماضی سے حال تک کی تفصیلات کے درمیان نظریاتی اختلافات کی کئی نظیریں ہیں ،جہاں اس عمل کے نتیجے میں خیر تک رسائی ہوسکی ، لیکن ذہن میں اس بات کو جگہ دیجئے کہ اختلافات کی صورت میں حق تب وجود میں آتاہے ،جب اختلاف کرنے والوں کے اندر بھی اس حوالے سے خیر باقی ہو اور وہ خیر ہی کے جذبے سے اپنی الگ رائے پیش کرنے میں مخلص بھی ہو ،ورنہ ہوس ،خود غرضی بھڑاس نکالنے ،انتقام لینے ،نقصان پہنچانے اور ذلیل کرنے یا نیچا دکھانے کے جذبے سے اگر اختلاف رائے ہوا ،تو سمجھ لیجئے کہ خود اس رائے میں شرچھپا ہوا ہے ،ایسی رائے نہ صرف عمل کے قابل نہیں ہوتی ، بلکہ اس کو حکمت عملی سے نظر انداز کردینے میں ہی بھلا ہے۔

  کہتے ہیں کہ تعلیم کی کمی کو تربیت اچھی طرح ڈھانپ لیتی ہے، لیکن تربیت کے شگاف کو تعلیم کبھی نہیں بھر سکتی۔تر بیت کی کمی کی وجہ سے ہی عموما ً تنقید کرتے وقت احباب آپا کھو بیٹھتے ہیں اور اپنے جذبات میں اتنے مغلوب ہوجاتے ہیں کہ وہ احترام باہمی کو یکسر بھلاکر بے سروپیر کی ایسی باتیں شروع کردیتے ہیں ،جو ایک شریف طبیعت کے لئے قطعاً زیب نہیں دیتیں ۔دیکھا یہ گیا ہے کہ قوت برداشت کے فقدان کی وجہ سے بعض لوگ الزام واتہام کے ذریعے بالکل بے لباس کرنے پر اتارو ہوجاتے ہیں ،کردار کشی کیا ،عزت وناموس تک کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں ،ایسا صرف اس لئے ہوتا ہے کہ حق اور سچ کے نام پر نیچا دیکھا نے ،رسوا کرنے ،بھڑاس نکالنے کی چاہت ،جگہ پا چکی ہوتی ہے ، سمجھ لینی چاہئے کہ اختلاف کی گنجائش کہاں نہیں ہے ،اور کس میں نہیں ہے ،مگر یہ سب حدود میں ہوتو اچھا لگتا ہے اور اختلاف کرنے والے کا قد بھی بڑھتا ہے اوروقار واعتبار بھی۔بعض ناقد مزاج احباب کے ذہن میں یہ بھی ہوتا ہے کہ ہم سچ بول رہے ہیں ،لیکن وہ شاید اس” سچ ” کو بھول جاتے ہیں، کہ اولا تو ہر سچ بولا نہیں جا تا اور ثانیاً سچ بولنے کے لئے بھی ضروری ہے کہ نیت ،لہجہ اور موقع بھی حق اور سچ ہو ،اس کے بغیر بات مو ¿ثر نہیں ہوسکتی اور اس بات کو بھی ذہن میں رکھا جائے کہ ہر عمل کا ردعمل نہیں ہوتا ،بعض دفعہ حکمتا خاموش رہنا بھی ضروری ہوتا ہے ،اور خاموشی بھی کبھی کبھی مضبوط جواب ثابت ہوتی ہے۔

  ان سب باتوں کے علاو ¿ہ ایک سب سے بڑی بات یہ بھی یاد رکھنے کی ہے ہم سب اس نبی ﷺکے نام لیوا ہیں جس نے اپنے عمل وکردار سے زندگی بھر کے لئے ہمیں قوت برداشت اور صبر وتحمل سے کام لینے کی دعوت دی ہے۔قوت برداشت کے حوالے سے جب ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں قوت برداشت اور تحمل کی اعلی مثالیں ملتی ہیں ،جس سے ہم سب کی رہنمائی ہوتی ہے اور لگتا ہے کہ ہم یقینا کہیں کہیں ایسی بڑی بھول کر جارہے ہیں ،جس پر ہمیں سنجیدہ ہوکر غور وفکر کی خاص طور پر ضرورت ہے۔آپ جانتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم دوست دشمن ،اپنا ہو یا غیر سبھوں کے ساتھ نرمی ،حسن سلوک ،رحم دلی اورعفو ودرگذرکا معاملہ فرماتے تھے ۔احادیث کے ذخیرے میں اس حوالے سے بہت کچھ ہدایات موجود ہیں حضرت ہند ہ ؓبنت ہالہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہایت نرم مزاج تھے ،مزاج میں ذرہ برابر بھی سختی نہیں تھی ،اپنے ذاتی معاملہ پر کبھی آپ کو غصہ نہ آیا ،اور نہ کبھی کسی سے بدلہ لیا ،چھوٹی چھوٹی باتوں پر شکریہ اداکرتے تھے۔ حضرت انس ؓبن مالک فرماتے ہیں کہ میں دس سال حضور کی خدمت میں رہا ،مگر کبھی انہوں نے اُف تک نہیں کہا۔حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک دیہاتی آیا اور آتے ہی اُس نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر کو زور سے کھینچا، جس سے گردن مبارک پر نشان آگئے ،پھر کہنے لگا اے محمد !اللہ کا یہ مال جو تمہارے پاس ہے نہ تیرا ہے اور نہ تیرے باپ کا ،اس میں سے ایک لدا اونٹ مجھے بھی دلاو ¿۔پیغمبر اسلام تھوڑی دیر خاموش رہے، پھر فرمایا ،بے شک مال اللہ کا ہے اور میں اس کا بندہ ہوں ،آپ نے حکم دیا کہ ایک جو سے اور ایک کھجور سے لدا اونٹ اسے دیدیا جائے۔

  اسی طرح ایک مرتبہ آپ ایک درخت کے نیچے آرام فرمارہے تھے کہ غورث بن الحراث تلوار نکال کر کھڑا ہوگیا ،کہنے لگا اے محمد! بتا اب تجھے کون بچائے گا ،آپ نے جیسے ہی کہا اللہ ،بس اتنا سنتے ہی اس کے ہاتھ سے تلوار گرگئی ،آپ نے تلوار سونت کر فرمایا تو بتا ،تجھے اب کون بچائے گا ،وہ رحم کی بھیک مانگنے لگا ،حضور نے فرمایا جاو ¿ میں بدلہ نہیں لیا کرتا۔حضرت عبد اللہ روایت کرتے ہیں کہ ایک روز زید بن سعنہ حضور کی خدمت آیا وہ یہودی عالم تھا اس نے نبوت کی نشانیوں کے بارے میں پڑھ رکھا تھا،چنانچہ حضور کو دیکھا تو نبوت کی تمام علامت نظر آئیں سوائے دو باتوں کے ،ایک یہ کہ اس کا حلم اس کے غصے پر غالب ہوگا ،دوسرا یہ کہ غصہ دلانے اور گستاخیاں کر نے کے باوجود وہ حلم اور برد باری دکھائے گا ۔چنا نچہ ایک طویل حدیث میں یہ پورا واقعہ درج ہے کہ وہ زید بن سعنہ جو ایک یہودی عالم تھا وہ ایک موقع پر اپنے بے وقت قرضے کی واپسی کے سوال پر حضور ﷺکے ساتھ گستاخیاں کرتا رہا ،جہالت بھری حرکتیں کرتا رہا ،حضرت عمر ؓسے رہا نہ گیا ،فر مایا اے اللہ کے دشمن! تو اس طرح گستاخی کرتا ہے جس طرح میں دیکھ رہا ہوں، اس خدا کی قسم جس نے ان کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ،اگر مجھے ان  کا ڈر نہ ہوتا تو میں اپنی تلوار سے تیرا سر اڑادیتا ،حضور ﷺاطمینان سے یہ سب دیکھ رہے تھے ،پھر آپ نے مسکراتے ہوئے فرمایا ،اے عمر !اس پرغصہ کی بجائے تم مجھے بھی کہو کہ اس حقدار کا حق ادا کرو ،اور اس کو بھی کہو کہ جو قرض کا تقاضا ہے جس کے اپنے اصول وطریقے ہیں ،اس کے مطابق تقاضا کرے ،اسے پیارسے سمجھاو ¿ ،اور جاو ¿ جو معاہدہ ہوا تھا ،اس سے بیس ساع زیادہ کھجور دیدینا۔ ،تب یہودی عالم نے اس راز کو افشاءکیا کہ دراصل مجھے حضور میں ان دوعلامتوں کو دیکھنا تھا جو اوپر مذکور ہوئیں ،میرا مقصد مال وصول کرنا نہیں تھا ،دراصل حضور کو سمجھنا تھا کہ آپ میں حلم کتنا ہے ،اے عمر تم گواہ رہو کہ میں اپنے مال کا آدھا حصہ امت مسلمہ کے لئے وقف کرتا ہوںاور ایمان لاتا ہوں اس دین پر جس کی محمد صلی اللہ علیہ وسلم دعوت دیتے ہیں۔

  بہر حال ! ،ہم اس نبی امیﷺ کے امتی ہیںجو حلیم کی صفت سے بدرجہ اتم متصف ہیں ،جنہوں نے دشمنوں کو بھی معاف کیا ہے ،فتح مکہ کا موقع ہے ، بعض صحابہ کرام ؓ کفار کی ایک ایک گستاخی اور ذلیل حرکات ،حضور ﷺ کو یاد دلاتے ہیں ،مگر حضور نے چند ایک کو چھوڑ کر سبھوں کو معاف فرما دیا۔ مسجد نبوی کا پاکیزہ ماحول میں ایک دیہاتی قضاءحاجت کے لئے بیٹھ گیا ،حضرت عمر ؓ تلملا گئے ،حضور ﷺنے اشارہ کیا کہ فارغ ہونے دو ،فراغت کے بعد مسجد کے اس حصے کو صاف کرنے کا حکم دے کر اس دیہاتی کی تربیت فرمائی ،وہ متآثر ہوکر مشرف باسلامہ ہوگیا اندازہ کیجئے ! یہ سب کیا ہے؟ قوت برداشت کی اس سے اعلی مثال بھی مل سکتی ہے کیا ؟کیا ان جیسے مواقع پر ہمارا عمل بھی وہی ہوگا جو ہمارے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً کردکھایا ؟۔

   افسوس کے سوا اور کیا کہا جائے کہ ایک ہم ہیں، جو بغیر معقول وجہ کے اور معاملے کے حقائق کو جاننے سمجھنے سے پہلے ہفوات بکنے کے لئے قلم کاپی لے کر بیٹھ جاتے ہیں ،بعض منفی ذہن کا ساتھ دینے سوشل میڈیا پر آدھمکتے ہیں ،طرح طرح کے بے بنیاد سوالات قائم کر گناہ بے لذت میں مبتلا رہتے ہیں ، وقت ،حالات سے بے خبر اور کوئی بڑی ذمہ داری یا تعمیری کردار انجام دینے سے پہلے اپنے بزرگوں کو جنہوں نے قوم وملت کے لئے زندگیاں کھپائی ہیں ،انہیں بدنام کرنے، ان کی عزت وآبرو کو نیلام کرنے پر ہم اتارو ہیں ، اس اوچھی حرکت کے لئے ہم جیسے صاحب علم وفضل ،قوم کے مقتدا ،استعمال ہورہے ہیں۔ خدا کے واسطے اپنے اندر قوت برداشت کو راہ دیجئے ،اپنے مقصد کو ترجیح دیجئے ،اپنے حصے کے کام پر دھیان رکھئے ،اورمت ساتھ دیجئے کسی بھی منفی کردار کا اور جس بڑے انقلاب کی آپ اوروں سے امید رکھتے ہیں ، اپنی صلاحیت اور استطاعت کے بقدر خود سے ان انقلابات کو جنم دینے کی مثبت کوشش کیجئے!۔

  ملک کے موجودہ حالات سے ہم سب بخوبی واقف ہیں، ایسے ماحول میں ہمارے سرگرم احباب کی کیا ذمے داریاں ہیں؟ اورکن پہلوو ¿ں پر ہمیں اپنے ذہن ومزاج کو اس وقت سوچنے کا عادی بنانا چاہئے ، ہمیں اچھی طرح معلوم ہے، اس لئے ہمیں فکرمندی کے ساتھ زمینی سطح کے بنیادی کاموں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، غیر ضروری بحث و مباحثہ،بے وجہ کی تنقید ،غیر مفید تحریر،بے مقصد گفتگو اورآپس میں بے احترامی کا مزاج وغیرہ انتہائی نقصان دہ ہے،کسی بھی طرح کی لابنگ ،جانب داری ،ایک کو سرپہ بٹھانے کی چاہت میں دوسرے کو نیچے دکھانے کا ناپاک جذبہ،گناہ عظیم ہے ،سب ہمارے ہیں ،سبھوں کو الگ الگ خوبیوں کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے ،سبھوں کی ہمیں ضرورت ہے ،اس دل میں سب کے لئے عظمت ،احترام اورمحبت ہونی چاہئے،سبھوں کو ہم برداشت کرنا سیکھیں۔ایک موقع پر مفکر اسلام امیر شریعت سا بعؒ نے فرمایا تھا کہ : ”یہ احساس زندہ رہے کہ ہم سب اللہ کے سپاہی ہیں ،جب جیسی دینی ضرورت اور ملی خدمت سامنے آئے ،اسے انجام دیناچاہئے ،دینی کاموں میں شخصیت ،اورمنصب کے تحفظات برتنا کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے ،اور یہ تو اور بھی برا ہے کہ عالم دین یا خادم ملت ،دین وملت کی خدمت کے نام پر اپنی شخصیت کا گول گنبد تعمیر کرے ،اور دینی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دے یاملت کے نقصان کی قیمت پر اپنی ذاتی اغراض کا سودا کرے “ہمارے نوجوان اہل قلم جو سوشل میڈیا پر اکابرین کی پگڑیاں اچھال رہے ہیں،وہ امیر شریعت سابع ؒکی اس ہدایت پر بھی غور کریں "زبان وقلم کے استعمال میں احتیاط برتیں ،بڑوں اور بزرگوں کی عزت کا پاس ولحاظ رکھیں ،اوران کے بارے میں کوئی ایسی بات کہنے یا لکھنے سے بچیں ،جس کی جواب دہی آخرت میں مشکل ہو “۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: