مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ،نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ
علم وعمل ، صلاحیت وصالحیت ، تواضع وانکساری، خوش خلقی وسادگی ، ذہانت وطباعی، حاضر دماغی وحاضرجوابی، خود داری ومتانت، محبت رسول، خشیت خدا وندی اور حضرت ابو ہریرہؓ کی کنیت کی وجہ ظاہری کے ساتھ گداز جسم ، کشادہ پیشانی ، آنکھیں بڑی ، چشمے سے سجی، ناک کھڑی ، گیسو کا نوں کا بوسہ لیتے ہوئے ، متبسّم چہرے پر خوبصورت شرعی ڈاڑھی، رنگ گندمی مائل بہ سر خی ، پاؤں میں موزے پر خوبصورت جوتے، پینٹ شرٹ یا شروانی ، کرتا ، پائجامہ ، ٹوپی یہ حلیۂ ظاہری اوراوصاف باطنی کسی آرٹسٹ، مصور اور مجسمہ ساز کو دیدیجئے جو تصویر ابھرے ، جو مرقع بنے اورجو پیکر ڈھل کر آئے اس کو سامنے رکھیے تو آپ بے اختیار پکار اٹھیں گے کہ یہ تو ہم سب کی محبوب شخصیت ، استاذ ، شاعر، ادیب اور نقاد پروفیسر نجم الہدیٰ کی تصویر، مرقع اور مجسمہ ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ اس دور میں جب اعلیٰ اخلاقی اقدار کو شکست وریخت کا سامنا ہے ، آدمی کی بد اعمالیوں کی وجہ سے انسانیت خطرے میں ہے، پروفیسر نجم الہدیٰ کی شخصیت اس پرانی وضع کی یاد دلاتی تھی ، جس میں خلوص ومحبت کی فراوانی تھی اور جن کو دیکھ کر انسانیت پر اعتماد قائم ہوتا تھا اور احساس ہوتا تھا کہ
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں
پروفیسر نجم الہدیٰ (ولادت۲؍ اگست ۱۹۳۷ء) بن نور الہدیٰ ضبطؔ بن صاحب رضا بن محمد حسین نے اپنے نانا خان بہادر محمد جان صاحب ایڈوکیٹ کے گھر موتی ہاری میں آکھیں کھولیں ، ان کی ولادت سے قبل کئی بھائی صغرسنی میں دنیا سے جا چکے تھے ، اس لیے فطری طور پر نجم الہدیٰ کی پرورش انتہائی ناز ونعم میں ہوئی ، رسم بسم اللہ والدہ نے ادا کرائی اور قاعدہ بغدادی انہیں سے پڑھا ، ابتدائی تعلیم کے لیے جن اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا ان میں محمد ہاشم اور حافظ امین الدین کے نام قابل ذکر ہیں ، انگریزی کی تعلیم کا آغاز والد محترم نور الہدیٰ ضبطؔسے کیا ، اور زبان کا درک وشعور ماسٹر عبد الباری اور ماسٹر اسرار الحق صاحب کی توجہ سے حاصل ہوا ، ہائی اسکول کی تعلیم شروع تو عابدہ ہائی اسکول مظفر پور میں ہوئی، لیکن والد کے بسلسلۂ ملازمت تبادلہ کی وجہ سے میٹرک کا امتحان ضلع اسکول بھا گل پور سے پاس کیا ، ۱۹۵۴ء میں انٹر ٹی،ان بی کالج بھاگلپور اور ۱۹۵۶ء میں ال، اس کالج مظفر پور سے بی ۔ اے آنرس اردو میں کیا اور دوسری پوزیشن حاصل کی ، میرے والد محترم ماسٹرمحمد نور الہدیٰ یہیں ان کے رفیق درس رہے ،جس کا ذکر انہوں نے اپنے مضمون ’’مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ۔بڑے عالم ، بڑے ادیب ‘‘ میں کیا ہے ، رفاقت کی یہ یادیں آج بھی پروفیسر صاحب کے ذہن میں تازہ تھیں اور اس حیثیت سے مجھے عزیز رکھتے ہی نہیں، لکھتے بھی تھے۔
ایم اے کی تعلیم کے لیے وہ پٹنہ منتقل ہو گیے، ۱۹۵۸ء میںا نہوںنے پٹنہ یونیورسٹی سے ام ، اے کیا اور یونیورسٹی میں تیسری پوزیشن حاصل کی ، کلیم عاجز اور مظفر اقبال یہاں ان کے ہم درس تھے دونوں نے علی الترتیب پہلی دوسری پوزیشن پر قبضہ کر لیا ، بعد میں انہوںنے بہار یونیورسٹی سے ام اے فارسی ۱۹۴۱ء میں کیا اور گولڈ مڈلسٹ قرار پائے، ۱۹۷۱ء میں اسی یونیوسٹی سے ال، ال، بی کیا اور ۱۹۷۳ء میں پروفیسر اختر قادری کی زیر نگرانی ’’اردو مثنویوں میں کردار نگاری‘‘کے موضوع پر اپنا تحقیقی مقالہ مکمل کرکے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
تلاش معاش میں وہ مختلف جگہ کے چکر کاٹتے رہے ، بالآخر قرعۂ فال ۱۹۶۱ء میں ملت کالج دربھنگہ کے نام نکلااور وجہ ظاہر پروفیسر اجتبیٰ رضوی کے اس شرط کی تکمیل ٹھہری کہ’’ تم فارسی میں فرسٹ کلاس فرسٹ لے کر آؤ اور اردو فارسی کے لکچرر بن جاؤ‘‘، نجم الہدیٰ صاحب نے یہ کر دکھایا اور ان کی ملازمت پکی ہو گئی ، کالج میں تدریس کے علاوہ یہاں وہ صحافت سے بھی وابستہ ہوئے اور قومی تنظیم دربھنگہ کی ادارت کے فرائض انجام دیتے رہے ، ۱۹۶۲ء میںبہار پبلک سروس کمیشن کے ذریعہ ال، اس کالج مظفر پور میں لکچررکی حیثیت سے تشریف لائے، ۱۹۷۲ء میں لکچرر سے ریڈر کے عہدہ پر ترقی ہوئی، ۱۹۷۷ء میں انہوں نے کالج سے طویل فرصت لے لی اور مدراس یونیورسٹی کا رخ کیا، یہاں شعبہ عربی ، فارسی اردو میں ریڈر کی حیثیت سے کام سنبھالا، بعد میں صدر شعبہ ہو گیے اور اس شعبہ کو علمی دنیا میں اعتبار واعتماد بخشا ، بارہ سال تک مستقل یہاں مقیم رہے ، یہ دور پروفیسر نجم الہدیٰ صاحب کی شخصیت کی تشکیل میں بڑا اہم ہے ، توانائی ، فرصت وفراغت کا صحیح اور بھرپور مصرف لے کر انہوںنے علمی اکتسابات ، تنقیدی مقالات اور انجمن ترقی اردو کی خدمات کے ذریعہ علمی دنیا میں اپنا مقام بنا لیا ، یہی وجہ ہے کہ ۲۴؍ نومبر ۱۹۸۸ء کو جب اپنی فرصت کی تکمیل کے بعد وہ مدراس سے روانہ ہوئے تو ان کی جدائی پر سارا شہرہی نہیں ؛پورا تامل ناڈوسوگوار تھا ۔
یکم دسمبر ۱۹۸۸ء کو پروفیسر صاحب نے بہار یونیورسٹی میں شعبۂ اردو جوائن کر لیا ، بعد میں وہ اس شعبہ کے صدر قرار پائے، ۳۱؍ اگست ۱۹۹۸ء کو وہ ڈین فیکلٹی آف ہیومنٹیز کی حیثیت سے سبکدوش ہوگیے ، اس دوران انہوں نے بہت نشیب وفراز دیکھے ، بعض معاملات میں عدالتوں کے چکر بھی لگانے پڑے ، ان کی تقویم حیات میں ۵؍ دسمبر ۱۹۵۵ اور ۲۱؍ فروری۱۹۷۲ء کا دن انتہائی غم ناک ہے جب ان کی والدہ اور والد نے اس دنیا سے رخت سفر باندھا ، خوشی کے ایام بھی بہت آئے ، لیکن ۱۹۷۱ء کا سال اس اعتبار سے مسرت آگیں کہ اسی سال جناب عبد المغنی صدیقی (م۲۶؍ جولائی ۲۰۰۱ء) ساکن ابا بکر پور کواہی ویشالی کی صاحب زادی ماجدہ صدیقی سے رشتۂ ازدواج میںمنسلک ہوئے ، یہ شادی اصطلاحی طور پر ثمر آور تو نہیں ہو سکی لیکن اس رشتہ سے ان کی زندگی میں محبت والفت کے نئے باب کھلے ، سکون وطمانینت نے خیمے ڈالے ،جس کی وجہ سے علمی کاموں کے کرنے کی فضا برابر ہموار رہی۔
ضابطہ میں پروفیسر صاحب سبکدوش ہوگیے تھے ، لیکن ایمان والا کبھی سبکدوش نہیں ہوتا ، وہ صاحب عشق ہوتا ہے ، اور مکتب عشق میں کبھی چھٹی نہیں ہوتی؛ بلکہ جو سبق یاد کرتا ہے اس کی مشغولیت اور بڑھ جاتی ہے ، پروفیسر صاحب بھی مشغول تھے، ان کے تخلیقی سوتے خشک نہیں ہوئے تھے ؛بلکہ پہلے سے کہیں زیادہ تیزی سے رواں تھے ، ادب اور تنقید نگاری کے ساتھ ذکر وفکر کا اضافہ ہو گیا تھا جو کسی نہ کسی شکل میں زندگی کے ہر دور میں ان سے لگا رہا تھا۔ ذکر کے ساتھ تصوف کے مراحل طے ہو رہے تھے اور اب صورت حال یہ تھی کہ
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
اور پروفیسر صاحب ، بزبان حال یہ کہتے رہتے تھے کہ ؎
ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی
اب تو آجا اب تو خلوت ہو گئی
ادب شاعری اور تنقید کے حوالے سے پروفیسر صاحب کی خدمات کا دائرہ وسیع بھی تھا اور عمیق بھی ، شاعری انہوںنے دور طالب علمی سے شروع کیا تھا، خاموشی سے لکھتے رہتے تھے، اصلاح لینے کا شوق نہیں تھا ، تلمیذ الرحمن بن کر ہی رہنا چاہتے تھے ، لیکن والد گرامی قدر جو خود بھی شاعر تھے ، انہیں بھنک لگ گئی ، خود اصلاح کرنے لگے اور چھپوا نے کا کام بھی اپنے ذمہ لے لیا ، اس طرح پروفیسر صاحب کی تخلیقات منظر عام پر آنے لگیں ، حمد ، نعت، غزلیں ، نظمیں سبھی صنف میں انہوں نے طبع آزمائی کی ، لیکن ان کا کوئی مجموعۂ کلام اب تک سامنے نہیں آسکا ہے ، رسائل میں بکھرے ان قیمتی سرمایوں پر نقادوں کی نظریں بھی کم پڑیں ، اس لیے ان کی شاعری کے قدروں کی تعیین ہنوز نہیں ہو سکی ہے ، ڈاکٹر ثریا جہاں نے اپنے پی اچ ڈی کے مقالے میں ان اشعار کو جمع کرنے کی جو کوشش کی ہے وہ قابل قدر ہے، ظاہر ہے یہ کل سرمایہ نہیں ہے ، لیکن جتنا کچھ جمع ہو گیا ہے ؛ اس پر نظر ثانی اور ترتیب کی تبدیلی کے ساتھ شائع کر دیا جائے تو یہ بھی بڑا کام ہوگا اور ادبی سرمایہ میں قیمتی اضافہ بھی۔
جو شعری سرمایہ سامنے آیا ہے ،اس کے بارے میں بس اتنا سمجھ لیجیے کہ پروفیسر صاحب کی شاعری میں فرد کی ذاتی زندگی غالب ہے، غم والم کی وہ کیفیت جس سے انسانوں کو ذاتی زندگی میں سامنا کرنا پڑتا ہے ، چاہے وہ محبوب شخصیتوں کی جدائی کا غم ہو ، یا عشق ومحبت میں ناکامی کا ، زندگی کی شاہ راہ پر بے وفائی کے صدمے ہوں ، یا ملازمت ومنصب کی کش مکش ، سبھی کی نمایاں جھلک ان کی شاعری میں ملتی ہے ، لیکن یہ داستان رقم کرتے وقت انہیں اپنی عزت نفس کا بھی خیال رہتا ہے اور محبوب کی عزت وناموس کا بھی ، اس لیے ان کے یہاں چاک گریباں اور دامن تار تار کرنے کی نوبت کبھی نہیں آتی ، الفاظ اتنے جنچے تُلے ہوتے ہیں کہ واردات قلبی اور کیفیات باطنی کے اظہار میں کمی نہیں رہ جاتی ؛ لیکن ہر حال میں ان کا محبوب مستور رہتا ہے ، کھل کر سامنے نہیں آتا ، اس کے سراپا پر ایک چلمن ہوتا ہے اور قاری کو لگتا ہے کہ پروفیسر صاحب کا محبوب چلمن سے لگا بیٹھا ہے ، تصورات کی دنیا میں ہم اپنے اپنے طور پر اس کا سراپا کھینچ سکتے ہیں ، لیکن پروفیسر صاحب اس کا سراپا کھینچ کر اسے سر عام بر ہنہ اور رسوا نہیں کرنا چاہتے ، یہ ان کی خرابی نہیں ، فن کی تکنیک ہے ، ان کی پر اثر خاموشی بھی افشاء راز کا کام کرتی ہے اور یہ خاموشی’’گفتنی‘‘ اور بے زبانی ’’زبان‘‘ بن جاتی ہے پروفیسر نجم الہدیٰ کی شاعری میں فن کاری ، جمالیاتی شعور اور تجربے کی پختگی کا احساس ہوتا ہے ۔ ان کی حمد میںجو خیالات ہیں اور نعتوں میں جو فکر ہے ، وہ ان کی اسلامی بصیرت ،رموز کائنات میں غیر معمولی غور وفکر کا نتیجہ ہے ، قرآن نے آفاق وانفس میں غور وفکر کی جو دعوت دی ہے ، اس کو پروفیسر صاحب نے برتا ہے اور اس برتنے کے نتیجے میں جہاں تک پہونچے وہ اشعار میںڈھل گیے ہیں ۔ اظہار عبدیت اور بندگی کا ایسا حسین انداز کم شاعروں کے یہاں ملتا ہے ۔ وہ جب نعت رسول لکھتے ہیں تو انہیں نبوت کے مقام عالی کا پورا پورا خیال رہتا ہے ، وہ نبوت کے سرے الوہیت سے نہیں ملاتے ، بلکہ دونوں کے مدارج کا خیال رکھتے ہیں ، نعت نگاری میں یہ پل صراط سے گذر نے جیسا عمل ہے ، بعض اشعار کو نظر انداز کیجیے تو معلوم ہوگا کہ پروفیسر نجم الہدیٰ نے یہ مشکل کام آسان کر دکھایا ہے ۔
پروفیسر نجم الہدیٰ کی شہرت ومقبولیت کا آفتاب شاعری سے نہیں ، تنقید نگاری سے چمکا ، فن تنقید اور تنقیدی مضامین (مطبوعہ۱۹۶۶) مسائل ومباحث ، کردار اور کردار نگاری اور بہت سارے دوسرے مقالے مثلا غالب کا فن ، فکر اقبال کا محور ۔ آفاقیت وعصریت کے تناظر میں ، انیسؔ کا اسلوب وآہنگ ، اقبال۔ بانگ درا کے آئینے میں ، ان کی تنقیدی بصیرت اور عملی تنقید کی آئینہ دار ہیں ، وہ اپنی بات عالمانہ سنجیدگی سے اٹھاتے تھے اور علمی وقار کے ساتھ اختتام کو پہونچاتے تھے ، پوری زندگی کسی خاص نظر یے صفت تحریک اور گروہ بندی سے دور رہنے او ر عدم وابستگی کی وجہ سے قاری پر ان کے خلوص کا گہرا اثر پڑتا تھا ، ان کی تخلیقات پروپیگنڈے کی صفت سے خالی ہے ، جو وہ محسوس کرتے تھے اپنے مخصوص انداز میں قلم بند کر تے تھے ، نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا۔
ایسے با فیض، با وقار اور محبوب شخص کا دنیا سے چلا جانا علمی اور ادبی میدان کا بڑا خلا ہے اور یہ ہم سب کے لئے محرومی کی بات ہے، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، اور۲۴؍ستمبر ۲۰۲۳ء بروز اتوار بوقت ساڑھے نو بجے شب اپنے مکان واقع چندوارہ مظفر پور میں ان کے رشتہ داروں، شاگردوں اور متوسلین کو صبر جمیل دے۔ آمین یا رب العالمین ۔