بہار اور اویسی: مسلم سیاست کا نیا موڑ؟

از:- منہاج اصغرقاسمی

استاذ:جامعہ امدادیہ مادھے پور

بہار کی مٹی ہمیشہ سے سیاسی تجربات کی لیبارٹری رہی ہے۔ یہیں سے جے پرکاش اندولن کی گونج اٹھی، یہیں لالو پرساد یادو نے منڈل کی سیاست کو جنم دیا اور یہی سرزمین نتیش کمار کے "سُشاسن” کی نرسری بنی۔ آج ایک بار پھر یہ خطہ ہندوستانی سیاست کے نئے موڑ پر کھڑا ہے۔ اس بار کردار ہیں اسدالدین اویسی۔

اگر اویسی بہار کی زمین پر اپنے قدم جما لیتے ہیں تو یہ کسی ایک جماعت کی کامیابی یا ناکامی کا مسئلہ نہیں ہوگا، بلکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ملک کی سترہ فیصد مسلم آبادی پہلی مرتبہ اپنی سیاسی تقدیر کا قلم خود ہاتھ میں لینے جارہی ہے۔ اب تک مسلمانوں نے لالو، نتیش اور کانگریس سب کی گاڑی دھکیلی، مگر بدلے میں وعدے اور خوف کے سوا کچھ نہ پایا۔ اویسی کی کامیابی اس روایت کے ٹوٹنے اور ایک نئی سمت کے آغاز کا اعلان ہوگی۔

اس تبدیلی کے کم از کم تین بڑے اثرات مرتب ہوں گے:

  • 1. مسلمانوں کی سیاسی قیمت بڑھے گی

اب تک مسلم ووٹ مفت میں استعمال ہوتا رہا ہے۔ لیکن اویسی کی موجودگی کے بعد ہر پارٹی کو یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ مسلمانوں کو نظرانداز کر کے اقتدار کی کرسی تک پہنچنا آسان نہیں۔

  • 2. نوجوانوں کو قیادت کا حوصلہ ملے گا

مایوسی کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا مسلم نوجوان ایک نئی امید دیکھے گا۔ اسے محسوس ہوگا کہ اس کے پاس بھی ایک سیاسی پتہ ہے جسے کھیل کر وہ اپنی تقدیر بدل سکتا ہے۔

  • 3. قومی سطح پر نئی راہیں کھلیں گی

اگر بہار میں یہ تجربہ کامیاب ہوا تو اس کی بازگشت بنگال، اتر پردیش اور جھارکھنڈ تک گونجے گی۔ یہ مسلم سیاسی شناخت کو "غیر مرئی” سے "نمایاں” کرنے کا آغاز ہوگا۔

گہری نظر سے دیکھا جائے تو بہار اس وقت ایک کسوٹی ہے۔ یہاں اویسی کے قدم جمتے ہیں یا نہیں، اس کا فیصلہ صرف انتخابی نتائج نہیں کریں گے بلکہ یہ مستقبل میں مسلم سیاست کی سمت متعین کرے گا۔ اگر یہ سفر کامیاب ہوا تو مسلمان "بے سہارا” سے نکل کر ایک ایسی قوت میں ڈھل جائیں گے جو دوسروں کے لیے چیلنج ہوگی۔ اور سیاست کا سب سے بڑا اصول یہی ہے کہ جس قوم کے پاس چیلنج دینے کی قوت آجائے، اس کے ساتھ کوئی بھی فریق ہنسی خوشی سمجھوتہ نہیں کرتا بلکہ مجبور ہوکر میز پر بات کرتا ہے۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔