Slide
Slide
Slide

بھاجپا اور مسلم نوجوان

 

✍️ محمد توصیف قاسمی

ایک عرصہ سے ، بلکہ بھاجپا کے دوسرے دور حکومت سے یہ دیکھ کر سخت افسوس ہورہا ہے کہ مسلمان نوجوان بھاجپا سے فکری و عملی تعلق قائم کررہے ہیں، قریب کے  اور دور کے بہت سے نوجوانوں کو دیکھا جو دوسری کسی پارٹی سے وابستہ تھے، یا نیا رابطہ قائم کرنا چاہتے تھے اور وہ سیدھے بی جے پی کے دروازے پہنچ گئے۔

مسلمانوں سے سوتیلا اور ناانصافی کا سلوک تو آزادی کے معا بعد سے جاری ہے، اور سیکولر کہے جانے والی جماعتوں نے مسلمانوں کی قیادت و ترقی کے ساتھ جو برتاو رکھا ہے وہ  تاریخ کا ایک نہایت تاریک باب ہے، جسے کبھی بدلا نہیں جاسکتا، مگر ان سب جماعتوں اور بی جے پی میں ایک کھلا فرق یہ ہے کہ بی جے پی مسلمانوں کے ہندوستان میں وجود کو ہی قبول کرنے کو تیار نہیں، وہ نہیں چاہتی کہ حکومت کی ایک آنہ پائی بھی مسلمانوں  کی ترقی کے لئے خرچ ہو، اور مسلمانوں کی اجتماعی و انفرادی ابتری کے لئے ہر حد پار کرنے کے لئے وہ ہمہ وقت تیار ہے۔

یہ سب چیزیں ایسی ہیں کہ معمولی شعور والا انسان ، بلکہ بہت سے سمجھداربچے بھی ایسےنفر۔تی کھیل کو دیکھ کر صحیح نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں، مگر حیرت و افسوس کی انتہا نہیں رہ جاتی جب مسلمان نوجوان کو بی جے پی اور سنگھ و آر ایس ایس کی زبان بولتے دیکھتا ہوں، انھیں بی جے پی کے پارٹی دفتر کے سامنے ، یوگی اور مودی جیسے لوگوں کی تصویر کے ساتھ فخریہ تصویر بناتے دیکھتا ہوں۔

یہ سب میں 2019 سے کے بعد سے ہی دیکھ رہا ہوں، آج بھی ایک ایسا ہی واقعہ پیش آگیا، بچوں کو کچھ دلانے کی غرض سے ایک دکان پر گیا، دکاندار 40 سالہ مسلم نوجوان ہے، فون پر مصروف ہونے کے سبب مجھے کچھ لمحے انتظار کرنا پڑا، وہ بڑی بے تکلفی سے مجھے دیکھ کر فون پر باتیں کررہا تھا،اس لئے مجھے بھی کوئی حجاب نہ ہوا، مگر جو گفتگو میری سماعتوں سے ٹکرا رہی تھی وہ میرے لئے حیران کن تھی، یہ بی جے پی پارٹی کی طرف سے فون تھا، اور وہ پارٹی اور حکومت کی بابت فیڈ بیک اور نظریہ لے رہی تھی، کسی خاتون کی آواز تھی، کچھ جملے جو اچھی طرح سن سکا:

آپ کی حکومت کے بارے میں کیا رائے ہے؟

مجھے کوئی شکایت نہیں، جن کو تکلیف ہے، ہوا کرے، وہ جانیں ، مجھے کوئی پرابلم نہیں

آپ کس کی برادی کیا ہے؟

میں منصوری برادری کا ہوں، مسلمانوں میں دلت تو نہیں ہوتا، مگر ہم پسماندہ برادری سے آتے ہیں۔(نوٹ: ایک شخص کی وجہ سے پوری جماعت کو غلط سمجھنا تعصب اور سنگین غلطی ہوگی، مگر انھوں نے اپنی برادری یہی بتائی۔توصیف)

آئندہ آپ کس کی حکومت پسند کریں گے؟

ہمارا ووٹ آپ ہی کو جائے گا۔

کچھ اور باتیں بھی ہوئیں، اس کے بعد فون رکھ دیا، میں نے حیران ہوکر پوچھ لیا کہ کس کا فون تھا، انھوں نے بتایا کہ ان کی طرف سے کال آئی تھی، میں نے کہا: آپ نے یہ کیوں کہا کہ آپ کو کوئی پرابلم نہیں؟ کہنے لگے :مجھے کوئی پرابلم نہیں، جو ڈگریاں لے کر پھر رہے ہیں وہ جانیں ان کا کام جانے۔

میں : مہنگائی آپ کے لئے مسئلہ نہیں؟ (دکان ایک نہایت معمولی مالیت کی ہے، ساری کائنات چند ہزار روپےکی ہوگی)

دکاندار: یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔

کچھ مخالفت کے کلمات نکالنے سے پہلے میں نے تھوڑا سکوت کیا کہ ان کے دل کی بات معلوم ہوسکے، سامان دیتے دیتے کہنے لگے:

"اگر دیکھا جائے تو بی جے پی کی حکومت میں مسلمانوں کا چار آنے برابر بھی کوئی نقصان نہیں ہوا، بلکہ آئی ڈیاں مضبوط ہوگئی ہیں”۔

دوسرے گراہکوں کو آتا دیکھ کر میں اپنا آخری جملہ کہہ کر چلتا بنا :

اگر آپ کو یہ لگتا ہے کہ اس حکومت میں مسلمانوں کا چار آنے بھر بھی نقصان نہیں ہوا تو میرے لئے اپنا سر دیوار پر مارلینا آسان ہوگا اس سے کہ آپ کو نفع و نقصان سمجھاوں۔

جملہ تھوڑا سخت ہوسکتا، مگر ایک مرتبہ میں سارا کھیل ختم نہیں ہوجاتا، کچھ بعد کے لئے بھی رکھ چھوڑا ہے،اللہ مالک ہے۔

یہ صورت حال اور ذہن سازی دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ امبانی و اڈانی کا پیسہ مودی حکومت پر ضائع نہیں گیا، اس نے ذہن سازی غیروں ہی کی نہیں، مسلمانوں تک کی کردی ہے۔

اس صورتحال کے تجزیہ کے طور پر بہت سی باتیں اہل عقل کہہ سمجھ سکتے ہیں، میں دو باتوں پر اس تجزیے کو سمیٹتا ہوں؛

پہلی بات تو وہی ذہن سازی اور اس کے اثرات کس قدرگہرے اور مضبوط  ہوتے ہیں ، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں، یہ اور بات ہے کہ بری چیز کی طرف لانا بہت آسان ہوتا ہے، اس سے موڑ کر اچھی بات کی طرف لے جانا سخت مشکل ، لیکن جب ذہن سازی ہوجائے تو اچھی یا بری، تو اس کا نتیجہ یہی ہوتا کہ انسان اپنی رائے سے ٹس سے مس نہیں ہوتا، تاآنکہ اس کی دوسری ذہن سازی نہ ہوجائے۔

دوسری بات ہے ناامیدی؛ اس صورت حال کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ مسلمان ناامیدی کا شکار ہیں، انھوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ بھاجپا سے امان کا طریقہ یہی ہے کہ اسی کی گود میں جاکر بیٹھ جائیں،یہ فلسفہ تو صحیح ہے کہ تیر کے سامنے سے بچنے کی راہ یہی ہے کہ تیربان کی طرف ہوجایا جائے، جیسا کہ خواجہ عزیزالحسن مجذوب رحمۃ اللہ علیہ کا شعر ہے  ؎

بلائیں تیر اور فلک کماں ہے،چلانے والا شہِ شہاں ہے

اسی کے زیر قدم امان ہے،بس اور کوئی مفر نہیں- یہ فلسفہ تو صحیح ہے، مگر یہاں الٹا سمجھ لیا گیا ہے، اصل نافع وضار تو اللہ ہے،مگر ان احمقوں نے ناتواں دشمنان اسلام کو نافع وضار سمجھ لیا ہے۔

میں سمجھتا ہوں اس وقت قوم مسلم کو جھنجھوڑنے کی ضرورت ہے، اس کے ایمان کو تازہ کرنے کی ضرورت ہے، ناامیدی کے کفر کو واضح کرنا وقت کا سب سےبڑا چیلنچ ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور شخصیت سے قریب کرنے کی ضرورت ہے،صحابہ کرام کی قربانیوں سے ایمان بنانے کا وقت ہے، اکابر دیوبندو علماء ہند  کے انگریز سے لوہالینے اور بغیر ہتھیار انھیں پسپا کرنے کے تاریخ کو دہرانے کی ضرورت ہے، مبادا حالات اس سے بدتر ہوئے تو ہم یہ دیکھیں گے ایک گھر میں باپ بیٹے اور ماں بیٹی میں یہ فکر وناامیدی جنم لے گی اور ہم کچھ نہ کرسکیں گے۔

 اس لئے وقت رہتے کام کرلینا چاہئے، امید فردا پر رہنا، فرض وقت کو لیت و لعلی میں ٹالنا کہیں نسل نو کے ایمان سے ہاتھ دھونے کا سبب نہ بن جائے۔ واللہ ولی التوفیق

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: