Slide
Slide
Slide

جسم پر مٹی ملیں گے پاک ہوجائیں گے ہم

ازقلم: شاہدعادل قاسمی، ارریہ

خودشناسی،خود ستائ اور نرگسیت کا دور ہے،ہرکوئ اپنی ذات کےخول میں قید ہے،سبھی کو اپنے عالئ مرتبت کاکامل گمان ہے،مگر ایک منفرد لب ولہجہ کا مالک انسان ایسابھی ہے جنھیں اپنی ذات کا عرفان ہے،جنھیں متضاد،متخالف اور متوافق لہروں کا مشاہدہ بھی ہے، جنھوں نے ماضی کا درد،حال کا اضطراب اور مستقبل کی خوش خبری کا تجربہ بھی پیش کیا ہے،جنھوں نے فکر وفن کے چراغ کو آنسوؤں سے جلایا ہے،جنھوں نے شہرت،بلندی اور رفعت کو ہمیشہ اضافی شئ ہی متصور سمجھاہے،جنھوں نے وقت آنے پر تاج کو بھی لوٹایا اور ٹھکرایا ہے،جنھوں نے انسانی شناخت کے بحران اور انسانیت کے فقدان پر جی بھر کرآنسو بہایا ہے،جنھوں نے انسانی اساس اور انسانی احساس پر امکانات کے راہوں کو خوب تراشا ہے،جنھوں نے زندگی کی ہی جستجو نہیں بلکہ موت کے کڑوا سچ کو تلاش بھی  کیا ہے،جنھوں نے انسانی اقدار کے زوال پر ہی نہیں بلکہ اپنی معنیاتی تخلیق سے دیگر پہلوؤں پر بھی درد اور امید کی دیپ کوجلایا ہے،جنھوں نے اپنے حصے کے صبح وشام،دھوپ وروشنی،حرارت و برودت،کلفت وراحت اور فراخئ وعسرت کا بھی استقبال کیا ہے،جنھوں نے موج دریا کو کنارا اور کنارے کو موج دریا بنتے دیکھا ہے،جنھوں نے مٹی کو مٹی میں سماتے اور آسمانوں کو زیر زمین دفن ہوتے بھی دیکھا ہے،جنھوں نے ماں کے قدموں تلے جنت کا مشاہدہ بھی کیا،جنھوں نے ہجرت اور مسافرت کا مزا بھی چکھا ہے،جنھوں نے کئ بار اپنی زندگی کو مات دے کر حیات بخشا ہے،جنھوں نے کئ بار اپنی زندگی کے جنگ سے ہار کے اعلان کو جیت کا تمغہ عنایت کیا ہے مگر افسوس ۱۴جنوری۲۰۲۴ء کی سرد شام آپ کی آخری شام ثابت ہوئ،لکھنؤ کے ایک ہاسپٹل میں آپ کی زندگی آج تھک ہار کر داعئ اجل کو لبیک ضرور کہہ گئ لیکن آپ کی بات آج بھی زندگی کا ثبوت دے گئی۔

جسم پر مٹی ملیں گے پاک ہوجائیں گے ہم 

اے زمین اک دن تیری خوراک ہوجائین گے ہم

مثبت اور صحت مند شاعری کرنے والے بھاری بھرکم صاحب جسم وجثہ،بلند وبالا صاحب قدوقامت،اونچی اور موٹی موٹی دو روشن آنکھیں،وسیع اور کشادہ ذہین پیشانی کے مالک، اردو گلوب کے مثالی منارہ جناب حصرت منوررانا صاحب سچ کہہ کر دارفانی سے رخصت ہوگئے 

ہم سے محبت کر نے والے روتے ہی رہ جائیں گے

ہم جو سوۓ کسی دن تو پھر سوتے ہی رہ جائیں گے

یقینا سوئ قوم اور سویا ملک کو آپ ہمیشہ بیدار کرتے رہے،جھنجھوڑنے رہے،جگاتے رہے،وعظ ونصیحت ہی نہیں بلکہ موعظت و پند سے سمجھاتے رہے،درد جواں ہوا تو سخت اور سست لہجہ بھی اپناتے رہے،دھول،گرد،کچڑا کی صفائ کراتے رہے،قلم کو قلم،سچ کو سچ اور حق کو حق کہتے اور لکھتے رہے،پائجامے اور شلوار میں ناڑا ڈالنے کے لیے قلم نہیں ازار بند کی ضرورت کو بتاتے رہے،انسانی زندگانی کی خوش گواری اور ناگواری پر خامہ فرسائی کرتے رہے،مختصر سی زندگی کی دریافت، دست یاب،وصولیاب اور حصولیاب کے بعد پھر مکمل زندگی کی تصویر کچھ یوں بتا گئے:

تھکن کو اوڑھ کے بستر میں جاکے لیٹ گئے

ہم اپنی قبر مقرر میں جاکے لیٹ گئے

تمام عمر ہم اک دوسرے سے لڑتے رہے

مگر مرے تو برابر میں جاکے لیٹ گئے

منور رانا نہایت ذہین اور نڈر انسان تھے،ان کی دینی حمیت اور ملکی محبت بھی خوب گرجتی تھی،زندگی کی کڑواہٹ بھی انسانی پلیٹ فارم پر خوب دوڑتی تھی،بدعنوانیوں اور ناہمواریوں کو مکمل جرات،جسارت اور جواں دلی سے پیش کرتے تھے،سماجی دردمندی کا گہرا احساس بھی ان کے دربار میں پایا جاتا تھا،انسانی رشتوں کے انہدام اور سقوط ہی نہیں بلکہ انسانی رشتوں کے انسلاک کا گڑ بھی پایا جاتا تھا،جہاں ان کی شاعری میں سماجی اور ثقافتی شعور پایا جاتا ہے وہیں رستے زخموں کا مکمل ادراک بھی پایا جاتا ہے، جہاں سماجی اور معاشرتی نظام پر آپ نے نشانہ تیز کیا ہے وہیں عصر حاضر کے موجودہ سیاست پر بھی دل سے طنز کیا ہے،جہاں آپ نے یوپی اردو اکیڈمی کے چئیرمین شپ کو ٹھکرایا ہے وہیں عظیم ایوارڈ کو واپس بھی کیا ہے،معاشرتی مکروہات اور مرغوبات پر جم کر وار بھی کیا ہے،آپ نے اپنے الفاظ کے استعاراتی اور علاماتی اظہار سے ملک ،قوم اور سماج کوایک جاودانی کیفیت عطا کی ہے،تذلیل وتضحیک سے پہلو تہی اختیار کرکے ترفیع وتمجید کے لیے ایقانی پہلو سے ہمیشہ آپ نے آئینہ دکھانے کی کوشش کی ہے،آپ نے شاید آج کے لیے اور اپنے  ہی لیے سچ کہا ہے:

پھر سے بدل کے مٹی کی صورت کرو مجھے

عزت کے ساتھ دنیا سے رخصت کرو مجھے 

عزت ہی عزت کے ساتھ منوں مٹی کے آپ حوالے کردیئے گئے،اردو آبادی کی آنکھیں آج روئ ہی نہیں بلکہ موسلا دھار آنسوؤں کے بارش سے تمامی وجود کے ساتھ آپ کو الوداع کہہ گئیں،غالب کی یادیں دوسوسال کے بعد آج بھی زندہ ہیں آپ بھی اسی شعروسخن کے آدمی ہیں  آپ کو فراموش کرنا بھی جوۓ شیر  سے کم نہیں ہوگی،مشاعرے کی صدارتی کرسیاں آپ کے لیے ترس جائیں گی،اردو دنیا کی آبادی آپ کی عدم موجودگی پر برسہا برس روۓ گی،خوش سلیقگی اور خود سلیقگی،خوش اسلوبی اور شائستگی آپ کو بہت یاد کرے گی آپ کو مٹی تلے چھوڑ کر آجانا بڑا کٹھن مرحلہ تھا مگر کہنا تو آپ کا ہی ہے ۔

مٹی کا بدن کردیا مٹی کے حوالے

مٹی کو کہیں تاج محل میں نہیں رکھا

منور رانا ایک زمین دار گھرانے سے ہیں،راۓ بریلی یوپی کے اصلی باشندہ ہیں،تقسیم ہند کےبعد ان کا خانوادہ پاکستان چلا گیا مگر انھوں نے ملک عزیز کو ہی عزیز جانا اور سمجھا،بہت کچھ کھوجانے اورچھن جانے کے باوجود آپ نے ہجرت کو پسند نہیں کیا،نشیب وفراز سے زندگی گزرتی رہی،تعلیم،رہائش،شعرو شاعری سے ہم کنار ہوتی ہوئ زندگی ماں کے تقدس پر شاعری سےخوب دادوتحسین حاصل کی،باوجودیکہ آپ شعرو شاعری میں کافی فیمس یوۓ لیکن آپ ایک اچھے نثر نگار بھی ہیں ،آپ نے کیا ہی خوب  نقشہ کھینچا ہے:

چلتی پھرتی ہوئ آنکھوں سے آذان دیکھی ہے 

میں نے جنت تو نہیں دیکھی ہے ماں دیکھی ہے

واقعتاً جنھیں ماں کی سچی دید نصیب ہوجاۓ،جنھیں ماں کا پیار مل جاۓ،جنھیں ماں کی ممتا مل جاۓ، جنھیں ماں کا دلار حاصل ہوجاۓ، جنھیں ماں کا اعتبار  مل جاۓ، ان کے لیے جنت بھی سج ڈھج کر حاضر ہے  شاید آج منور رانا جنت کی دید سے بھی سرفراز ہوگئے ہوں گے کیوں کہ وہ وہاں کے مکین ہوچکے ہیں:

منور رانا کی آخری شعری مجموعہ "مہاجر نامہ "ہے، جودرد اور کرب کا مظہر ہے،مہاجرت کا درد بڑا نمایاں ہے،مطالعہ سے جہاں درد کا درماں ملتا ہے وہیں کہیں کہیں لطف بھی دوبالا ہوجاتا ہے،زندگی کے گزشتہ پنوں کی یادیں جہاں کینوس پر نقش ہوجاتی ہیں اسے بدلنے اور مائل بہ ارتقاء کرنے کی صلاحیت بھی سمجھ میں آتی ہے ہجرت کے درد میں شامل ہوکر ہم آپ کی زبان میں کچھ دیر یوں گنگنا سکتے ہیں :

مہاجرہیں مگر ہم ایک دنیا چھوڑ آۓہیں

تمہارے پاس جتنا ہے ہم اتنا چھوڑ آۓ ہیں

کئ آنکھیں ابھی تک یہ شکایت کرتی رہتی ہیں 

کہ ہم بہتے ہوۓ کاجل کا دریا چھوڑ آئے ہیں 

ہماری اہلیہ تو آگئ ماں چھٹ گئ آخر

کہ ہم پیتل اٹھالاۓ ہیں سونا چھوڑ آئے ہیں 

ہمالہ سے نکلتی ہر ندی آواز دیدیتی تھی

میاں آؤ وضو کرلو یہ جملہ چھوڑ آئے ہیں 

وضو کرنے کیلئے جب بھی بیٹھتےہیں یاد آتا ہے 

کہ ہم جلدی میں جمنا کا کنارہ چھوڑ آئے ہیں 

درد اور بے چینی کی لکیر کھینچ کر مہاجر کی دلی کیفیت کا آپ نے خوب صورت آپریشن کیا ہے،نہایت سادہ اور شگفتہ انداز میں آپ نے شعروشاعری کی ہے، علاوہ ازیں ملکی اور قومی فکرکے غم کا نمائندہ بن کر آپ نے بہتر ترجمانی کی ہے،شعری امتیازات کے ممیز پہلوؤں کو مد نظررکھ کر آپ نے ملک اور ملت کو مخاطب کیا ہے،نیک نفسی،منکسر مزاجی،وضع داری،کشش انگیزی اور باوقار شخصیت کے تناظر میں  ادبی لوازمات پر عمل پیرا ہوتےہو ۓ سامعین اور قارئین کے سامنے عصری حقائق کا آئینہ بھی پیش کیا ہے،روشنی کا سرچشمہ آج ہماری نگاہوں سے اوجھل ہے مگر آپ کی شاعری میں کڑوی سچائیاں بھی صاف صاف جھلک رہی ہیں،آپ کی شاعری آنکھوں میں نمی ضرور لا دیتی ہے مگر یاسیت اور قنوطیت کا شکار نہیں ہونے دیتی ہےبلکہ آس اور امید کی راہ کو مضبوط کرتی ہے،ادب کا ایک اہم ستون آج گرچکاہے،اردو دنیا کا ایک عظیم خسارہ ہے،عمر  اکہترہویں بہار کو ضرور پار کر گئی ہیں مگر ہمارے سروں پر اب بھلا پگڑی کون باندھے گا؟ ۔

تمہاری محفلوں میں ہم بڑے بوڑھے ضروری ہیں 

اگر ہم نہ ہوں گے تو پگڑی کون باندھے گا

یہ کہہ کر آپ ہمیشہ کےلیے ہمیں چھوڑ گئے۔ خدا کرے رب دوجہاں سرخروئی کی پگڑی آپ کو عنایت کرے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: