تحریر: خورشید انور ندوی
آج سوریہ رام نگری ایودھیا میں ہردن کی طرح ہی اودے ہوگا لیکن جھینپا جھینپا ہوگا۔ پھیلے گگن میں کالی کالی بدلی ہو نہ ہو گھور اندھیرا ہوگا ۔ کور چشموں کو اپنے سیاہ کارناموں کی سیاہی روسیاہ کررہی ہوگی۔ ان کو دین دیا آتماوشواش، پنیہ نیائے اور دھرم پرکاشم سب کم پڑ رہا تھا تو ادھرما کاریہ کے لئےنصف النھار کا فرمائشی شبھ مہورت نکلوایا۔ سناتن بانی کی ان دیکھی کر ادھورے مندر کا افتتاح ادھورے پرش شری مودی جی سے کروانے کا انتظام کروایا۔ جب یوگی جی مہاراج خود کہتے ہیں کہ گربھ گرہ میں چاردھام شنکر آچاریہ اور نیپال نریش کے علاوہ کوئی دوسرا پرویش نہیں کرسکتا تو پھر آدھے پرش آدرنیہ مودی جی کیسے کریں گے؟ لیکن اپنی دھن میں اور اپنے آپ میں سوئم وشو گرو ابھوت گیانی مودی جی شاشتر بان سے پرے ہیں۔ وہ کرگزرے۔ لگتا ہے کہ رام نگری ایودھیا بن باس نگری ہے ۔ یہیں سے پہلا بن باس پرشوتم پرش رام جی کو ملا۔ اسی اجول دھرتی سے سیتا میا کا اپہرن ہوا۔ اسی زمین پر بھارتی سپریم کورٹ کے نیائے دھیش گوگوئی کے ذریعہ ایک مسجد کے ساتھ گھور انیائے ہوا۔ اسی گیان پیٹھ پر چاروں شنکر آچاریوں کا ایک ساتھ اپمان ہوا اور سناتن دھرمی ایک ساتھ کئی دھڑوں میں بٹ گئے۔ سب کا ساتھ والے ایک ساتھ نہ رہ سکے تو وکاس اور ناش پر کان کون دھرے۔ ہندومت نے راج دھرم کی کل کلپنا مریادا پروشوتم شری رام جی کے راجیہ کال سے کی تھی۔ آج یہ کلپنا اپنے آپ دھوسٹ ہوگئی۔ افسوس تو یہ ہےکہ اسی پاون پوتر بھومی پر ہوئی جہاں استھاپت ہوئی تھی۔ آج کے بعد خیالوں کو تاریخ اور آستھا کو اتیت کون مانے گا؟ کیا جیسی تاریخ اب بنائی جارہی ہے ماضی میں نہیں بنائی گئی ہوگی ؟آج ایودھیا نگری میں اعتماد’وشواش دفن ہوچکا۔ آگے نئی نسل کو قابل فخر ماضی کی داستان نہیں سنائی جاسکے گی۔ ماضی کے سارے سنہری پل حال کی دستاویزی دھاندلی کے ساتھ لت پت ہوچکے۔ چلو ایک گرو تو ٹوٹ گیا۔ شاید اسی طرح اور بہت سارے قابلِ فخر تخیلاتی ڈھانچے ٹوٹ پھوٹ جائیں گے اور ادھرما کا ستیہ رہ جائے گا۔ اتیت کا جھوٹ بھوشیہ کا بوجھ ہوتا ہے۔ گزرے کل کا شکتی مان آنے والے پل میں بودا ہوتا ہے۔ "تداول ایام” کی قرآنک تھیوریٹکل سچائی تاریخ کے اسی جبر کا نام ہے۔ جو ہونا تھا ہمارے لئے تو بہت پہلے ہوچکا تھا۔ آج کی دھمال ہمارے لئے کچھ نہیں تھی۔ ہاں ہمارے چند مستقل مزاج وظیفہ فروشوں کے لئے ایک اور موقع تھا۔ مدرسے کا پڑھا الکٹریشین سے ٹرک لیکر ایسے ہی نسخے بتائے گا۔ ہم ہار گئے تھے تو ہار گئے تھے۔ اب لکیر پیٹنے سے میدان نہیں جیتے جاسکتے۔ کیا کرنا ہے خاموشی سے کرتے جائیں۔ ہر رکھا ہوا بوجھ نہ اٹھائیں۔ کام کریں اور ملی اداروں کے پیدائشی ذمہ داروں کو بھی کم کوسیں۔ لیکن یاد رکھیں ہم اتنے خطرے میں نہیں جتنا یہ بتاتے ہیں ۔یہ اندیشے جنتے ہیں، اور ڈرا ڈرا کر اپنی کرسی اپنے بچوں تک پہونچاتے ہیں۔ اپنے ملی اداروں کے برہمنوں کو ریٹائرمنٹ کی ضرورت اور خوبی سے آگاہ کریں۔ مسلمان قوم ملک کے ساتھ رہے اور ان جزیروں پر ان گوشت خور ہرہمچاریوں کو آباد کرے جو ہمیں ان جزیروں کا باسی بنائے رکھنے پر تلے ہوئے ہیں۔ مسلمان اپنی ذہنی آبادکاری کریں اور اپنے پنڈتوں کو سامریت سے آزاد کریں۔ علماء تدریس وتبلیغ کریں، قانون دان کیس لڑیں، تعلیم کے ماہرین تعلیم کو فروغ دیں، سیاست دان سیاست دیکھیں اور رہنمائی کریں۔ قوم ہرفن مولا مولویوں کی چیرہ دستی سے بچے۔ ہر مرنے والے کی اس کی میراث اس کے ورثاء کو حق و انصاف کے ساتھ دیدیں لیکن ملی عہدے اور ملی اثاثوں کی بندر بانٹ اپنی مغفل اور نااہل اولاد کے درمیان نہ کریں۔ لکھ رکھیں یکساں سول کوڈ اور قانون شہریت ویسے ہی مسلط ہوجائے گا جیسے تقریروں سے مندر نہ رکا۔ عقل و ہوش لینے کے لئے وقت کبھی نہیں جاتا۔ مایوسی بےعملی اور بےتدبیری کی ہمزاد ہے۔ اس سے بچیں۔ سیاسی شعور اور آگاہی دین کی ضرورت ہے اور اسی سے بقا کی راہ نکلتی ہے۔ ڈائیلاگ اور تبادلہ خیال ایک روشنی ہے۔ بقائے باہم رواداری کے بغیر کسی مشترک معاشرے میں ممکن نہیں۔ معاملات کو پیچیدگی کی آخری منزل تک نہ لے جائیں۔ خوش گوار اور نفع بخش تنازل بدبختانہ شکست سے بہتر ہے۔ جہاد میدانوں میں ہوتا ہے تقریروں سے مسجدوں کے صحنوں میں نہیں ہوتا۔ اب ایک نئی منزل ہی نہیں راہ منزل بھی ڈھونڈھیں۔ جشن کا شور کل تھم جائے گا۔ زندگی اپنے محور پر پابند سفر ہوگی۔ اور ہم پچیس کروڑ پرعزم رہیں گے۔ زندگی نہیں بدلے گی لیکن زندگی کے اطوار بدلیں گے۔ قوموں کی زندگی کا حال ہی کائنات کی ایک اکلوتی حقیقت نہیں ہوتی۔ ہاں یہ بھی سچ ہے کہ احوال بدلنے سے ہی تقدیریں بدلتی ہیں۔ ہمت کریں اور اب ہمیں یہی کرنا ہے۔ کان اللہ معنا۔