از قلم: ڈاکٹر حسن رضا
آزادی کے بعد اب تک ملک میں 17پارلیمانی انتخابات ہوچکے ہیں ۔ 2024کا یہ انتخاب جو اب ہونیوالا ہے وہ ملک کا 18واں الیکشن ہوگا ۔ ابتداء کے 25 برس ایمرجنسی کے اختتام 1977 کے الیکشن کے پہلے تک کانگریس نے بلا شرکت غیر حکومت کی ۔اس کے بعد وہ دھیرے دھیرے اندرونی گروپ بازی ، پارٹی پالیٹکس اور الیکشنی سیاست کے ہار جیت اور اس کے جوڑ توڑ میں الجھی رہی ۔نظریاتی سیاست کے سلسلے میں مجرمانہ غفلت برتتی رہی یہاں تک کہ ہندوستان میں مذہبی رواداری جمہوری اصول اور سماجی عدل وانصاف کا دستوری خواب پھیکا پڑتا چلا گیا ۔ آہستہ آہستہ کانگریس بھی نظریاتی اور تنظیمی طور پر کمزور ہو گئی اور اقتدار کے حصول میں مختلف ٹکڑوں اور دھڑوں میں بٹ گئی ۔ پھر عوام کی سیاسی تربیت اور انسانی خدمت کانگریس کے ایجنڈے سے باہر ہوگیا اس طرح عام پبلک سے زندہ سیاسی رشتہ کمزور ہوگیا ۔محض الیکشنی سیاست کی عارضی مصلحت ، وقتی رابطہ اور جوڑ گھٹاؤ میں اتنی قوت اور صلاحیت نہیں ہوتی ہے کہ وہ ہندوستان جیسے بڑے وسیع اور متضاد عناصر کو بہت دنوں تک اپنے ساتھ جوڑے رکھے ۔اور اپنا ہم سفر بنا سکے ۔اجتماعی خواب جو دستور ہند کے دستاویز کو محترم بناتا ہے اس کے بکھرنے کے بعد کوئی چیز بہت دیر اور دور تک کسی قوم یا گروہ کو بکھرنے سے روک نہیں سکتی ہے ۔ اندرونی جمہوریت کی کمی کے ساتھ ساتھ مضبوط لیڈرشپ کے فقدان نے پارٹی کو اندرا گاندھی کے بعد اور بھی کمزور کردیا۔ اسی کمزوری کا نتیجہ تھا کہ 1977میں جنتا پارٹی سے لے کر 1989 میں قومی محاذ( National front)اور اس کے بعد 13دن 13مہینے اور پانچ سال اٹل بہاری واجپائی کے سیاسی اتھل پتھل کے تجربے سے ملک گزرا جس میں منڈل اور کمنڈل کی راج نیتی عروج پر تھی علاقایی پارٹیاں تو 1967سے ہی ابھرنے لگیں تھیں جس سے سوشل جسٹس کے نام پر ذات برادری کے حقوق کی جنگ شروع ہویی ، پھر مخلوط حکومت (coalition government)کا تجربہ ہوا ۔یہ سارے سیاسی تجربے ذہنی و سماجی تبدیلی لانے کے بجائے صرف اقتدار میں حصہ داری کا محدود ایجنڈا بن کر رہ گئے ۔ دستور ہند کی روح پس پشت پڑتی چلی گئی 26جنوری میں رسمی طور پر پرچم کشائی ہوتی رہی دستور کی روح کو زندہ رکھنے کی سعی وکوشش نہیں کی گئی بالاخر مندر مسجد کا کمیونل ایجنڈا ہندوستان کے سیاسی افق پر بدقسمتی سے ملک کا سب سے اہم ایجنڈا بن گیا ۔ مذہبی رواداری کا جنازہ نکلتا رہا ۔اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہویے بڑی ہوشیاری سے بی جے پی ملک کے اقتدار پر قابض ہوگئی ۔ عوام کے حقیقی ایجنڈے و مسایل اور ملک کے عمومی مفاد پس پشت چلے گئے ۔ اقلیتوں کی حق تلفی ، ان کی شہریت پر سوال ،مسلم پرسنل لا اور لنچنگ کے معاملات گزشتہ دس پندرہ برسوں میں اصلا ملک کے ایشوز بن گئے ۔
افسوس مخلوط سیاست کے دور کو کانگریس اپنے حق میں ہموار کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ۔ اس سیاسی ماحول اور غیر دستوری ایجنڈے کی سیاست کو ایک مخصوص گروہ نے اپنے حق میں بہت ہوشیاری سے استعمال کیا ،یہاں تک کہ اٹل بہاری واجپائی جی کو مخلوط سیاست کی مدد سے بر سر اقتدار آنے کا نایاب موقع مل گیا ۔
ملک کی بیشتر علاقایی اور آل انڈیاسیاسی پارٹیاں بھی الکشنی سیاست کے جوڑ توڑ سماجی کیمسٹری اور ووٹ بینک کی میتھمیٹکس میں لگی رہیں جن کے نتیجے میں ووٹ بینک کے تحفظ اور امیدواروں کے خرید وفروخت کا بازار عروج پر پہنچ گیا ،یہاں تک کہ ملک کا مرکزی سیاسی بیانیہ ، عمومی ماحول الکشنی فضا اورسماجی نفسیات سب بدلتی چلی گئی ۔مسلمانوں نے بھی ان مواقع پر اس بیانیہ اور ماحول پر اثر انداز ہونے کی کبھی کوشش نہیں کی ۔شاید وہ ہندوستانی سیاست میں اب اس پوزیشن میں نہیں رہ گئے تھے کہ کوئی اہم رول ادا کرسکیں ۔بد قسمتی سے آزادی کے بعد جن لیڈروں نے مسلمانوں کی مختلف سیاسی پارٹیوں کے پلیٹ فارم سے نمایندگی کی ان میں بیشتر صرف حصول اقتدار کی گداگری یا اس کے اردگرد سیاسی ایجنٹ یا اس کے آلہ کار کے طور پر اپنے فرائض انجام دینے میں لگے رہے ۔کچھ سرکار رس مذہبی افراد اور جماعتوں کے لئے راجیہ سبھا کی ممبری یا کچھ سیاسی مراعات کو انہوں نے اپنی سیاسی معراج سمجھا اور اسی میں مگن رہے ۔الا ماشاء اللہ
کانگریس پارٹی بھی اندرونی تضاد ات اور آپسی رقابتوں کی شکار ہوگئی وہ مذہبی رواداری اور دستور کے بیانیہ کو سیاسی کمک نہیں پہنچاسکی اور الکشنی سیاست کے در پردہ جوڑ توڑ میں ایسی الجھی کہ گاندھی جی پنڈت نہرو اور مولانا آزاد کے سیاسی نظریے کے ساتھ اپنے کمٹمنٹ کو بھی بھولتی چلی گئی۔ لیفٹ پارٹیاں بھی کیی حصوں میں تقسیم ہو کر کمزور ہوتی چلی گییں ۔ بین الاقوامی اور گلوبل کیپٹلزم سے پیدا ہونیوالی صورت حال سے وہ ٹھیک سے نبرد آزما نہیں ہو سکیں۔ان کے لیڈر داخلی اور نظریاتی سیاست کی مانگ سیدھی کرنے میں لگے رہے ۔ علاقایی پارٹیاں جو سماجی انصاف کے نعرےکے ساتھ اٹھیں تھیں جلد ہی اپنے مخصوص حلقہ انتخاب کو سنبھالنے بہلانے اور اقتدار کو اپنے خاندان و برادری تک محفوظ رکھنے کی فکر میں گرفتار ہوگئیں ۔ ان حالات میں ہندتوا اور ان کے انتہاپسند نظریات کو ابھرنے کا کھلا موقع مل گیا۔
گزشتہ دس برس یعنی(2014 -2024)میں ان لوگوں ں نے ملک کی تعمیر وترقی کا کوئی کام نہیں کیا تمام سیاسی وعدے معشوق کے وعدے کی طرح کبھی ایفا نہیں کئے گئے ہاں ملک کا سیاسی منظر نامہ آج بالکل بدل کر رکھ دیا ہے اب ہر طرف زرد رنگ کی بہار ہے اس کے برعکس گاندھی جی کا سیاسی نظریہ اجنبی ہو گیا ہے اور ملک کے دستور کی اصل روح اب جاں بلب ہے۔
اسی کو محسوس کرتے ہویے شاید پہلی دفعہ راہل گاندھی کانگریس کے لیڈر کی حیثیت سے کھل کر نظریاتی لڑائی کے لئے عوام کے بیچ میدان سیاست میں نکل پڑے ہیں ۔وہ آفس میں بیٹھ کر صرف امیدواروں کی فہرست کے شطرنجی کھیل میں لگنے کے بجایے عوام میں ہندتوا سیاست کے خلاف از سر نو بر سر پیکار ہویے ہیں ۔جس کی اس وقت سخت ضرورت تھی ۔صرف الیکشنی گٹھ بندھن اور شطرنج کے کھیل سے آج بی جے پی کو شکست نہیں دیا جاسکتاہے ۔کاش راہل گاندھی پانچ نکاتی انصاف کے ساتھ چھٹا نکتہ بھی شامل کر لیتے یعنی اقلیتوں کے ساتھ انصاف ۔بہرحال اس وقت عملی سیاست میں دوتجربہ بہت قیمتی ہورہا ہے اور اس کے دور رس نتائج نکلیں گے ایک راہل گاندھی کی بھارت جوڑو نیایے یاترا ۔جس میں اقلیتی فرقے کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ عملا اس نظریاتی لڑائی میں شریک ہوکر اقلیت کے لئے انصاف کے ایجنڈے کو شامل کرے ۔آگے چل کر امید ہے یہ نکتہ بھی ببانگ دہل شامل ہوجایے کا دوسرا پرشانت کشور کا بہار کی سطح پر سوراجیہ پارٹی کے قیام کا ابھیان ۔دونوں گاندھی کے نظریے، تجربے اور شخصیت سے حرارت وبصیرت حاصل کرکے میدان سیاست میں سرگرم عمل ہیں۔ پرشانت کشور کا تجربہ ہے تو بہار کا لیکن اثرات دور رس ہوں گے گجرات کا تجربہ اگر پورے ملک میں پھیل سکتا ہے تو بہار کا تجربہ کیوں نہیں پورے بھارت کو متاثر کرسکتا ہے بشرطیکہ سب مل کر اس کو انجام تک پہنچائیں اور مسلم نوجوان صرف تماشہ نہ دیکھیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے بلکہ تجربے میں شامل ہوکر اونٹ غلط کروٹ نہ بیٹھے اس کی کوشش بھی کرنا چاہیے ۔گڑھی ہوئی گھاس اور پکی ہویی کھچڑی کھانے کی عادت قوموں کو غلامی میں مبتلا کردیتی ہے ریسک لینے کی عادت آزادی کی ضمانت ہے ۔
بہرحال۔ بی جے پی نے کیسے نارتھ انڈیا بالخصوص یو پی کو فتح کیا اس کا مطالعہ بھی گہرایی سے نہیں کیا گیا ہے اگر اس کا مطالعہ کیا جایے تو پرشانت کشور کے تجربے کی معنویت زیادہ کھل کر سامنے آسکتی ہے ۔ یاد ہوگا یوپی میں کانگریس کی کمزور ہونے کے بعد کس طرح فرقہ پرستی عناصر مضبوط ہویے ۔۔ جب ملایم سنگھ کی سیاست اور مایا وتی میں ٹکراؤ ہوا تو اس سے بی جے پی نے فایدہ اٹھایا ۔اس وقت کوئی سیکولر پارٹی اس کا بدل نہیں تھی نتیجتاً عوام کا ایک بڑا حصہ سیاسی مجبوری میں بی جے پی کا ووٹر بن گیا ۔ بہار میں اس پروسس کو شاید پرشانت کشور روک سکیں گے ۔یہاں کانگریس بہت کمزور ہے ۔راجد اور جنتا دل یو سے مایوسی کے بعد بی جے پی ہی عام بہاری ووٹرز کی لئے متبادل رہ جاتی ہے ۔ اس لئے ضروری ہے کہ کوئی معتدل سیاسی پارٹی بی جے پی کے ٹیک اور سے پہلے متبادل کے طور پر تیار ہوجایے ۔اس سے قبل ۔ایک تجربہ عام آدمی پارٹی کا بھی ہے لیکن اس تجربے میں کیجری وال کے ہوس اقتدار نے بہت نقصان پہنچایا ۔ اور پوری تحریک کو ہائی جیک کرلیا گیا ۔اس سے بھی پرشانت کشور نے کچھ سبق حاصل کیا ہے جس کا اندازہ ان کے انٹرویو سے ہوتا ہے ۔اسں لیے یہ توقع نہیں کی جاسکتی ہے کہ سوراج ابھیان کو کوئی گروہ ہاجیک کرسکتا ہے اس طرح کے سیاسی تجربے کا مطالعہ اور اس سے بر وقت رابطہ بھی ہم لوگوں کا ضروری ہے ۔مسلم نوجوانوں میں یہ دور اندیشی ہونی چاہئے کہ وہ رسک لیتے رہیں مایوس نہ ہوں تجربے کے لئے آمادہ رہیں اور ہر تجربے سے نیا سبق سیکھیں تب ہی کامیاب ہوسکتے ہیں ۔یہ پسندیدہ نہیں ہے کہ نئ نسل کے متحرک نوجوان موجود اور مستحکم وسیاسی پارٹیوں سے رابطے میں اپنی عافیت محسوس کریں ۔بہر حال سر دست یہ دونوں تجربے وقت کی ضرورت ہیں ۔ ان دو کے علاوہ بھی چھوٹے چھوٹے تجربے پورے ملک میں ہورہے ہیں ۔ سب کی اہمیت ہے ۔ملک کے سیاسی افق کو مثبت طور پر بدلنے میں یہ کوششیں معاون ہوں گی ان تجربوں میں جو فرق ہے وہ حالات کے تحت ہے لیکن جو کوششیں بھی ملک کے ہندتوا بیانیہ کو کاؤنٹر کر رہی ہیں سب کی اپنی اپنی اہمیت ہے مثلأ راہل گاندھی کانگریس پارٹی کی بلند چوٹی پر ہیں ۔ان کے سامنے کانگریس کے پلیٹ فارم سے نظریاتی جنگ چھیڑنا ہے تاکہ وہ بی جے پی کے سیاسی بیانیہ پر اثرانداز ہوں اور کانگریس کا نظریۂ پھر غالب ہو ۔پرشانت کے سامنے کمیونل سیاسی مینی فسٹو اور ایجنڈے کے رخ کو بدلنا ہے۔ یہی ان کا میدان بھی ہے ۔تاکہ الکشن کا ایجنڈا، مزاج اور پیٹرن بدلے ۔اور عوام گمراہ نہ ہو ۔
اس طرح گزشتہ 75برسوں کی الکشنی سیاسی تاریخ کی روشنی میں کہا جاسکتاہے کہ حالیہ آنیوالا پارلیمانی انتخاب اب تک کے تمام انتخابات سے مختلف ، نازک ، بعض پہلو سے بنیادی تبدیلی کا باعثِ اور دور رس نتائج کا حامل ہوگا۔( جاری )