محمد عمر فراہی
طاقت ،جہالت اور اقتدار کا نشہ شراب کے نشے سے بھی زیادہ گہرہ ہوتا ہے ۔شراب کا نشہ بے شک لوگوں کو برائی اور فحاشی کی طرف راغب کرتا ہے لیکن یہ وقتی ہوتا ہے اور یہ انسان کی اپنی ذات تک محدود ہوتا ہے۔
دونوں میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ شراب کا جام چاہے شریف کے ہاتھ میں ہو یا بدمعاش کے حلق کے اندر اترنے کے بعد دونوں پر یکساں اثر کرتا ہے ۔اس کے برعکس اقتدار کا معاملہ ایسا ہے کی اگر اس کی باگ ڈور خدا کے صالح بندوں کے ہاتھ میں آۓ تو دنیا امن اور انصاف کا گہوارہ بنتی ہے جبکہ اقتدار غیر خدائی طاقتوں کے ہاتھ میں آجاۓ تو اسے نظام جہالت کہتے ہیں ۔ایسے میں نہ عبادت گاہیں محفوظ رہ پاتی ہیں نہ لوگوں کی عزت و آبرو ۔یہ لوگ صرف قتل و غارت گری کا بازار ہی گرم نہیں کرتے پوری پوری اور کئی کئی سلطنتیں بھی تباہ ہو جاتی ہیں یا آبادیاں ویران کر دیتے ہیں۔
دیکھ لیجئے پچھلے سو سالہ سوشلسٹ کمیونسٹ اور جمہوری نظام کے علمبرداروں نے وہ چاہے مسلم ممالک کے حکمراں ہوں یا غیر مسلم انہوں نے جمہوریت اور لبرلزم کے نام پر کیسا تماشا بنا رکھا ہے ۔بھارتی سیاستدانوں کو بھی اس وقت اسی اقتدار کا نشہ ہے اور ان کی زد میں اس وقت بھارت کا مسلمان ہے ۔مگر کیا کیا جاۓ خود مسلمانوں کی اپنی اکثریت بھی تو نشے میں ہی ہے ۔اس کو جو نشہ ہے وہ شراب اور اقتدار کا نہیں بلکہ اسے مادہ پرستی یاغفلت کا خمار کہہ سکتے ہیں ۔جس طرح سے آج بھی عام مسلمان شادی بیاہ وغیرہ میں بے جا اخراجات کر رہا ہے اور اسے اصلاح معاشرے کی کوئی فکر نہیں مذہبی طبقات میں بھی مسلکی عصبیت کا نشہ کم نہیں ہے ۔ایسا لگتا ہے یا تو مسلمانوں کو آنے والے طوفان کا اندازہ نہیں ہے یا وہ جاہل اور بے خبر ہے ۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ جہالت بھی ایک نشہ ہے ۔اس کی مثال مشرکین مکہ سے دے سکتے ہیں جنھوں نے نہ صرف جہالت کے نشے میں وقت کے رسول کو پہچانا نہیں، اسے مکہ سے باہر ہجرت پر مجبور کیا، وقت کے ابو جہل ان سے جنگ پر بھی آمادہ ہوۓ۔ ہم تو خیر اپنے رسول اور کتاب دونوں سے واقف ہیں لیکن رسول کے خلاف مدینے میں جتنے قبیلے یہودیوں کے نہیں تھے اس سے کئی گنا زیادہ بھارت میں مسلمانوں کے فرقے ہیں ۔کمال کی بات یہ ہے کہ مدینے کے تینوں یہودی فرقوں کے اپنے سردار اور اپنے فیصلے کی طاقت تھی ۔بھارت میں مسلمانوں کے جتنے فرقے ہیں ان فرقوں کا نہ تو کوئی اپنا ٹھیک سے امام ،سردار اور قائد ہے جو اپنے اپنے فرقوں کی رہنمائی یا فیصلے کرسکیں نہ ہی ان کے لوگ کسی نام نہاد قائد اور امام کی بات پر لبیک کہنے کو تیار ہیں ۔ہر فرقے میں متفرق مولویوں کا گروہ ہے جو صرف دعوت دعوت کا کھیل کھیل رہا ہے ۔سچ کہوں تو یہ اصل انبیائی دعوت کے مفہوم سے بھی محروم ہیں ۔اس صورتحال کو اب کس جہالت کا نام دیا جاۓ کہ اسے اپنی اس جہالت کا اعتراف بھی نہیں ہے ۔بھارت میں مسلمانوں کے اس انتشار اور بحرانی کیفیت سے فرقہ پرست طاقتیں بھی بخوبی واقف ہیں ۔بدقسمتی سے ان کو اقتدار بھی حاصل ہو چکا ہے ۔اور وہ مسلمانوں کے خلاف ہندؤوں کو ورغلا کر اس کا بھر پور فائدہ بھی اٹھا رہی ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کا یہ نشہ بھی اترے گا۔آخر ایک ہزار سال تک ہم بھی تو اقتدار میں رہے ۔کوئی تو وجہ تھی کہ ہمیں اس منصب سے معزول کر دیا گیا ۔ماضی میں بہت سی قوموں کو ان کی بداعمالیوں کی سزا دی گئی سمجھ لیں کہ آج ہم بھی اسی سزا کے دور سے گزر رہے ہیں ۔دوبارہ یہ صورتحال اسی وقت ہمارے حق میں سازگار ہوسکتی ہے اگر ہم جہالت پر مبنی اپنے معاملات ، عقیدے اور نظریات کو درست کرتے ہوۓ اسلام کی طرف رجوع ہو جائیں ۔