✍ شکیل رشید
________________
تولوک سبھا کے الیکشن کی گھنٹی بج گئی ہے ، اور مودی سرکار نے اپوزیشن کو ٹھکانے لگانا شروع کر دیا ہے ۔ دہلی کے وزیراعلیٰ ، عام آدمی پارٹی ( آپ) کے سربراہ اروند کیجریوال کی گرفتاری کے بعد ، اس پارٹی کے چار بڑے رہنما سلاخوں کے پیچھے ہیں ، یعنی دہلی کی سرکار اب اعلیٰ قیادت کے بغیر چل رہی ہے ۔ یا یہ سمجھ لیں کہ بی جے پی نے عام آدمی پارٹی کو ٹھکانے لگا کر الیکشن میں اس کی سرگرمیوں اور اس کی انتخابی مہموں پر قابو پانے کے اپنے منصوبے کو کامیابی سے انجام دے دیا ہے ۔ اب یہ کیجریوال پر منحصر ہے کہ وہ حالات کا مقابلہ ہمت سے کرتے ہیں یا مودی راج کے سامنے جھک کر بی جے پی کے لیے دہلی کی لوک سبھا کی سیٹیں تھالی میں سجا کر پیش کر دیتے ہیں ۔ اگر کیجریوال نے ہمت دکھائی تو دہلی بی جے پی کے ہاتھ سے نکل سکتی ہے ۔ دوسری جانب جو کانگریس الیکٹورل بانڈ کو موضوع بناے ہوے تھی ، اور چندہ و دھندا کا نعرہ لگا کر بی جے پی پر کرپشن اور بدعنوانی کے الزامات لگا رہی تھی ، اسی کانگریس کے بینک کھاتے منجمد کر دیے گیے ہیں ۔ مطلب یہ کہ الیکشن کے موقع پر اس کو روپیوں اور پیسوں کے استعمال سے بڑی حد تک محروم کر دیا گیا ہے ۔ لیکن راہل گاندھی اپنے تمام لیڈروں سمیت لڑ رہے ہیں ، اور لڑنے ہی میں بھلا ہے ۔ رہیں اپوزیشن کی دیگر پارٹیاں تو ان سب کی حالت ویسے ہی پتلی ہے ۔ پتلی حالت کا سبب ای ڈی ، سی بی آئی اور محکمہ انکم ٹیکس کا ناجائز استعمال ہے ۔ مایاوتی اپوزیشن میں ہیں مگر الیکشن اپوزیشن کے خلاف ہی لڑ رہی ہیں ۔ اسدالدین اویسی مسلمانوں کے قائد ہیں لیکن وہ مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا پا رہے ہیں ۔ ان کے اپنے مفادات جو ہیں ۔ اکھلیش یادو نے ہمیشہ اپنے فائدے کو مدنظر رکھا ہے اور اس بار بھی انہیں اپنا ہی فائدہ عزیز ہے ۔ این سی پی کی حالت سامنے ہے ، اسے دو حصوں میں بانٹ دیا گیا ہے ، بالکل شیوسینا کی طرح ، یہ دونوں ہی پارٹیاں انتشار کی کیفیت میں ہیں ، لیکن ان سے بہرحال بی جے پی کو ٹکر دینے کی امید ہے کیونکہ ان کے قائدین شردپوار اور ادھو ٹھاکرے میں ریڑھ کی ہڈی موجود ہے اور وہ جھکنے کو تیار نہیں ہیں ۔ اس منظر نامے میں مسلمان کہاں کھڑے ہوئے ہیں ؟ اس سوال کا سیدھا جواب بس یہ ہے کہ وہ ، نہ سہی سب مگر اکثر ، خوش ہیں کہ کیجریوال گرفتار کر لیا گیا ! ان کی نظر میں مودی راج کا جبر اور ملک کو یرقانی رنگ میں رنگنے کی کامیاب کوششیں بے معنیٰ ہیں ! بلاشبہ ہم مسلمان سیاسی بصیرت سے عاری ایک ایسی تاریک کھائی کے کنارے پہنچ چکے ہیں جس میں گرنے کے بعد باہر نکل پانا ممکن نہیں ہو گا ۔ بس ایک صورت ہے کھائی میں گرنے سے بچنے کی ، ہوش و حواس بحال رکھ کر اپنے ووٹوں کا دانشمندی سے استعمال ۔