۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

محمد قمرالزماں ندوی

مدارس کے طلباء میں مایوسی و افسردگی کیوں؟

✍️ محمد قمر الزماں ندوی

________________

مولانا محمد ولی رحمانی سابق سجادہ نشیں خانقاہ رحمانی مونگیر و سابق جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ایک بے باک ،نڈر بے خوف قائد ، اور جہاں دیدہ ،دور اندیش اور  فعال و عبقری عالم دین تھے، ملکی اور عالمی حالات پر گہری نظر رکھتے تھے، وہ اپنی رائے کے اظہار میں کبھی کسی کی پرواہ نہیں کرتے تھے ، ارباب حکومت کے سامنے بھی بلا خوف و تردد حق گوئی کا اظہار کرتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور اعلی علین میں جگہ دے آمین۔
  ایک موقع پر ایک انٹرویو میں انہوں نے مدارس کی اہمیت و افادیت کے باوجود طلباء مدارس میں مایوسی و افسردگی کیوں؟ اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا تھا :

"مدارس کے کارنامے اپنی جگہ، ان کی افادیت مسلم، نیز غریبوں تک مفت تعلیم سے موثر اور سب سے بڑا Network ، اس وقت مدارس ہی ہیں، یہ بات اپنی جگہ ایک واقعہ ہے، لیکن اصل بات یہ ہے کہ پہلے جن حوصلوں کے ساتھ طلباء مدارس میں بھیجے جاتے تھے ، ان کے سر پرست بھیجتے تھے اور جن جذبات و حوصلہ مندی کے ساتھ بھیجتے تھے اور بچے خدمت دین کی نیت سے آیا کرتے تھے، افسوس کہ ان حوصلوں اور جذبات میں انحطاط آگیا ہے، دوسرا بڑا عنصر یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں انہیں کیا کرنا چاہئے، یہ منزل ان کی متعین نہیں ہوتی ۹-۱۰ یا ۱۲ سال عربی زبان اور دینیات وہ پڑھتا ہے اور جب اس طویل مدت کے بعد نیا سورج طلوع ہوتا ہے تو وہ سوچتا ہے کہ میں نے امتحان دے دیا ، اب مجھے کیا کرنا چاہئے ، یہ بات بڑی افسردگی کی ہے کہ اسے یہ معلوم نہ ہو کہ اس کی منزل کیا ہے، اس کی منزل متعین ہونی چاہئے، یہ اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ اس کی منزل متعین کریں لیکن مشکل یہ ہے کہ اساتذہ سب تو پڑھا دیتے ہیں لیکن اس کی منزل نہیں بتاتے اور اگر بتاتے ہیں تو پلاتے نہیں، چنانچہ ذہن الجھ جاتا ہے، فراغت کے بعد مجھ سے کوئی پوچھتا ہے تو میں اس سے کہتا ہوں کہ اصل منزل ہے : خدمت دین چاہے جس انداز سے ہو، جس راستہ سے ہو، خدمت دین کی کرنی ہے، جہاں تک تعلق ہے اس پرو پیگنڈہ کا کہ مدارس کے فضلاء کا مالی مستقبل مجروح ہے تو پہلی بات تو یہ ہے کہ اس ملک کے اندر ایک کروڑ سے زیادہ اعلی ٹیکنیکل تعلیم یافتہ بیکار پڑے ہیں، جو لوگ مدارس کے مولویوں کی بیکاری کا رونا روتے ہیں وہ لوگ ایک درجن بھی ایسے مولویوں کی نشاندہی نہیں کر سکتے کہ وہ بیکار ہیں اگر تھوڑی سی بھی صلاحیت ہے تو مصروف ہو جاتے ہیں لیکن وہ لوگ جن کی تعلیم پر لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں، بیکار پڑے ہیں، حد یہ ہے کہ بڑے بڑے Toppers ان میں ہیں کلکتہ میں ٹیکسی ڈرائیور ہیں اور وہ اپنا کام اس سے چلا رہے ہیں ، مولویوں کے بارے میں یہ کہنا کہ ان کی مالی حالت مجروح ہوتی ہے، یہ آنسو پونچھنے والی بات تو ہو سکتی ہے، خدمت والی نہیں ہو سکتی ، جہاں تک مولویوں کی بات ہے تو ان کو یہ بات سمجھنی چاہئے خصوصاً نئے فارغین کو کہ وہ اپنی صلاحیت کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کریں، اپنے اندر صلاحیت پیدا کریں اور نئے زمانہ کے تقاضوں سے اپنی صلاحیتوں کو ہم آہنگ کریں، میرے خیال میں اس سلسلہ میں جو سب سے بڑی رکاوٹ ہے وہ لسانی ہے، وہ زبان فہمی کی ہے، مزاج فہمی کی ہے اور زبان دانی کا جو خلا ہے اس سے بڑے مسائل پیدا ہوتے ہیں، مدارس کے فارغین کو بھی اور مدارس کے ذمہ داروں کو بھی اس طرف توجہ دینی چاہئے ، مدرسہ کی وادی میں وہی آئے جو اس وادی پُر خار سے گزرنا چاہتا ہو، کوئی آبلہ پا اس وادی پُر خار میں نہ آئے ، مدرسہ والوں کے لئے اللہ نے فقیر کا ٹائٹل چن لیا ہے، یہاں فقراء سے مراد علماء ہیں تو جب اللہ نے اس ٹائٹل کو چن لیا ہے، مولویوں کے لئے تو انہیں بھی اس تاج کو بڑے فخر اور حوصلہ کے ساتھ سر پر رکھ لینا چاہئے۔[مرحوم مولانا محمد ولی رحمانی، بحوالہ : روبرو ص ١١٩]
      مولانا محمد ولی رحمانی صاحب رح نے اس گفتگو میں مدارس کے طلبہ کے اندر مایوسی و افسردگی کی اصل  وجہ بیان کیا ہے ، نیز مدارس کے فارغین کا کردار کیا ہونا چاہیے اس پر بھی روشنی ڈالی ہے ۔
    مذکورہ تحریر کی روشنی میں عاجز چند باتیں قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہے :
1/   دینی مدارس کو اور وہاں کے فارغین کو عصری اداروں اور وہاں کے تعلیم یافتہ لوگوں پر قیاس نہیں کرنا چاہیے ،کیونکہ یہ مدارس عام درسگاہوں کی طرح محض درس گاہ نہیں، بلکہ حفاظت اسلام کی ایک زندہ تحریک ہے ، یہ مدارس کسب معاش کے پیشوں میں سے ایک پیشہ نہیں ،بلکہ آخرت کی تجارت رابحہ ہے ،یہاں کے فارغین احیاء اسلام کی مساعی کا ایک حصہ ہیں اور اس کاروانِ عزیمت سے نسبت رکھتے ہیں ،جس نے اس ملک میں دین کے بقاء و ارتقاء کے جان اور سر دھڑ کی بازیاں لگا دی تھیں ۔
   اس لیے مدارس میں پڑھنے والوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ انہیں انبیاء کرام کی وراثت کو سنبھالنا ہے اس لیے انہیں زندگی میں آزمائشوں بھی گزرنا ہوگا ۔انہہں زندگی کا ایک سادہ نقشہ تیار کرنا ہوگا ،جس میں معمولی کھانے ،پینے ،معمولی مکان معمولی لباس اور معمولی طرز زندگی کی ہی گنجائش ہوگی ،لوگوں کے طعنے بھی سننے پڑیں گے تکلیف دہ باتوں کو بھی انگیز کرنا ہوگا اور زندگی کی بہت سی نعمتوں سے اپنے کو دور رکھنے پر آمادہ کرنا ہوگا ۔یہ مشقتیں دوسروں کے لیے یقینا مشقت ہے لیکن کاروانِ عشق کے لئے حاصل حیات ، علامہ اقبال نے کہا تھا
کس سے کہوں کہ زہر ہے میرے لیے مئے حیات
کہنہ ہے بزم کائنات ،تازہ ہیں میرے واردات
صدق خلیل بھی ہے عشق،صبر حسین بھی ہے عشق
معرکئہ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق

  اس لیے مئے حیات کی حفاظت اس کو بچانا اور باقی رکھنا وقت کا تقاضا ہے ،جہاں پوری دنیا اور پوری فضا مادیت کی پرستار اور دلدادہ ہو ،وہاں قناعت ،صبر ،استغنا اور توکل کی بات مضحکہ خیز سمجھی جاتی ہے ،لیکن یہ حقیقت ہے کہ قناعت ہی کی خمیر سے ان مدارس کا وجود اثھا تھا اور جس قدر اس کی اہمیت کل تھی اس سے زیادہ آج ہے ۔
   2/ یہ بات بھی علماء اور فارغین مدارس کے ذہن میں ہمیشہ رہے کہ ان کا تعلق امت سے محض ایک قانونی تعلق نہیں ہے بلکہ ایک ایمانی اور روحانی تعلق ہے ،قانونی تعلق میں انسان اپنے آپ کو ڈیوٹی تک محدود سمجھتا ہے ،مقررہ کام کے علاوہ دیگر کسی کام کا اپنے کو پابند نہیں سمجھتا کیوں کہ اس کا اسے معاوضہ نہیں ملتا ،لیکن فارغین مدارس کی حیثیت ایک ایسے نگہبان اور چوکیدار کی ہے جو صرف اللہ کی رضا کے لیے دین کی حفاظت کی ذمہ داری لیتا ہے ،وہ اپنے کو ملازم نہیں بلکہ رضا کار سمجھتا ہے ،اس کے فرائض غیر محدود ہیں اس کی خدمت کا دائرہ بہت وسیع ہے اور وہ تمام امور اس کے فرائض میں داخل ہیں جو امت سے اللہ کو مطلوب ہے ۔ 
3/  مدارس کے طلبہ کو ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مدارس کا نظام سادگی پر رکھا گیا ہے اور ہر طرح کے تکلفات اور تعیشات سے خالی ۔ یہ اس لیے کہ تاکہ مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے لوگ مشکل حالات میں کام کرنے کے عادی رہیں اور دین کی خدمت انجام دے سکیں ۔ اس لئے اس پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ اللہ تعالیٰ کو جن سے کام لینا ہوتا ہے ،ان کی تربیت کا بھی انتظام کیا جاتا ہے ،اور اس کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ انہیں تکالیف مشقتیں اور خلاف طبیعت باتیں برداشت کرنے کی عادت ہو جائے ۔ اسی لئے قرآن مجید میں انبیاء کرام کے واقعات کا ذکر ہیں اور ان کی اقوام کے درمیان کشمکش اور مخالفین کی جانب سے ایذارسانی کے ہیں ۔
4/ اس تحریر کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ مدارس کے فارغین دنیا کے عیش و عشرت سکون واطمینان اور راحت و آسائش سے بالکل الگ رہیں اور صرف مشقت اور تکلیف کو چھیلیں اور دین کی حفاظت کی ذمہ داری سنبھالیں اور بس آخرت میں اجر و انعام کے حقدار ٹہریں ۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ امت میں ہمیشہ ایک تعداد ایسی رہے جو مدارس اسلامیہ کی طرف رخ کرے ،دین میں تفقہ اور مہارت حاصل کرے ، امت کی خدمت اور دین کی اشاعت میں مشغول رہے ،مخالفین اسلام کو دندان شکن جواب دے۔
دوسری طرف امت مسلمہ کی ذمے داری ہے کہ ان علماء اور داعیان حق کی جملہ کفالت اپنے ذمہ لے ،جیسا کہ ماضی میں ہوا کرتا تھا کہ لوگ علماء اور داعیان دین کی کفالت کے لیے اپنی جائیدادیں وقف کیا کرتے تھے اور اس سے علماء اور اہل علم کی کفالت ہوتی تھی ۔ حضرت امام غزالی رح نے بھی اس جانب اشارہ کیا اور اس کو علماء کے لئے بہترین روزی قرار دیا ہے ۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: