بات تیغ عتاب ہوتی ہے!
✍️ محمد قمر الزماں ندوی
_________________________
مشہور شاعر سلیمان خطیب نے ایک نظم میں کسی بھی بات ،بول، گفتگو یا کلام کے نرم و گرم اور اس کے منفی اور مثبت اثرات کیا ہوتے ہیں، اس حوالہ سے کیا خوب کہا ہے کہ
بات ہیرا ہے بات موتی ہے
بات لاکھوں کی لاج کھوتی ہے
بات پھولوں کا باغ ہوتی ہے
بات سینہ کا داغ ہوتی ہے
بات خیر و ثواب ہوتی ہے
بات قہر و عذاب ہوتی ہے
بات برگ و گلاب ہوتی ہے
بات تیغ عتاب ہوتی ہے
بات کہتے ہیں رب ارنی کو
بات ام الکتاب ہوتی ہے
بات ہر بات کو نہیں کہتے
بات مشکل سے بات ہوتی ہے
مذکورہ اشعار سے معلوم ہوا کہ انسانی زندگی میں کسی بھی بات، کلام اور گفتگو کی کتنی اہمیت ہے اور اس کے نرم و گرم اور منفی و مثبت تاثیر کس قدر ہوتے ہیں، اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ ہمیشہ تول کر بولو اور موقع و محل کی رعایت کرتے ہوئے الفاظ استعمال کرو ۔ ورنہ یہ تکہ بھر زبان تمہیں کہیں اور کسی وقت بھی ذلیل و رسوا کرسکتی ہے ۔ زبان اگر میٹھی اور شریں ہے ،تو تم ملکوں پر بادشاہت کر سکتے ہو، زباں شریں ملک گیری مشہور کہاوت ہے ۔ اور اگر اس زبان پر لگام نہیں تو حکومت و اقتدار کو کھونے اور ذلت و رسوائی اٹھانے میں بھی وقت نہیں لگتا ۔ کل جو واقعہ چندی گڑھ ائیر پورٹ پر پیش بظاہر وہ افسوس ناک ہے، لیکن اس کے اسباب و عوامل پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے ،تاکہ لوگوں کو سبق اور نصیحت ملے ۔
کل جو واقعہ چندی گڑھ ائیر پورٹ پر کنگنا رناؤت کے ساتھ پیش آیا اور جو سب سے زیادہ سرخیوں میں ہے ،اس واقعہ پر تجزیہ کرتے ہوئے
شکیل رشید (ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز) نے جو کچھ اپنے اداریہ میں لکھا ہے، وہ قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ تاکہ اس واقعہ کا مالہ وماعلیہ سمجھ میں آئے ۔ شکیل رشید صاحب لکھتے ہیں :
"خبر گرم ہے کہ چندی گڑھ کے ائرپورٹ پر بی جے پی کی نومنتخب ایم پی اداکارہ کنگنارناؤت کے گال پر ایک لیڈی سیکوریٹی کانسٹبل کلویندر کور نے تھپڑّ جڑ دیا ۔ لیڈی کانسٹبل کو ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا ۔ یہ ایک افسوسناک واقعہ ہے ، لیکن ساتھ ہی عبرت ناک بھی ۔ لیڈی اہلکار مضبوط قد کاٹھی کی تھی ، لہٰذا اس کے تھپڑّ سے کنگنارناؤت کے گال سُرخ ہوگیے ہوں گے ،لیکن ساتھ ہی انہیں یہ سبق بھی مل گیا ہوگا کہ کسی کے خلاف بے تکی باتیں بولنے کا انجام اچھا نہیں ہوتا ۔ سوال یہ ہے کہ لیڈی سیکوریٹی کانسٹبل نے کنگنا رناؤت کو تھپڑّ کیوں مارا؟ کیا اسے یہ نہیں پتا تھا کہ کنگنارناؤت اب صرف ایک اداکارہ نہیں رکن پارلیمنٹ بھی ہیں اور وہ بھی بی جے پی کی رکن پارلیمنٹ اور ان کے سرپر کسی اور کا نہیں جلد ہی تیسری بار وزیراعظم بننے والے نریندر مودی کا ہاتھ ہے ؟ کیا لیڈی کانسٹبل کو یہ اندازہ نہیں کہ اس تھپڑّ کی گونج اس کے خلاف کارروائی میں سنائی دے گی ، اسے معطل یا برخاست کیا جاسکتا ہے ؟ یقیناً کوئی ایسا سبب رہا ہوگا جس نے لیڈی کانسٹبل کو اس قدر مشتعل کردیا کہ اس نے احتیاط کا دامن چھوڑ کر کنگنا رناؤت پر ہاتھ اٹھا دیا ۔ کلویندر کور کو معطل کردیا گیا ہے ، اور سی آئی ایس ایف افسران کی ایک انکوائری کمیٹی سارے معاملے کی جانچ کے لیے تشکیل کردی گئی ہے ۔ یعنی تھپڑّ جڑنے کے لیے اسے سزا دینے کی کارروائی شروع ہوگئی ہے ۔ بلاشبہہ کلویندر کور کا تھپڑّ مارنا افسوسناک عمل ہے ، لیکن کنگنارناؤت کو جس جملے کے لیے تھپڑّ پڑا ہے ، وہ جملہ بھی انتہائی افسوسناک تھا۔ 2020ء میں جب ملک کے کسان احتجاج کررہے تھے تب کسانوں کے احتجاج میں خواتین بھی شامل تھیں ، ان ہی میں کلویندر کور کی بوڑھی ماں بھی تھی۔ کنگنا رناؤت نے اس موقع پر ایک ضعیفہ کو شاہین باغ کی دادی ، بلقیس بانو سمجھ کر سوشل میڈیا پر ایک انتہائی غلیظ جملہ پوسٹ کیا تھا ’ یہ 100روپئے میں ملتی ہیں!‘ اُس زمانے میں بھی اس جملے پر بہت ہنگامہ ہوا تھا، لوگوں نے کنگنا رناؤت کو آڑے ہاتھوں لیا تھا اور کنگناکو اپنی پوسٹ ڈیلیٹ کرنا پڑی تھی۔ لیکن کہتے ہیں کہ کبھی کبھی کوئی بات ، کوئی جملہ تیر کی طرح جاکر لگتا ہے ۔ کلویندر کور نے اس جملے کو 2024ء تک اپنے حافظے میں محفوظ رکھا اور اگر خبروں کی مانیں تو اسی جملے کے لیے اس نے کنگنا رناؤت کو تھپڑّ جڑا ۔ کسانوں کے احتجاج کو کنگنا رناؤت نے دہشت گردی اور خالصتان تحریک سے بھی جوڑا تھا۔ اور اب تھپڑّ کھانے کے بعد انہوں نے پھر کہا ہے کہ پنجاب میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے ۔ یعنی انہیں تھپڑّ پڑا تو سارا پنجاب ان کی نظر میں دہشت گردوں سے متاثر ٹھہرا! کنگنا رناؤت کے ایسے ہی بیانات انہیں پریشانی میں ڈالتے ہیں ۔ کنگنا رناؤت نے شاہین باغ میں سی اے اے اور این آر سی کے خلاف خواتین کے احتجاج پر بھی بے تکا بیان دیا تھا، اداکارہ ارمیلا ماتو نڈکر کو ’پورن اسٹار‘ کہا تھا ، ممبئی شہر کے خلاف منفی بیان دیا تھا ، جس پر شیوسینا پرمکھ ادھوٹھاکرے اور سنجے راؤت سے ان کی نوک جھونک ہوئی تھی، مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتابنرجی پر ’ نفرت پھیلانے‘ کا الزام عائد کیا تھا ۔ ان کا ایک غلیظ بیان یہ بھی تھا کہ ملک 2014 میں حقیقی طور پر آزاد ہوا ہے ۔ انہوں نے 1947ء میں ملی آزادی کو ’ بھیک‘ میں ملی آزادی کہا تھا ، جس پر کافی ہنگامہ ہوا تھا کیونکہ اس جملے کا مطلب تھا کہ پنڈت نہرو ، مہاتما گاندھی ، بھگت سنگھ وغیرہ وغیرہ سب نے بھیک مانگ کر آزادی لی تھی اور حقیقی آزادی 2014ء میں مودی نے دلوائی ! کنگنارناؤت کو اب اس تھپڑّ کے بعد اپنی زبان پر قابو رکھنا سیکھ لینا چاہئے۔ کیونکہ بغیر سوچے سمجھے کچھ بھی کہہ دینے کا نتیجہ ہمیشہ اچھا نہیں نکلتا ۔
اور بقول شخصے کہ :
یہ طمانچہ اداکارہ کے چہرے پر نہیں، ایک نظریے کے منہ پر جڑا گیا ہے اور یہ نئے ہندوستان کا دم دار آغاز ہے، *چار جون سے قبل اس کا تصور بھی محال تھا، اس تھپڑ نے بتایا کہ* *ملک کی آزادی کو دو ہزار چودہ سے جوڑنا بھی فرسودگی ہے*۔ *ہندوستان تو محض دو دن قبل آزاد ہوا ہے، مجبور ومقہور طبقات کو چار جون کی سعادتیں مبارک ہوں*!