مہاتما گاندھی کے بارے میں نریندر مودی کی دروغ گوئی
✍️ جاوید جمال الدین
________________________
حالیہ لوک سبھا انتخابات کے دوران تیسرے اور چوتھے مرحلے سے وزیراعظم مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ سمیت بی جے پی کے لیڈرشپ نے پورے الیکشن کو ذات پات اور فرقہ وارانہ رنگ دینے کی پوری کوشش کی بلکہ مودی ،شاہ اور آسام کے وزیراعلی سرما نے خصوصی طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا اور پانی بھر بھر کرکوساگیا۔اکثریتی فرقے کو اشتعال دلانے کی کوشش کی کہ انڈیا اتحاد ان کا سرمایہ مسلمانوں کو سونپ دیا جائے گا۔
نریندر مودی کا انداز ایسا رہا کہ ایک وزیراعظم کے عہدہ والےکو زیب نہیں دیتا ہے ،انہوں نے آخری دن حزب اختلاف کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ ” ان کی سات نسلوں کی تاریخ اکھڑ دیں گے۔” خیر عام آدمی اس تبصرہ سے ناراض ہے کہ 1982 میں گاندھی فلم آنے سے پہلے ‘دنیا مہاتما گاندھی کو اس وقت تک نہیں جانتی تھی۔”
ظاہر ہے کہ کانگریس ،اہم شخصیات اور عوام کا چراغ پا ہو نا حق بجانب ہے، انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی پر ان کے تبصرے کے لئے حملہ کیا کہ "جب تک فلم ‘گاندھی’ نہیں بنی تھی دنیا کو مہاتما گاندھی کے بارے میں نہیں معلوم تھا”۔ کانگریس پارٹی نے کہا کہ جن کے نظریاتی آباؤ اجداد( گوڈسے) اس کے قتل میں ملوث تھے وہ کبھی بھی ‘مہاتما’ کے دکھائے ہوئے سچائی کے راستے پر نہیں چل سکتے۔
اس تعلق سے راہل گاندھی نے مودی پر طنزکیا، راہل گاندھی نے بھی وزیر اعظم پر تنقید کرتے ہوئے کہا، "مہاتما گاندھی کے بارے میں جاننے کے لیے صرف ‘پوری سیاسیات’ کے طالب علم کو فلم دیکھنے کی ضرورت ہوگی۔”
"مہاتما گاندھی وہ سورج ہیں جس نے پوری دنیا کو اندھیرے کے خلاف لڑنے کی طاقت بخشی۔ سچائی اور عدم تشدد کے روپ میں باپو نے دنیا کو ایک ایسا راستہ دکھایا جو کمزور ترین انسان کو بھی ناانصافی کے خلاف اٹھنے کی ہمت دیتا ہے۔ کسی ایسے شخص سے کسی سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ہے جس نے ‘شاکھا (آر ایس ایس)’ سے تعلیم حاصل کی ہے،” راہل کی ایکس پوسٹ میں یہ لکھا گیا ہے۔ وزیر اعظم مودی پر حملہ کرتے ہوئے، کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے نے بھی کہا کہ "جھوٹ کا وقت آگیا ہے کہ وہ اپنا جھولا باندھ کر چلے جائیں۔”ہندی کی ایک پوسٹ میں انہوں نے کہاکہ "وہ لوگ جن کے نظریاتی آباؤ اجداد ناتھورام گوڈسے کے ساتھ ساتھ مہاتما گاندھی کے قتل میں ملوث تھے، وہ باپو کے بتائے ہوئے سچ کے راستے پر کبھی نہیں چل سکتے۔ ایکس.
کانگریس کے جے رام رمیش نے کہاکہ "مجھے نہیں معلوم کہ سبکدوش ہونے والے وزیر اعظم کس دنیا میں رہتے ہیں جہاں 1982 سے پہلے مہاتما گاندھی کو پوری دنیا میں تسلیم نہیں کیا جاتا تھا۔ اگر کسی نے مہاتما کی وراثت کو تباہ کیا ہے تو وہ خود سبکدوش ہونے والے وزیر اعظم ہیں۔ ان کی اپنی حکومت نے وارانسی، دہلی اور احمد آباد میں گاندھیائی اداروں کو تباہ کر دیا ہے۔
آر ایس ایس کے کارکنوں کی یہی پہچان ہے کہ وہ مہاتما گاندھی کی قوم پرستی کو نہیں جانتے۔ رمیش نے کہا کہ یہ ان کے نظریے سے پیدا ہونے والے ماحول کی وجہ سے ہے کہ ناتھورام گوڈسے نے گاندھی کو قتل کیا۔
رمیش نے کہا، "2024 کا الیکشن مہاتما بھکتوں اور گوڈسے بھکتوں کے درمیان ہوا ہے۔ سبکدوش ہونے والے وزیر اعظم اور ان کے گوڈسے بھکت ساتھیوں کی شکست واضح ہے۔”جبکہ کانگریس کے جنرل سکریٹری، تنظیم کے سی وینوگوپال نے کہا کہ مہاتما گاندھی دنیا کی جدید تاریخ کے سب سے بڑے آئیکن ہیں۔ آزادی سے پہلے بھی، وہ ایک ایسا واقعہ تھا جس کی ہر نوآبادیاتی ملک کی لیڈرشپ کو تعریف کرتا تھا اورنیلسن منڈیلا اور مارٹن لوتھر کنگ، جن کا مودی نے اپنے مضحکہ خیز بیان میں ذکر کیا، خود گاندھی سے متاثر تھے۔ یہ سوچنے کے لیے کہ ہندوستان کے سب سے بڑے فکری رہنما کو مقبول بنانے کے لیے ایک فلم کی ضرورت تھی، بلکہ باپو کی توہین بھی ہے۔
وینوگوپال نے X پر ایک پوسٹ میں کہاکہ "یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ کوئی ایسا شخص جس کے نظریاتی آباؤ اجداد گاندھی کے قتل میں ملوث تھے، اس کے عالمی اثرات کے بارے میں اس قدر ناواقف ہیں۔ پولیٹیکل سائنس کے مکمل گریجویٹ نے ایک بار پھر دکھایا ہے کہ اب کوئی انہیں سنجیدگی سے کیوں نہیں لیتاہے۔سینئر لیڈر پی چدمبرم نے بھی ایک اہم پوسٹ کی ہے بلکہ انہوں نے کہا کہ وہ وزیر اعظم کے اس تبصرے سے حیران ہیں کہ "دنیا کو مہاتما گاندھی کے بارے میں اس وقت تک نہیں معلوم تھائی لینڈ ٹب ےثف چجب تک کہ رچرڈ ایٹنبرو نے گاندھی فلم نہیں بنائی”۔یہ ایک افسوس ناک امر ہے، "کیا مسٹر مودی نے البرٹ آئن اسٹائن کا نام سنا ہے؟ کیا مسٹر مودی جانتے ہیں کہ البرٹ آئن اسٹائن نے مہاتما گاندھٹ گے گبگبتگفی کے بارے میں کیا کہا؟انہوں نے پوچھاکہ کیا البرٹ آئن اسٹائن (وفات 1955) کو مہاتما گاندھی کے بارے میں فلم ‘گاندھی’ (1982)ریلیز ہونے کے بعد ہی معلوم ہوا ۔؟
جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ وزیر اعظم مودی نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہاہے کہ”دنیا بھر میں مہاتما گاندھی ایک عظیم شخص تھے۔ کیا ان 75 سال میں یہ ہماری ذمہ داری نہیں تھی کہ ہم اس بات کو یقینی بنائیں کہ پوری دنیا مہاتما گاندھی کو جانتی ہے۔ مجھے یہ کہتےبگٹگ ہوئے افسوس ہو رہا ہے کہ کوئی بھی ان کے بارے میں نہیں جانتا تھا کہ جب پہلی بار فلم ‘گاندھی’ بنی تھی، تب پوری دنیا میں یہ تجسس تھا کہ یہ شخص کون ہے؟
نریندر مودی نے ہمیشہ عجیب وغریب اورمتنازع بیان دے کر واویلا کھڑا کیا ہے۔مہاتما گاندھی کے بار ے میں ان کابیان اسی کی کڑی ہے،سوشل میڈیا پر ایسی دستاویزات اور فلم کلپ پیش کی جارہی ہیں ،جن میں برطانیہ اور یورپی ممالک کے دورے پر ان کا شاندار استقبال کیاگیا جبکہ راقم الحروف نے امریکہ اور یورپ کے دورے میں کئی اہم مقامات پر مجسمے نصب دیکھے ہیں۔30 جنوری کو مہاتما گاندھی کی برسی پر ہندوستا سفارت خانوں میں خصوصی تعزیتی اجلاس منعقد کیے جاتے ہیں۔جبکہ کسی ملک کے سربراہ کی نئی دہلی پر آمد پر اس سربراہ اور وفد کو گاندھی کی سمادھی ‘ راج گھاٹ’ لے جایا جاتا ہے۔مجھے ریسرچ کے دوران اس کا علم ہوا کہ بیرون ملک کئی یونیورسٹیوں میں گاندھی پر ریسرچ کی جاتی اور ریسرچ مراکز بھی ہیں۔
مہاتما گاندھی پر ایک دو نہیں بلکہ سی کڑوں کتابیں لکھی گئی ہیں، اچھی مہاتما گاندھی جنوبی افریقہ سے ہندوستان آئے بھی نہیں تھے کہ 1909 میں ایک انگریز نے ان پر کتاب لکھ دی تھی۔ان کاآزادی کے لیے عدم تشدد کی تحریک نے انہیں ملک ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پرانہیں تشہیر ملی تھی۔ اب یہ نریندر مودی کی مہاتما گاندھی کے بارے میں دروغ گوئی نے عجیب ماحول بنادیا ہے۔لیکن مودی تو زبان سے نکلنے والی بات سے پیداصورت حال کی جانب پلٹ کر نہیں دیکھتے ہیں۔اور نہ انہیں افسوس ہوتا ہے اور وہ معذرت بھی نہیں کرنا پسند کرتے ہیں،کیونکہ مودی اور شاہ غرور اورتکبرکے نشے میں ڈوبے ہوئے ہیں۔