مساجد کاسماج میں مرکزی کردار،مسجدوں کی تاریخ کی حفاظت دینی وملی فریضہ:انیس الرحمن قاسمی
ڈاکٹر محمد عالم قاسمی کی تازہ تصنیف ”پٹنہ کی مشہور مساجد“کی تقریب رونمائی سے علماء اوردانشوروں کا اظہارخیال
2 /جون پھلواری شریف/سیل رواں
آل انڈیا ملی کونسل بہار کے ریاستی دفتر پھلواری شریف پٹنہ میں آج ایک پر وقار تقریب ”پٹنہ کی مشہور مساجد“ نامی کتاب کے اجراء کی منعقد ہوئی، اس تقریب رونمائی کی صدارت آل انڈیا ملی کونسل کے قومی نائب مولانا انیس الرحمن قاسمی نے کی،تقریب کاآغازجناب حافظ عارف امام کی تلاوت قرآن سے ہوا، جب کہ نعت نبی مولاناارمان جامعی امام وخطیب جامع مسجد سیدپور،بیگوسرائے نے پیش کی، اس علمی تقریب میں شہر کے اہل علم حضرات نے بڑی تعدادمیں شرکت کی،”پٹنہ کی مشہور مساجد“ آل انڈیا ملی کونسل بہار کے جنرل سکریٹری مولانا محمد عالم قاسمی کی تازہ تصنیف ہے،جو ایجوکیشن پبلیشنگ پاؤس سے شائع ہوئی ہے،یہ کتاب پٹنہ شہر کی دو سو سے زائد مسجدوں کی نہ صرف تاریخ بتلاتی ہے، بلکہ مسجد کی شرعی احکام، سماجی حیثیت اوراسلام کی نظرمیں اس کی مرکزیت سے بھی متعارف کراتی ہے، اس تقریب اجراء سے خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا ملی کونسل کے قومی نائب صدر نے کہا کہ ایک امام کے قلم سے مساجدکی تاریخ مرتب ہونا خوش آئند بات ہے،مولانا محمد عالم قاسمی کی شخصیت اپنے اندر مختلف پہلؤوں کو سمیٹے ہوئی ہے، وہ اچھے خطیب،معتدل مزاج رکھنے والے عالم دین اوراچھے مصنف ہیں، علمی،تحقیقی کاموں کے ساتھ ساتھ سماجی کاموں میں بھی پیش پیش رہتے ہیں، انہوں نے خود کو مسجد کی چہاردیواری تک محصورنہیں رکھاہے، بلکہ مختلف میدانوں میں ملت کی قیادت حوصلہ کے ساتھ کرتے ہیں، ان کی یہ کتاب مسجد وں کے سلسلے میں اہل علم کو دعوتِ تحقیق دے گی اورنئے محققین اس سے روشنی لے کر مساجد کی تاریخ مرتب کرنے کوشش کریں گے۔ جن کی تاریخ ابھی پردہ راز میں ہے۔اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے آل انڈیا ملی کونسل بہار کے نائب صدر مولانا ابوالکلام شمسی قاسمی نے کہا کہ تصنیف وتالیف باذوق لوگوں کا کام ہے، اورایک مصنف اپنے ذوق کے مطابق اپنے افکار ونظریات کو قاری کے سامنے سجا کر پیش کرتا ہے، یہ ایک کٹھن مرحلہ اور دشوارکام ہے، جس کا صحیح اندازہ اسی شخص کوہوسکتا ہے،جس کا رشتہ قلم وقرطاس سے مضبوط ہوگا، میں اس کتاب کی تالیف پر مولاناڈاکٹر محمد عالم قاسمی کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں اوردعاکرتا ہوں کہ ان کا قلم اسی طرح خامہ فرسائی پیش کرتا رہے۔اس تقریب رونمائی کے موقع پر مولانا ڈاکٹر نوالسلام ندوی نے کتاب پر اپنا مقالہ پیش کیا،جسے حاضرین نے پسند کیا،ا نہوں نے کتاب کی تعریف بھی کی،اوربعض کمیوں کی طرف خوبصورت اندازمیں اشارہ بھی کیا، نیز انہوں نے ہندوستان میں مساجد کی تاریخ پر مختصراندازمیں روشنی ڈالی، مولانا نور السلام ندوی نے کہا کہ مولانا ڈاکٹر محمد عالم قاسمی نے بڑی عرق ریزی اورمحنت سے پٹنہ کی مشہورمساجد کی تاریخ مرتب کی ہے، کتاب دستاویزی اہمیت کی حامل ہے، مساجدِ اوقاف کے حوالے سے بھی ایک مفید کتاب ہے، ملت کے ہر طبقے کے لیے یکساں مفید ہے۔جب کہ ڈاکٹر سرور عالم ندوی نے مولانا محمد عالم قاسمی کو کتاب کی تصنیف پر مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا اسلام معاشرہ میں مسجد کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، اس لیے مسجدوں کی تاریخ سے واقفیت حاصل کرنا دین سے لگاؤ کی دلیل ہے، مولانا محمد عالم قاسمی کی کتاب نہ صرف مسجد کی تاریخ ہے، بلکہ دلوں میں مسجد کی محبت جاں گزیں کرنے کا ذریعہ ہے، مولانا قاسمی اس لیے بھی قابل مبارک باد ہیں کہ وہ طبقہ ائمہ علم وتحقیق کو رواج دینے اورانہیں راہ تحقیق میں آبلہ پائی کی دعوت دیتے رہتے ہیں۔ اللہ کرے کہ ان کی یہ کتاب ان کے لیے ذخیرہ آخرت ثابت ہو۔ جب کہ امارت شرعیہ بہار،اڈیشہ کے سابق صدر مفتی مولانا مفتی سہیل احمد قاسمی مصنف کتاب کو مبارک باد دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے صاحب کتاب کو علم وقلم سے وافردولت عطا کی ہے،میری دلی خواہش ہے کہ وہ اسی کتاب کے طرز پر پٹنہ کے تاریخی مقابر پر بھی دستاویزی کتاب تصنیف فرمائیں،اگر انہوں نے یہ کام کردیا تو علمی دنیا کے لیے بڑا کام ہوگا۔ملی کونسل بہار کے جوائنٹ جنرل سکریٹی مولانامحمد ابوالکلام شمسی نے مصنف کتاب کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ مولانا محمد عالم قاسمی کو اللہ تعالیٰ نے علم وتحقیق کا ستھرا ذوق عطا کیا ہے، ان کی بعض کتابیں اسکولوں میں داخل نصاب ہیں، ان کی ہر کتاب اہل علم اورعوام دونوں کے لیے یکساں مفیدہے، امید ہے کہ یہ کتاب بھی مصنف کی دوسری کتابوں کی طرح قبول حاصل کرے گی۔ جب کہ اس تقریب رونمائی کی نظامت کرتے ہوئے مفتی محمد نافع عارفی نے اپنی افتتاحی گفتگومیں کہا کہ دسیوں راتوں میں آنکھیں جلانے اورسنگ لاخ وادیوں میں آبلہ پائی کا حوصلہ رکھے افرادہی علم وتحقیق کے میدان میں قدم رکھے کی جسارت کرپاتے ہیں، کتاب کی تصنیف وتالیف وہ دشوارکام ہے،جس کے کرنے والے کو اکثر تنقیدکا سامنا کرنا پڑتا ہے،حتیٰ کہ عربوں میں یہ بات مشہور ہو گئی ”من صنف استھدف“جس نے کوئی تصنیف کی اسے ہدف ملامت ضرور بنایا جائے گا، لیکن یہ تجربہ بھی حقیقت بن کر سامنے آتا ہے ”من صنف عرف“ کہ تصنیف ذریعہ تعارف بنتی ہے، ایک مصنف کا کام شہد کی مکھی سے بھی زیادہ دشوار ہے،جو مختلف باغوں سے مختلف قسم کے پھول کارس چوس کر شہد بناتی ہے، ایسے ہی ایک مصنف ہزاروں صفحات کا عرق نچوڑ کر قاری کے سامنے شراب طہور بنا کر پیش کرتا ہے، مولاناعارفی نے مصنف کتاب کو ان کی اس تازہ تصنیف پر مبارک باد یتے ہوئے کہا کہ مسجد کی حفاظت،پھر اس حفاظت کی تاریخ کی حفاظت اسلامی تاریخ کا اہم ترین موضوع ہے، اوریہ کتاب اسے سلسلے کی ایک سنہری کڑی ہے، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس کتاب کا نفع عام اورتام ہو۔جب کہ ویشالی کے معروف عالم دین مولانا قمرعالم ندوی نے مولانا محمد عالم قاسمی کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے مولانا کو زبان وقلم کی جو نعمت عطافرمائی ہے اورجس طرح مولانا اس نعمت کا شکرانہ خدمت امامت،خطابت اورتصنیف سے اداکرر ہے ہیں،وہ قابل تقلید ہے۔
اس پر وقار علمی مجلس میں شہر اوربیرون شہر سے جن اہم علمی اورسماجی شخصیات نے شرکت کی ان میں مولانا محمد شہروزعالم قاسمی مبلغ دار العلوم دیوبند، محمد حسین،محمد شاہد اقبال روزنامہ انقلاب،سیف عالم قومی ترجمان یوا راجد، محمد صدرعالم ندوی،نوشادعالم،ڈاکٹر اقبال موسیٰ رحمانی، محمد رضوان،اختر حسین، مولانا محمد رفعت عثمانی، ،محمد امام الدین،اسراراحمد، مولانا محمد اختر حسین صاحب، شہیر اقبال،محمد اشفاق،مولانا سیدمحمد عادل فریدی،،مولانا فیضان قاسمی، مولانا رضاء اللہ قاسمی، مولانا نسیم اختر قاسمی، جناب نوشاد صاحب ، مولانا ابونصرہاشم ندوی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔