۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

قربانی کاجانوریاجانوروں کی قربانی

✍️ شاہد عادل قاسمی

______________________

قربانی کی آمد آمد ہے، انسان سے زیادہ بازار میں جانوروں کی بھیڑ ہے، مختلف بازاروں میں انواع و اقسام کے جانور اپنی بولی بڑی قیمتی اور بھلی سن رہے ہیں، سبھی دودانت اور چار ٹانگوں پر کھڑے ہیں، جانوروں کے گلے میں خوب صورت گھنگھرو بھی نہایت پرکیف اور جاذب نظر ہیں،سبھی صاحب جانور اپنے جانوروں کی خوبیاں بتانے اور بگھاڑنے میں  رطب اللسان ہیں، یہ جاموس اسود ہے،گجراتی نسل ہے،مسالا اور تیل کی ضرورت نہیں پڑے گی،یہ دیسی بکرا ہے،چڑبولا اور کافی تلذذ بخش ہے جیسا فقرہ آج کی جانور منڈی کی خاص بولی ہے،اکثروبیشتر خریدار بھی مکمل شرعی گائیڈ لائن پر چلنے والے ہیں، گوشت زیادہ ہو،مال حسین وجمیل ہو،رنگ ایک اور پرکشش ہو،قدکاٹھی بھی مانند ہاتھی یا شیر ہو ،جیسی خواہشوں کی تکمیل میں گرد اڑا رہا ہے،صاحب ثروت کی جیب بھاری ہے،صاحب استطاعت کا منشاء بلند ہے،کچھ میں اخلاص،کچھ میں خلوص،کچھ میں انا ،کچھ میں بڑائ کی ٹھاٹھیں مارتی موجیں ہیں تو کچھ متوسط جیب کے مالکان بھی شریک بازارہیں، جو کبھی اپنی جیب سے سرگوشی کرتے ہیں تو کبھی جانور کے پشت پر ہاتھ رکھ کر اپنی حیثیت کو ٹٹولتے ہیں،جانور کا بازار کہوں یا قربانی کی منڈی بڑی عجیب کہانی ہے اس ازدحامی مارکیٹ کی،ایک گروہ بھی اس بھیڑ کا حصہ ہے،جو مکمل سفید پوش ہے،شرعی لباس،شرعی وضع قطع کا جتھہ ہے،عشرہ سے کم لوگ ایک ساتھ چل رہے ہیں،بلند جسامت  اور من پسند جانوروں سے نظرین ایسے بچا رہے ہیں جیسے مور ناچتے وقت اپنی ٹانگوں سے نظریں چھپاتی ہیں،اس گروہ کی تلاش کمزور، نحیف، ضعیف، لاغر اور مریل جانوروں کی طرف زیادہ مائل تھی،اس بدذوقی پر تھو تھو کرنے کا من میرا خوب جگا اور جاکر میں نے ماجرے کا ماجرا دیکھا،بازار حیوان کے غالبا سبھی بے چارہ جانور منٹوں میں سماپت ہوگیا ہے اور سبھوں کی بھیڑ ایک جگہ اکٹھا ہوگئی، سارے خوب صورت جانور آج اپنی خوب صورتی پر شاید بارگاہ حیوان میں شکوہ کناں ہوۓ،مجھے ہی نہیں منڈی میں موجود سبھی ناظرین کو سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ یہ ملت کے رہبر ہیں جو کسی اصحاب خیر کی خیریت کو سستے داموں میں بڑی ڈھٹائ سے بیچ رہے ہیں،جو ملت کے رہبر کمُ اور سوداگر زیادہ محسوس ہورہے ہیں،جو خود کہتے ہیں کہ اللہ تعالی کو جانوروں کے گوشت اور خون نہیں مطلوب بل کہ ان کو تقویٰ مطلوب ہے(القران) آج وہی تقویٰ کو جانوروں کی منڈی میں سر عام فروخت کررہے ہیں ،جو خود کہتے ہیں کہ جو اپنے لئے پسند کرو وہی دوسروں کے لئے بھی پسند کرو(القران) آج وہی مفسر قرآن  خوداس کی خلاف ورزی کررہے ہیں، جو کہتے ہیں “کہ اچھے جانوروں کی قربانی دیا کرو”بے عیب جانوروں کی قربانی مت دیا کرو”(الحدیث) آج وہی مریل اور لاغر جانوروں کو اکٹھا کررہے ہیں،قول وعمل میں تضاد پر پابندی لگانے والے آج خود اپنے قول اور عمل کو عملی تضاد سے روسناش کرا رہے ہیں، قربانی کے جانوروں کو پہلے خریدنے کی تاکید حدیث سے ہے،قربانی کے جانوروں سے محبت کا تقاضہ حدیث سے ثابت ہے،قربانی کے جانوروں سے اتنی انسیت کہ ان کا گوشت بھی گھرانہ پسند نہیں کرتا سابقہ روایات (رواج)سے ثابت ہیں ،ڈھیر دنوں تک  قربانی کے جانوروں کی خوبیوں کا تذکرہ ہونا عام گھروں کی بات رہی ہے اس کے باوجود آج کا معاشرہ “چٹ منگنی پٹ بیاہ “کے رواج پر زیادہ عمل پیرا ہے، ہر کوئ ہفتہ عشرہ یا اس سے بھی کمُ دنوں قربانی کے جانوروں کو خریدنا چاہتا ہے،ہر کوئ جانور کے رکھنے اور کھانے پینے کے انتظام سے قاصر نظر آرہا ہے،ہردن کئ کئی انسانوں کو بکرا بنانے والا آج ایک بکرے کی ایک دوروز کے قیام کو قیامت سمجھ رہا ہے ، جب کہ قربانی کے جانوروں کو قربانی کے دنوں سے پیشتر خریدنا اسلامی تعلیمات ہے،سنت ابراہیمی کی ادائیگی سبھوں کی اولیت  پسند ہے مگر آداب ابراہیمی بجالانے کی شاید باید ہی کسی کی تمنا ہے، صاحب نصاب اپنے نصاب پر عمل پیرا ہیں، کچھ ایسے بھی ہیں جنھیں تحقیق مطلوب ہے اور نہ ہی کوئ تفتیش ،جب کہ زکوۂ کی ادائیگی کے لئے تحقیق لازمی ہے،زکوہ لائق اور ضرورت مند تک پہنچے، صاحب زکوہ کے لئے ضروری ہے، زکوہ مصرف تک پہنچے صاحب زکوہ کے لئے سعی ضروری ہے، یہی فرمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہے۔ مگر افسوس کچھ صاحب نصاب ایسے ہیں جو اونے پونے لوگ اور اول جھول جگہوں میں بھیج دیتے ہیں، اللہ نے آپ کو مالدار بنایا ہے،صاحب نصاب بنایا ہے،دولت جیسی نعمت سے سرفراز کیا ہے ،اس کا استعمال صحیح جگہ ہو،یہ حاجت مندوں تک پہنچے، یہ آپ کی ذمہ داری اور جواب دہی ہے ،بعینہ آپ قربانی کے جانوروں کو تقسیم کرنے میں بھی ذمہ داری کو ایمان داری سے نبھائیے، غیروں کو قربانی کے جانوروں کی خریداری کے لیے پیسے دے کر کسی غریب کا مذاق نہیں بنائیے، سات سو کا ایک حصہ،سات ہزار کا ایک جانور،پانچ ہزار کا ایک جانور آج کی مہنگائ میں مشکل ہی نہیں ناممکن سی ہے، کچھ سوداگر آج کی منڈی  میں پاکیزہ ڈریس پر سفید بنڈی لگاۓ یہی کام کررہے ہیں ،کچھ سے کچھ،کچھ کا کچھ نظارہ سے یہی محسوس ہوا کہُ قربانی کے جانوروں کی خریداری  کم ہورہی ہے جب کہ جانوروں کو یوں ہی ضرور قربان کیا جارہا ہے جس میں تقویٰ چھپا ہواہے اور نہ ہی گوشت پوست زیادہ جھلک رہا ہے،جس سے نقصان کھانے اور کھلانے والے دونوں  کا بھی ہے۔ اس لیے ہمیں چاہئیے کہ ہمُ مصروف  ترین دنیا میں مصروف رہ کر خوشنودی الہی اور رضاۓ مولی کے لیے بھی ضرور کوشاں اور مصروف رہیں۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: