مسلمانوں کی سوچ اور مسلمانوں کا ووٹ!!
✍️ جاوید اختر بھارتی
محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی
___________________
ہندوستان ایک عظیم الشان ملک ہے، جمہوری نظام قائم ہے، یہ ملک کل مذہبی، کل مسلکی، کل ذات برادری کا سنگم ہے۔ کہیں مندر میں گھنٹہ بجتا ہے تو کہیں مسجد میں اذان کے کلمات بلند ہوتے ہیں ، کہیں گرجا گھروں میں عبادت ہوتی ہے تو کہیں گردواروں میں گرونانک کی تعلیم دی جاتی ہے ،، سب لوگ الیکشن بھی لڑتے ہیں اور سب لوگ ووٹ بھی دیتے ہیں ،، سب کی سوچ کا دائرہ وسیع ہوتا جارہا ہے۔ لیکن مسلمانوں کی سوچ کا دائرہ چھوٹا ہوتا جارہا ہے،، ملک میں چھوٹے بڑے ہر سماج کے اندر سیاسی بیداری آگئی، حصہ داری مانگنے لگے اور حصہ داری ملنے بھی لگی۔ 2024 کے پارلیمانی الیکشن کی گہماگہمی ختم ہوگئی، ساتوں مرحلے کی پولنگ مکمل ہوئی ، گنتی شروع بھی ہوئی اور اختتام پذیر بھی ہوئی، نتائج بھی آگئے۔ انڈیا اتحاد جہاں ڈھائی سو سیٹ بھی حاصل نہیں کرسکا وہیں بی جے پی اکیلے 240 سیٹ حاصل کرکے سب سے بڑی پارٹی بن کر ایک بار پھر ابھری اور مرکز میں حکومت بھی بنالی۔
چھ ہفتوں میں سات مراحل کے ساتھ اختتام پذیر ہونے والے 2024 کے پارلیمانی الیکشن پر نظر دوڑائیں تو سب سے بے وقوف قوم مسلمان نظر آئی۔ جس کا کوئی لیڈر نہیں اور کوئی پارٹی نہیں، آسام سے ایک پارٹی تھی تو وہ بھی اس الیکشن میں بجھ گئی، اس کے لیڈر ریکارڈ توڑ ووٹوں سے بدترین شکست کے شکار ہوئے۔ دوسری پارٹی مجلس اتحاد المسلمین جس کے لیڈر اسدالدین اویسی کامیاب ہوئے۔ اویسی صاحب بھی قوم کو سیاسی طور پر بیدار کرنے کی بہت کوشش کرتے ہیں، مگر قوم مسلم ہے کہ بیدار بھی نہیں ہوتی اور نہیں تو ان کے اوپر بی جے پی کا ایجنٹ ہونے کا الزام بھی لگاتی ہے۔ اس سلسلےمیں راقم السطور کی ایک سماجی رہنما سے ملاقات ہوئی تو تبادلۂ خیال میں یہ بات سامنے آئی کہ ملک میں کوئی سیاسی پارٹی ایسی نہیں ہے جو ہندو مذہب کے نام پر ہو۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ اس کا ایجنڈا ہندوتوا پر مبنی ہو اور وہ کسی مذہب کو بڑھاوا دے۔ لیکن پارٹی کا نام مذہبی بنیاد پر نہیں ہوتا۔ںدوسری طرف مسلم پارٹی کا نام ہی کچھ ایسا ہوتاہے اور لیڈروں کی ایسی جذباتی تقریریں ہوتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ سیاسی بیداری کے اعتبار سے ایک طرف ہندو مذہب کی برادریوں کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف صرف مسلمانوں کی بات کرتے ہیں۔ حالانکہ جیسے ہندوؤں میں ذات برادری ہے ویسے ہی مسلمانوں میں بھی ذات برادری ہے۔ لیکن سچائی کا سامنا نہ کرنے کی وجہ سے اور ٹال مٹول والی باتوں کی وجہ سے ہی ایجنٹ ہونے کا الزام لگتا ہے۔ مثلاً ایک طرف یادو، کرمی، چوہان، پرجاپتی، لوہار، کمہار، راجبھر وغیرہ کا نام اور ان کی بات تو دوسری طرف مسلمانوں کی بات جبکہ مسلمانوں میں بھی انصاری ، منصوری، قریشی، راعین، سلمانی، ادریسی، دفالی وغیرہ نام سے بہت سی برادریاں ہیں تو پھر کیوں اندھیرے میں رکھا جاتاہے۔ ہندوؤں میں بھی بیک ورڈ فارورڈ ہیں اور مسلمانوں میں بھی بیک ورڈ فارورڈ ہیں تو یہ ٹال مٹول اور جھوٹ کا سہارا لینے والی بات نہیں ہے کہ ایک طرف ہم ہندوؤں کی برادریوں کی آبادی اور تناسب کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف مسلمانوں کی برادریوں کو چھپا کر صرف مسلمانوں کی آبادی اور تناسب کی بات کرتے ہیں۔ یہ حقائق پر پردہ ڈالنا نہیں تو اور کیا ہے، مسلمان ہوکر خود مسلمانوں کو دھوکا دینا نہیں تو اور کیا ہے ،، اسے بھی مسلمانوں کی چھوٹی سوچ کہا جاسکتاہے ،،۔
آئیے! مسلمانوں کی سوچ کی ہی بات کرتے ہیں جب تک الیکشن کا ماحول تھا تو جہاں ہر سماج کا اپنا کوئی نہ کوئی ایجنڈا تھا مگر مسلمانوں کا اور مسلمانوں کی ہر برادری کا صرف ایک ایجنڈا تھا کہ بی جے پی کو ہرانا ہے اور یہی ایجنڈا وی پی سنگھ کی حکومت گرنے کے بعد سے اب تک چلا آرہاہے یوں لگتا ہے کہ بی جے پی کو ہرانا مسلمانوں کا ٹھیکہ اور ذمہ داری ہے ،، یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں جب مسلمانوں کے بیچ جاتی ہیں تو وہ ان کو بی جے پی سے ڈراتی ہیں جس کے نتیجے میں اترپردیش کا مسلمان تو ایسے ووٹنگ کرتاہے کہ یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ بی جے پی سے خوفزدہ بھی ہے اور ووٹ کی اہمیت سے ناواقف بھی ہے ،، سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں مسلمانوں کی سوچ کب تبدیل ہوگی جبکہ 1989 کے بعد سے ملک میں تمام چھوٹے چھوٹے سماج و طبقے اس قدر سیاسی طور پر بیدار ہوگئے کہ تمام سیاسی پارٹیاں انہیں حصہ داری دینے کے لئے مجبور ہیں اور مسلمان ہے کہ دری بچھاکر خوش ، نعرہ لگاکر خوش، صبح سے شام تک پرچار گاڑی پر گھوم کر چند روپئے مل جانے پر خوش، بی جے پی کو اکثریت نہ ملنے پر خوش ، نتیش کمار اور چندرا بابو نائیڈو سے این ڈی اے چھوڑنے کی امید رکھ کر خوش ،، اس وقت چائے خانوں میں چائے کی چسکیاں لے کر این ڈی اے حکومت کب تک چلے گی اس کی پیشین گوئی کرکے خوش ہورہاہے اور اتنا خوشی ظاہر کررہا ہے کہ یوں لگتا ہے کہ بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت چالیس دن بھی نہیں چلے گی لیکن اپنی پہچان بنانے کی اور اپنی قیادت پیدا کرنے کی یا موجودہ مسلم لیڈران کی قیادت کو تسلیم کرنے کی اور مضبوط کرنے کی ذرہ برابر فکر نہیں ،، جبکہ ضروری ہے اور وقت کی پکار ہے کہ قوم مسلم اپنے سینے میں خود قوم مسلم کا درود پیدا کرے اور مسلم قیادت کو مضبوط کرے تاکہ اس جمہوری ملک میں مسلمانوں کا بھی ٹھوس سیاسی لائحہ عمل ہو اور مستقبل روشن ہو ،، سیاسی حکمت عملی و لائحہ عمل نہ ہونے کے نتیجے میں بدرالدین اجمل ، امتیاز جلیل، یعقوب انصاری وغیرہ الیکشن ہار گئے اور جو مسلم ممبران پارلیمینٹ جیتے ہیں وہ خود مختار نہیں ہیں ان کے اوپر پارٹی کا باؤنڈیشن ہے پارٹی کی جو گائڈ لائن اسی کے مطابق انہیں کام کرنا ہے ورنہ پارٹی خود ان کے پر کتر دے گی اور ماضی میں یہ سب کچھ دیکھا جا چکاہے ،، ایک الیکشن سے دوسرے الیکشن کا درمیانی وقت بہت قیمتی ہوتا ہے اور ان وقتوں میں مسلم لیڈران و مسلم سیاسی پارٹیاں خاموش ہوجاتی ہیں جبکہ یہی موقع ہوتاہے کہ وہ زمینی سطح پر کام کریں چھوٹی بڑی آبادی میں پہنچ کر ووٹوں کی طاقت و اہمیت کو سمجھائیں اور مسلم سیاسی شناخت قائم کرنے کی مہم چلائیں، چھوٹے چھوٹے سماج جو سیاسی طورپر بیدار ہوگئے ان کا حوالہ دیں ان کی مثالیں دیں ملک کے آئین نے ہر ہندوستانی کو جو حق دیا ہے اسے بتائیں سیاست سے قریبی اور دوری کے جو فوائد اور نقصانات ہیں اس سے آگاہ کریں تو ضرور ایک کامیاب راہ ہموار ہوگی سیاسی کھیت میں فصل تیار ہوگی یاد رہے کہ صرف نتیش و نائیڈو سے حکومت گرانے کی امید سے بھلا ہونے والا نہیں اور بغیر کوئی سمجھوتہ و معاہدہ کے آنکھیں بند کرکے ووٹ دینے سے بھلا ہونے والا نہیں۔