Slide
Slide
Slide

بھٹکاؤ اور فرقہ پرستی کی سیاست اور مسلم اقلیت

✍️ مولانا عبد الحمید نعمانی

بھارت میں کئی طرح کے مسائل ہیں، جن کی زد میں دلت، آدی واسی، محنت کش طبقات ،اقلیتیں اور ان میں سے خاص طور سے مسلم اقلیت ہے، مسلم اقلیت کے متعلق منفی خیالات کا اظہار، ضرورت سے زیادہ ہی کیا جاتا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مسلم اقلیت کی کچھ بے شعوراور دکھاوے کی نام نہاد تعداد کے سوا وہ پوری طرح نظریاتی بنیاد پر مضبوطی سے اپنے موقف پر قائم ہے، اس نے تمام انتخابات میں جمہوریت، سیکولر ازم، قومی اتحاد کے حق میں اور فرقہ پرستی کی مخالفت میں ہمیشہ سماج مخالف عناصر کے خلاف ووٹنگ کی ہے، اس کا، اصولی طور سے فرقہ پرستی اور فرقہ پرستوں کے خلاف مزاحمت و مخالفت کا موقف بالکل واضح رہا ہے، بی جے پی کے نتن گڈ کری جیسے کچھ لیڈروں کو اگر کچھ مسلمانوں کا ووٹ کچھ انتخابی حلقوں میں ملتا ہے تو وہ یکساں نوعیت کے علاقائی، مقامی مسائل کی بنیاد پر ہوتے ہیں یا ذاتی، شخصی خوبیوں اور کاموں کی وجہ سے، نہ کہ پارٹی کے عمومی رویے و نظریے کے سبب، مسلم اقلیت کے سامنے عموما ہمیشہ نظریہ اور اچھا کام ہوتا ہے، اس کے پیش نظر فوائد بہت کم ہوتے ہیں، اسے اکثر سماجی، تہذیبی، اقتصادی حملے اور مذہبی و ملی شناخت ختم کرنے کی کوششوں کا سامنا رہتا ہے، جب کہ دیگر طبقات، دلت، آدی واسی، محنت کش،او بی سی وغیرہ کے سامنے بھی کچھ مسائل و مشکلات ہیں، تاہم مسلم اقلیت کی بہ نسبت ان کے مسائل و مشکلات کم اور کئی لحاظ و جہات سے الگ ہیں، مسلم اقلیت کی طرح ان کے سامنے تہذیبی و نظریاتی اور مذہبی و ملی شناخت کے تحفظ و بقا جیسے مسائل نہیں کے برابر ہیں، اس لیے دلتوں، آدی واسیوں اور او بی سی طبقات کی بڑی تعداد، بی جے پی وغیرہ کی فرقہ پرستی کے باوجود، اس کے امید وارں کے ساتھ جانے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتی ہے، ایسی حالت میں ان کے لیڈروں کو مسلمانوں کے بجائے دلتوں، آدی واسیوں اور او بی سی وغیرہ پر توجہ دے کر فرقہ پرستی کی طرف جانے سے روکنے پر کام کرنا چاہیے، ان ہی کی طرح مبینہ سیکولر، بی جے پی مخالف پارٹیوں کے سامنے بھی اقتدار میں بنے رہنے اور سیاسی تفوق کے سوا دیگر کوئی زیادہ مسائل نہیں ہیں، ان کے پیش نظر بھی زیادہ تر ہندو اکثریتی سماج کے رائے دہندگان ہیں، وہ اب بھی واضح الفاظ میں اقلیتوں خصوصا مسلم اقلیت کا نام، ضروری مواقع پر بھی لینے سے گریز کرتی نظر آتی ہیں، چندر شیکھر آزاد جیسوں کی بات الگ ہے، لیکن یہ بہت محدود دائرے میں ہے، اس کا مطلب صاف ہے کہ سیکولر سمجھی جانے والی پارٹیاں بھی آر ایس ایس، بی جے پی اور دیگر ہندوتو وادی عناصر کے بنائے چکر ویوہ اور بند گلیوں سے نکلنے کی ہمت و جرأت نہیں کر پا رہی ہیں، یہ صورت حال کانگریس کے لیے خاص طور سے لمحہ فکریہ اور تھوڑی ہمت و جرأت طلب ہے، جب تک ایسا نہیں کیا جائے گا تب تک آچاریہ پرمود کرشنم، گورو بلب، ہمنت بسوا شرما، لولی سنگھ، نوین جندل وغیرہم جیسے سیکڑوں موقع پرستوں کا سامنا رہے گا، کرشنم بلبھ جیسے لوگوں کو کیا اتنی چھوٹی سی بات معلوم نہیں ہے کہ رام مخالف اور آر ایس ایس اور بی جے پی کے بنائے رام مندر پران پرتشٹھا پروگرام میں شرکت میں کیا فرق ہے، موجودہ حالات میں گانگریس کو تھوڑی ہمت و جرأت سے کام لینا ہوگا، اس کے سامنے گاندھی، نہرو، آزاد رح کے مشکل حالات میں، تمام تر مخالفتوں کے کے باوجود فیصلہ کن و موثر گفتار و کردار اور دوررس اثرات والے اقدامات کے نمونے موجود ہیں، دلت تحریکات سے وابستہ افراد کے سامنے بھی بودھ، جیوتی با پھولے، ڈاکٹر امبیڈکر، پیری یار، جگ دیو بابو، للئی رام، کرپوری ٹھاکر، کانشی رام، وغیرہم کے اپنے طریق کارونظریات سے سمجھوتا نہ کرکے، حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی پوری تاریخ اور روڈ میپس ہیں، بعد کے دنوں کے دلت لیڈروں نے اقتدار میں شمولیت کی خاطر نظریات کو ترک کر دیا ، اس کی واضح مثال، سینگول کے متعلق، جیتن رام مانجھی، چراغ پاسوان وغیرہ دلت لیڈروں کا ہندوتو وادی عناصر کے ساتھ کھڑا ہو جانا ہے، اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ مایاوتی، رام ولاس پاسوان، رام داس اٹھاولے، چراغ پاسوان وغیرہم نے دلت تحریکات کی نظریاتی و سماجی بنیادوں کو کمزور بلکہ ختم کرنے کا کام کیا ہے، وہ کسی نہ کسی جہت سے نظریے سے سمجھوتا کر کے مادی فوائد اور اقتدار کو اہمیت و ترجیح دے کر دلت تحریکات کے رخ کو غلط سمت میں موڑنے کا کام کرتے رہے ہیں، ان کی غلط اور نقصان دہ ترجیحات کو دیکھتے ہوئے ہندوتو وادی پارٹیوں نے ان کو اپنے عزائم و مقاصد کی تکمیل کے لیے بھر پور طریقے سے استعمال کیا ہے، ایسی حالت میں خود اختیار کردہ راستے پر چلنے کے نتیجے میں ہونے والی ناکامیوں کی ذمہ داری مسلم اقلیت پر ڈال کر خود کو تسکین دینے کا سامان بہم پہنچاتے رہتے ہیں، ابتدائی دنوں میں بہوجن سماج پارٹی نے برہمن، کشتری، ویش سے دلتوں کو آمنے سامنے کر کے ایک الگ طرح کی سیاست کو فروغ دیا، ان کی صف بندی کے تحت کامیابی کا سفر شروع کیا، تلک، ترازو اور تلوار الخ کے نعرے سے ایک مخصوص قسم کا پیغام سماج میں دینے کا کام کیا ،گرچہ برہمن اور برہمن واد میں فرق کرنے کی ضرورت ہے تاہم اکثریتی سماج کے اشرافی طبقات کی طرف سے دلتوں، اقلیتوں کے ساتھ ظلم و زیادتی اور کھلی ناانصافی کو دیکھتے ہوئے مسلم اقلیت کی ایک موثر تعداد، دلتوں کے ساتھ ووٹنگ کرنے لگی، اس کے نتیجے میں اتر پردیش میں بسپا کئی بار بر سر اقتدار آئی لیکن گزرتے دنوں کے ساتھ پارٹی صدر مایاوتی، پارٹی کی کامیابی کو بر قرار نہیں رکھ سکیں، ان میں بھی برہمن وادی اہنکار، خود پسندی، خود آرائی کے ساتھ دولت بنانے از حد للک پیدا ہو گئی، وہ خود کو پارٹی کے لوگوں سے دور کر کے برہمن وادی عناصر کے زیر اثر آتی چلی گئیں، ہاتھی نہیں، گنیش ہے، کے نعرے کے ذریعے برہمن وادی علامتوں کا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال شروع کر دیا، جب کہ ڈاکٹر امبیڈکر نے 22/ پرتگیہ( عہد)میں برہمن وادی علائم سے خود کو پوری طرح الگ کر لیا ہے، مایاوتی کے قریبی برہمن وادی عناصر نے مایاوتی کے ہاتھوں میں ترشول پکڑا دیا، ظاہر ہے کہ یہ جارحانہ گرم ہندوتو کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا تھا، ساتھ ہی دلت بھی انتشار اور بھٹکاؤ کی زد میں آ گئے، اس کا نتیجہ زوال کی شکل میں برآمد ہوا، آج یہ حالت ہے کہ چار سو کے قریب سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کرنے کے باوجود 18ویں لوک سبھا میں بہوجن سماج پارٹی کا ایک بھی رکن نہیں ہے، اس پر پارٹی صدر ، خود کا احتساب اور دلتوں کی ذہنی و عملی تبدیلی پر حقیقت پسندی سے توجہ دینے کے بجائے مسلم اقلیت کو اپنی ناگفتہ بہ حالت اور ناکامی کے لیے ذمہ دار قرار دیتی رہتی ہیں، دیگر پارٹیوں، متحدہ جنتا دل کے کچھ لیڈروں اور بی جے پی کی طرف سے بھی کھلے عام مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ وہ سناتن کو کمزور کرنے کے لیے ہمیں ووٹ نہیں دیتے ہیں، اس بہانے ان کو دھمکیاں دی جاتی ہیں، گری راج سنگھ اور آسام کے وزیر اعلی ہیمنت بسوا شرما وغیرہ جس زبان کا استعمال کر رہے ہیں وہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو تباہ کرنے والی اور پوری طرح غیر آئینی بھی ہے، اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کسی بھی موثر قدم اٹھانے سے پوری طرح گریزاں ہے، جب کہ اس طرح کی اشتعال انگیزی ،پوری طرح غیر آئینی اور جمہوریت کے حق کے تحت ملی آئینی و شہری آزادی کے خلاف اور جمہوری نظام کے تحت انتخاب کے حق آزادی کا قتل ہے، ہمنت بسوا شرما اور مرکزی وزیر گری راج سنگھ وغیرہ نے جس طرح مسلمانوں کی رائے دہندگی کے حق کو بی جے پی کے امیدواروں کو ووٹ نہ دینے سے جوڑ کر پیش کیا ہے وہ ان کی جارحانہ فرقہ پرستی اور مسلمانوں کے خلاف، ہندو اکثریت میں نفرت و تشدد پھیلانے کی مذموم کوششوں کا حصہ ہے، بی جے پی کے دیگر کچھ لیڈروں کی طرف سے بھی غریب عوام کو پانچ کلو اناج دینے اور سرکاری اسکیموں سے فائدہ اٹھانے کے عوض بی جے پی کو ووٹ دینے سے منسلک کر کے پیش کیا جاتا ہے وہ ملک کے شہریوں اور رائے دہندگان کی کھلی توہین اور سامنت وادی اور استحصالی زمین دارانہ نظام کا وحشیانہ اظہار ہے، اس کا مطلب بالکل واضح ہے کہ وہ سرکاری املاک اور قومی دولت کو اپنی ذاتی ملکیت اور عوام کو بندھوا مزدور سمجھتے ہیں، سینگول کی حمایت میں بھی یہ ذہنیت کار فرما نظر آتی ہے، وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ قدیم نظام یتھا راجا تتھا پرجا(جہاں راجا وہاں رعایا ) بدل چکا ہے، اجودھیا میں بی جے پی امیدوار کی ہار کے بعد وہاں کے باشندوں کے متعلق جس طرح کی جارحانہ آراء کا اظہار کیا جا رہا ہے، اس سے لگتا ہے کہ حکمراں طبقے کی ذہنیت پوری طرح خراب ہو گئی ہے، کہا جا رہا ہے کہ اجودھیا واسیوں نے سرکار کی طرف سے کیے جا رہے ترقیاتی کاموں اور رام مندر کی تعمیر کے عظیم الشان کام کو نظرانداز اور غیر بی جے پی امیدوار کو کامیاب کر کے پورے ملک اور پوری دنیا میں سناتن اور ہندوتو کو ختم کرنے کا راستہ ہموار اور بی جے پی کو خوار و بے وقار کیا ہے، اسی طرح کی باتیں مسلمانوں کے متعلق بھی کہی جا رہی ہیں کئی چینلز اس تعلق سے مختلف عنوانات سے پروگرام بھی چلا رہے ہیں، ایک پروگرام میں ظفر شریش والا، نریندر مودی سے تعلق کی وجہ سے مسلمانوں کی ووٹنگ سے متعلق اصل بات نہیں کہہ سکے، اصل بات یہ ہے کہ اگر مسلمان دیگر سیکولر پارٹیوں کی طرح بی جے پی کے امیدواروں کو ووٹ نہیں دیتے ہیں تو اس کے لیے مسلمان نہیں بلکہ بی جے پی کے ،مودی، یوگی، ساہ، گری راج سنگھ، اے راجا، ہیمنت بسوا شرما جیسے لیڈرذمہ دار ہیں ، ان کی طرف سے انتخابات کے دوران میں سرکاری اسکیموں اور اپنی حصولیابیوں کی باتیں کرنے کے بجائے کھلے عام جارحیت پر مبنی فرقہ وارانہ اور نفرت انگیز بیانات و خطابات ہوتے ہیں، ان کے باوجود بی جے پی کے امیدوار کو ووٹ دینے کا مطلب یہ ہوگا کہ مسلمانوں میں عزت نفس اور غیرت نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہ گئی ہے،بہت سے عمومی سرکاری اسکیموں کا فائدہ مسلمانوں کو بھی ملتا ہے، یہ عام دنوں کی معمول کی اسکیموں کا معاملہ ہے، لیکن انتخابات خصوصا لوک سبھا اور اسمبلیوں کے انتخابات کے مواقع پر چھوٹے بڑے اجلاسوں میں بی جے پی کے چھوٹے بڑے لیڈروں کے خطابات مسلمانوں کے خلاف اور ان کے ارد گرد ہی ہوتے ہیں، ایسی حالت میں عام دنوں کے عمومی فلاحی پروگراموں اور اسکیموں سے تھوڑے بہت استفادے کی بات، آنکھوں سے اوجھل اور بےمعنی ہو کر رہ جاتی ہے، رہی سہی کسر، بلڈوزر، موب لنچنگ، فرقہ وارانہ فسادات، مسلم ماثر و معابد کے خلاف جاری سرگرمیاں پوری کر دیتی ہیں، انتخابات میں مفید سرکاری کاموں اور فلاحی پروگراموں کی باتیں بذات خود پارٹی لیڈر بھی نہیں کرتے ہیں، ایسی حالت میں عمومی سرکاری فلاحی اسکیموں سے استفادہ اور انتخابات سے ووٹ دینے کے عمل کو منسلک کرنا قطعی بے معنی اور بے میل ہے، سرکاری اسکیموں اور ووٹ دینے کے درمیان تال میل بٹھانا پارٹی کے لیڈروں کی ذمہ داری ہے نہ مسلم رائے دہندگان کی، مسلمانوں کے رویے و روش کی تبدیلی، آر ایس ایس اور بی جے پی کے رویے و روش کی بہتر تبدیلی پر موقوف و منحصر ہے، بہوجن سماج پارٹی وغیرہ کے امیدواروں کو ووٹ دینے کی بنیاد بھی، اس کے صحیح طریق کار اور قابل قبول فکر و رویے پر مبنی ہے نہ کہ مسلمانوں کے رویے و روش پر، یہ طے ہے کہ مسلمان، بھٹکاؤ اور فرقہ پرستی کے راستے پر عمدا نہیں جا سکتے ہیں۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: