اب کہاں ڈھونڈھنے جاؤ گے ہمارے قاتل
اب کہاں ڈھونڈھنے جاؤ گے ہمارے قاتل

بھارت کے اس تکثیری سماج کو کبھی دنیا کے لیئے ایک نمونے کے طور پر پیش کیا جاتا تھا یہاں کی جمہوریت قانون اور دستور کی دنیا مثالیں پیش کرتی تھی لیکن اب وہ ملک کے کسی بھی حصہ میں نظر نہیں آرہی ہے اگر کسی کو نظر آبھی رہی ہے تو صرف اوراق کے دامن پر جو قوانین جو باتیں پڑھنے لکھنے تک اچھی لگتی ہیں اتنی ہی خوب صورت عملی میدان میں بھی نظر آنی چاہیئے ورنہ خواب تو سجانے سے دور ہوجائیں گے بلکہ جو پایا وہ بھی کھوتے رہیں گے اس وطن عزیز کو ہمارے آبا و اجداد نے جس خون جگر سے سینچا ہے وہ کوئی معمولی قربانیاں نہیں تھی لیکن آج کے اس نئے بھارت میں ان قربانیوں کا صلہ ظلم، عدم رواداری،مذہبی تفریق کی شکل میں ملک کے گوشے گوشے میں دستیاب ہے

شکر گزاری کا فلسفہ
شکر گزاری کا فلسفہ

آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ معمولی پریشانیوں یا مسائل پر فوراً ناشکری کرنے لگتے ہیں اور اللہ کی عطا کردہ بڑی نعمتوں کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ مثلاً کسی کو ذرا سا مالی نقصان ہو جائے تو وہ اللہ کے رزق کو بھول کر شکایت کرنے لگتا ہے، حالانکہ اس کے پاس صحت، گھر اور خاندان جیسی بےشمار نعمتیں موجود ہیں۔ اسی طرح، اگر موسم کسی کے حق میں نہ ہو، جیسے گرمی یا سردی کی شدت، تو لوگ فوراً شکایت کرنے لگتے ہیں، یہ بھول کر کہ اللہ نے ہمیں لباس، رہائش، اور زندگی کی دیگر سہولتوں سے نوازا ہے۔

تنہا سفر کی ممانعت
تنہا سفر کی ممانعت

حالات بدل چکے ہیں، نقل و حمل کے ذرائع ترقی پذیر بلکہ ترقی یافتہ ہو چکے ہیں، انسان کئی کئی دنوں کا سفر اب گھنٹوں میں کر لیتا ہے اور گھنٹوں کا سفر منٹوں میں کر رہا ہے ، سہولتوں کی فراوانی چاروں طرف نظر اتی ہے لیکن اس کے باوجود قول نبی برحق ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بجا ہے اپ کی دوراندیشانہ گفتگو اور اپ کی زبان فیض ترجمان سے نکلے ہوئے الفاظ و کلمات خدائے رحمان و رحیم کی منشا و مراد کے مطابق ہوتے ہیں چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے

تازہ ترین پوسٹ

تعارف و تبصرہ

"خانوادۂ ہدیٰ کے لعل و گہر” :تعارف و تأثر

زیر نظر کتاب " خانوادۂ ہدیٰ کے لعل و گہر" مولانا مظاہر حسین عماد عاقب قاسمی استاد جامعہ اسلامیہ شانتا...
Read More
شخصیات

جامعہ اشرفیہ مبارک پور کی بنیاد میں اعلی حضرت اشرفی میاں کا حصہ

یہ ادارہ ہندوستان کے صوبہ اتر پردیش کے مشہور ضلع اعظم گڑھ کے اندر قصبہ مبارک پور میں واقع ہے۔...
Read More
تاریخ و سیر

شاہی جامع مسجد سنبھل: ایک تاریخی جائزہ

تاریخ ماضی کے واقعات کا آئینہ ہوتی ہے ، ہندوستان میں مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے مابین باہمی رواداری اور...
Read More
تجزیہ و تنقید

گودی میڈیا کا مکروہ چہرہ اور سپریم کورٹ کا ردعمل

جامع مسجد سنبھل تنازع گودی میڈیا کا مکروہ چہرہ اور سپریم کورٹ کا ردعمل ✍ سید سرفراز احمد ________________ اصل...
Read More
تجزیہ و تنقید

احسان فراموشی نہ کریں: بیرسٹر اسد الدین اویسی کی خدمات کا اعتراف ضروری ہے

حال ہی میں بیرسٹر اسد الدین اویسی صاحب کی مالیگاؤں میں کی گئی تقریر کے بعد کچھ حلقوں میں ایک...
Read More

امارت شرعیہ کے پہلے مبلغ حضرت مولانا یاسین قاسمی

✍️ سرفرازاحمدقاسمی،حیدرآباد

8099695186

___________________

علمائے بھاگلپور سے متعلق میری کتاب زیرترتیب ہے اور اس پرکام جاری ہے، مہینوں قبل شیخ القراء حضرت قاری احمداللہ صاحب (1944تا10فروری 2024) سے بذریعہ فون ایک دن میری گفتگو ہورہی تھی کہ اسی درمیان قاری صاحب نے مجھ سےپوچھ لیاکہ” علمائے بھاگلپورپر جو کام آپ نے شروع کیاتھا وہ کہاں تک پہونچا؟یہ کام جاری رہنا چاہئے اورجلدازجلدآپ اسکی تکمیل کیجئے،ہمت نہیں ہارناہے”میں اسکے جواب میں صرف اتنا ہی کہہ سکاکہ حضرت کام جاری ہے،تکمیل کےلئے دعاء فرمائیں، فرمانےلگے ہاں دعاء توکررہاہوں لیکن آپ کام جاری رکھئے یہ رکنانہیں چاہئے،اگراس معاملے میں کسی تعاون کی ضرورت آپ کوہوگی تومیں وہ بھی کروں گا،آپ کی یہ کتاب ان شاءاللہ جامعہ فرقانیہ سبیل السلام کرنپور سے شائع ہوگی”
اسی دوران حضرت قاری صاحب نے فرمایا کہ گیا سائڈ کے ایک مولانا یاسین صاحب تھے،اپنے علاقے میں انکی بڑی خدمات رہی ہیں،مولانا عبدالرحمن صاحب سابق صدرجمعیت علماء بھاگلپور(1918تا1995) اورمولانا یعقوب صاحب کی تعلیم کےلئے انھوں نے رہبری بھی کی اور ان دونوں کو پڑھنے کےلئے دربھنگہ لےگئے تھے،مولانا یسین صاحب کا نام نامی میرےلئے نیاتھا اورمیں نے پہلی بار سناتھا،اس لئے میں نے پوچھ لیا کہ حضرت کیا انکا کوئی اتہ پتہ مل سکتاہے؟فرمایا انکےلڑکے مولانا مجیب اللہ ہیں،میں نے پھرپوچھاکیا انکا رابطہ نمبرہےآپ کےپاس؟فرمایا نہیں! میرا تجسس بڑھنے لگا کہ آخر مولانا یسین صاحب کون ہیں؟اورانکے بارے میں معلومات کیسے حاصل ہوگی؟بھاگلپورعلاقے کے کئی لوگوں سے بات ہوئی تو میرے استفسارپرانھوں نے بھی بتایاکہ مولانایسین صاحب انتہائی متقی اورپرہیزگار آدمی تھے، بھاگلپور کے مختلف علاقوں میں کثرت سے انکا آنا،جانا اورانکی آمدورفت ہوتی تھی،ناتھ نگر، چمپانگر، رادھانگر، ہرنتھ، عمادپور، جواکھر، لکھنپور اور کرنپور وغیرہ گاؤں میں ہفتوں انکا قیام ہوتاتھا، اسوقت سواری کا انتظام نہیں تھا اسلئے ٹرین سے اترکر میلوں پیدل سفرکرتے تھے۔
ایک دن میں نے اپنے دوست مولانا عبدالغافر قاسمی فرزند حضرت مولانا سیدطاہرحسین گیاوی صاحب رح کو فون لگایا اور ان سے پوچھاکہ آپ کے علاقے کے کوئی مولانا یسین صاحب تھے انکے بارے میں کچھ معلومات درکارہے کیا آپ انکے بارے میں کچھ بتاسکتے ہیں؟انھوں نے جواب دیا کہ مجھے تواس بارے میں نہیں معلوم، اباسے پوچھ کرآپ کو بتاؤں گا،پھردوچار دن بعدانکا فون آیاکہ اباسے میں نے معلوم کیاتھا، مولانا یسین صاحب گرہا نامی گاؤں کے تھے،انکے بیٹے مولانا مجیب اللہ ابھی باحیات ہیں،آپ کو انکا نمبر دے رہا ہوں،نوٹ کیجئے اور رابطہ کیجئے،نمبرلیکرمیں نے ان سے رابطہ کیا،اپنا تعارف کرایا،اسکے بعد تو اب مہینے دو مہینے میں ان سے علیک سلیک اور خیرخیریت سےآگاہی ہوتی رہتی ہے،مولانا مجیب اللہ صاحب کے توسط سے جوکچھ مل سکا اسے (عندذکرالصالحین تنزیل الرحمتہ یعنی نیک لوگوں کا تذکرہ کرتے وقت رحمت نازل ہوتی ہے) کےتحت نظرقارئین کیاجارہا ہے۔
حضرت مولانا یسین صاحب کا آبائی وطن گرہا نامی گاؤں ہے جوضلع پلاموں اورڈالٹن گنج سے 30 کیلومیٹر اور گیا سے تقریبا 50 کیلومیٹرکے فاصلے پرہے،اس گاؤں میں چارپانچ مساجد اور ایک دومدارس بھی ہیں،یہاں ایک ادارہ مولانایاسین صاحب کی یادگاربھی ہے،ہزار بارہ سو سے زائد مسلم گھروں کی آبادی ہوگی،اسی گاؤں میں مولانایسین صاحب کی ولادت ہوئی،انکے والد کا نام سلامت خاں تھا،مولانا یسین صاحب کے والد محترم سلامت خاں ایک غریب آدمی تھے اور محنت مزدوری کرکے گذربسر کرتے تھے،انھوں نے اپنے بیٹے مولانا یسین صاحب کوبڑی محنت ومشقت سے پڑھایا اور عالم فاضل بنایا،مولانا یسین صاحب کی پیدائش کب ہوئی؟ اور ابتدائی تعلیم کہاں ہوئی یہ معلوم نہ ہوسکا،دارالعلوم دیوبند سے انھوں نے تعلیم مکمل کی،حکیم الاسلام حضرت قاری طیب صاحب رح انکے رفیق درس بتائے جاتے ہیں،انکی فراغت دارالعلوم دیوبند سےکب ہوئی یہ بھی معلوم نہ ہوسکا، کیونکہ حکیم الاسلام،علامہ کشمیری کےشاگردہیں اور علامہ کشمیری کےتلامذہ کی جولسٹ میرے پاس ہے اس میں مولانا یسین صاحب کا نام نہیں ہے، مولانا یسین صاحب تعلیم سے فراغت کے بعد حضرت مولانا سید محمد علی مونگیری سے وابستہ ہوکر ان سے بیعت ہوگئے،حضرت مونگیری سے انھیں خلافت بھی حاصل ہوئی اورپھرحضرت مونگیری ہی کے مشورے سے امارت شرعیہ پٹنہ سے وابستہ ہوگئے اوربحیثیت مبلغ امارت میں خدمات انجام دیتے رہے،کہاجاتاہے کہ وہ امارت شرعیہ کے اولین مبلغ ہیں،بھاگلپور،پورنیہ،فاربس گنج اور36گڑھ کے مختلف علاقوں میں انھوں نے نمایاں خدمات انجام دیں،ان جگہوں کا وہ اکثر سفرکرتے اورللہ فی اللہ دینی،اصلاحی اورسماجی خدمات انجام دیتے رہے،وہ انتہائی متقی اورپرہیزگارعالم تھے،ہمیشہ اپنے ساتھ وضووغیرہ کےلئے ایک لوٹا،ایک تسبیح،ایک مسواک اور نمازکےلئے ایک مصلی رکھتےتھے،اسکے علاوہ ایک جھولا بھی انکے ساتھ ہوتا تھا جس میں اورادو وظائف کی کچھ کتابیں ہوتی تھی،سفرو حضر میں یہی انکا توشہ ہوتاتھا،انھوں نے اپنی زندگی میں دوحج کیا پہلا حج 1952ءمیں اور دوسرا 1978ء میں، حج کے مبارک سفر میں بھی انکا کل سامان یہی تھا،اسلئے سفرحج کے دوران کہیں انکا سامان چیک نہیں ہوا۔

یہ بھی پڑھیں:

دور دراز علاقوں میں جہاں کہیں بھی وہ جاتے کہیں ایک رات، کہیں چند دن کہیں ایک ہفتہ اور کہیں اس سے زیادہ قیام کرتے، اکثر روزے سے رہتے لوگ دعوت دیتے اورکھانا پیش کرتے اور کہتے کہ حضرت کھانا کھالیجئے تو وہ کہتے میں روزے سے ہوں،رمضان کے علاوہ سال میں تین ماہ وہ روزہ رکھتے تھے،گویا سال کا ایک تہائی حصہ انکا روزے کی حالت میں گذرتا تھا، شہر سے دور چھوٹے چھوٹے گاؤں دیہات کا سفر کرتے،ناخواندہ لوگ،بےجا رسم ورواج میں ڈوبا سماج،جہالت وگمراہی میں بھٹکتی انسانیت،جہالت و بدعقیدگی کی کثرت اور سیلاب کے درمیان وہ لوگوں کی اصلاح کرتے،غلط رسم ورواج کی نشاندہی کرکے اس سے روکتے،اسلام کی درست تعلیمات کی رہنمائی کرتےاور اس پر عمل پیرا ہونے کی تبلیغ و تلقین کرتے، شراب و جوا کے کاروبار سے نفرت دلاتے اور وعیدیں سناتے تھے اسطرح ایک بڑے حلقے کو انھوں نے راہ راست پرلایا، وہ بلاکسی معاوضے کے تعویذ وغیرہ کے ذریعے بھی لوگوں کے مسائل حل کرتے،اللہ تعالی نے انکے ہاتھ میں بڑی شفاء رکھی تھی،انسانیت کی بنیاد پر وہ ہندو مسلم سب کی خدمت کرتے اورسب کے مسائل حل کرتے،اسی وجہ سے لوگوں میں انکی بڑی مقبولیت ہوگئی تھی،جس علاقے میں جاتے انکی آمد کی اطلاع لوگوں کو ہوجاتی تو ملاقات کےلئے بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوجاتے، بھاگل پور اور اطراف کے علاقوں میں خاص طورسے انکی نمایاں خدمات رہیں،کئی گاؤں میں مساجدومکاتب کا نظام انکی تحریک اورنگرانی میں قائم ہوا،کئی چھوٹے چھوٹے گاؤں ایسے تھے جہاں مسلمان تو تھےلیکن مساجد نہیں تھی،انھوں نے وہاں مساجد تعمیر کرائی، اسطرح وہ دینی،تعلیمی،اصلاحی،مذہبی اور سماجی خدمات انجام دیتے رہے، چھتیس گڑھ کا ایک بڑا شہر امبیکاپور کے نام سے ہے،جہاں آج ایک درجن سے زائد مساجدہیں، کئی ادارے ہیں، یہاں کا ایک ہندو مہاراجہ تھا،اسکو کمرصاحب کے نام سے لوگ جانتے تھے،اسکی کوئی اولاد نہیں تھی،اولاد کے حصول کےلئے اس نے بہت کوشش کی لیکن ناکام رہا،کوئی اولاد نہیں ہوئی،اس مہاراجہ کے یہاں مولانا یسین صاحب کے جاننے والے کچھ مسلمان بھی کام کرتے تھے،انھوں نے مہاراجہ سے کہاکہ ہمارے ایک مسلمان بابا (گروجی) ہیں آپ ان سے ملئے تو آپ کی یہ پریشانی دورہوجائے گی،مہاراجہ نے مولاناکو اپنے یہاں بلوایا اور پھر حضرت مولانا کے ذریعے کچھ دنوں کے اندر اللہ تعالی نے اس مہاراجہ کو اولاد عطاکردیا،اس سے مہاراجہ بہت خوش ہوا اورحضرت مولانا کا ہمیشہ کےلئے معتقد ہوگیا اوربے انتہاعزت وتکریم سے پیش آنےلگا،اسکے بعد سے جب کبھی مولانا کا مہاراجہ کے دربار میں جانا ہوتاتو مہاراجہ باضابطہ اپنی سواری مولاناکے گھرپر بھیجتا اورپھر مولانا اسکے گھوڑے پر سوار ہوکرشاہانہ انداز میں اسکے پاس جاتے،ایک دن مہاراجہ، حضرت مولانا سے کہنے لگا گروجی!آپ نے میری بڑی پریشانی دور کردی، آپ نے میرا بڑا ہیلف کیا،بتائیے اسکے بدلے میں آپ کو کیا چاہئے؟حضرت مولانا نے جواب دیا”مجھے کچھ نہیں چاہئے،میں تویہ سب کام صرف اللہ کےلئے اور اپنے رب کو راضی کرنے کےلئے کرتاہوں”لیکن اسکے باوجود مہاراجہ نے زبردستی مولانا کو زمین کا ایک بڑا رقبہ اور کئی ایکڑ زمین دیناچاہا لیکن مولانا نے اسے قبول نہیں کیا،باوجود اس کےمہاراجہ کے کچھ قریبی لوگوں نے مولانا کو یہ کہہ کر خاموش کردیا کہ یہ زمین ہم آپ کو نہیں بلکہ آپ کے بچوں کو دے رہے ہیں،اور پھر کئی بیگھوں پر مشتمل کھیتی کی یہ زمین انکے بچوں کے حوالے کردیاگیا، کافی دنوں تک یہ زمین مولانا کی اولاد کے پاس رہی بعد میں فروخت کردی گئی اب شاید کچھ حصہ باقی ہو، اسی امبیکاپور شہر میں ایک مرتبہ ہندو مسلم کے درمیان اس بات پر اختلاف ہوگیا کہ مسجدوں میں جیسے ہی فجر کی اذان شروع ہوتی ہے،مندروں میں گھنٹیاں بجنے لگتی ہیں،یہ اختلاف شدت اختیار کرگیا، معاملہ اس ہندو مہاراجہ کے دربار میں پہونچا، ہندو فریق نے اپنا موقف رکھا اور مسلم فریق نے اپناموقف، مہاراجہ نے دونوں فریق کو سننے کے بعد یہ فیصلہ سنایا کہ کل صبح مسجد یا مندر جہاں سے پہلے آواز آئے گی اسی کو اجازت ہوگی، جب صبح ہوئی تو سب سے پہلے ایک مسجد میں جاکر مولانا یاسین صاحب نے اذان دیدی، مسجد سے اذان کی آواز پہلےآئی، مہاراجہ نے پورے شہرمیں اعلان کرا دیاکہ مساجد میں اذان ہوتی رہے گی اور مندروں میں گھنٹی نہیں بجے گی اس پر پابندی رہےگی،آج بھی اس شہرمیں یہی معمول ہے کہ اذان کے وقت کسی مندر میں گھنٹی نہیں بجتی ہے، اذان کے ختم ہونے کا انتظارکیاجاتاہے۔
ایک دفعہ حضرت مولانا یسین صاحب کو ایک لمبا سفر درپیش تھا اور پیدل جاناتھا،راستے میں ایک بڑاجنگل کا علاقہ پڑتا تھا،دوسرا اور کوئی راستہ نہیں تھا، اسی جنگل کو عبور کرکے منزل پر پہونچنا تھا،اس جنگل میں بڑے بڑے جنگلی جانور تھے، ڈر اور خوف کی وجہ سے کسی کی ہمت نہیں ہوتی تھی اس راستے سے جانے کی،لیکن مولانا اس راستے سے جانے کےلئے تیار ہوگئے، لوگوں نے سمجھایا، منع کیا کہ مت جائیے،خطرناک جنگل ہے،لیکن مولانا نے لوگوں کی ان باتوں کو ٹھکرادیا، اورکئی لوگوں کے ایک چھوٹے سے قافلے کے ساتھ اسی جنگل کے راستے پیدل سفرکےلئے نکل پڑے،کئی گھنٹوں کے بعد جیسے ہی اس جنگل میں پہونچے،رات کا وقت تھا،تیز بارش شروع ہوگئی،بارش سے بچنے کےلئے اس جنگل میں کافی دیر ٹہرنا پڑا،کچھ دیرکے بعد بو سونگھتے ہوئے جنگل کے کئی خطرناک جانور انکے پاس آگئے، مولاناکے ساتھ جولوگ تھے وہ بالکل ڈرگئے،خوف ودہشت کی وجہ سے بعض رونے لگے لیکن مولانا نے اپنے ساتھیوں کو ہمت دلائی اور ان جانوروں سے کہاکہ”ہم لوگ رسول اکرم ﷺ کے امتی ہیں،مسافرہیں اورکچھ پڑھکر پھونک مارا”اتنے میں وہ سارے جانور وہاں سے رخصت ہوگئے،کسی کو کچھ نقصان نہیں پہونچا،اور مولانا کا یہ قافلہ صحیح سالم منزل پر پہونچ گیا، پھر اسی راستے سے واپس بھی ہوا الحمدللہ۔
حضرت مولانا یسین صاحب نے جدوجہد سے بھرپور، درویشی کی زندگی گذاری،گھرمیں ہی ایک دن چارپائی اٹھاتے ہوئے زمین پرگرگئے جسکی وجہ سےکولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی،کئی ماہ صاحب فراش رہے،لیکن نماز سے کبھی غافل نہیں ہوئے،بستر پر لیٹے لیٹے ہی نماز ادا کرتے، دوران علالت 1987ء میں مغرب کی نماز پڑھکر انھوں نے اپنی جان،جان آفریں کے سپردکردی اورہمیشہ کےلئے اس دنیاسے رخصت ہوگئے،115 سال کی طویل عمرپائی،نمازجنازہ کی ادائیگی کے بعدگرہاکے اسی آبائی قبرستان میں اور ایک جم غفیرکی موجودگی میں انھیں سپرد لحد کردیا گیا،انکے انتقال سے پوراعلاقہ سوگوار ہوگیا، مولانا یسین صاحب کی کل سات اولادیں ہوئی تین لڑکے،حافظ محمدطاہر مرحوم،محمدمحیب اللہ اورمولانا مجیب اللہ رحمانی اورچارلڑکیاں ہیں،اب صرف انکے چھوٹے فرزند مولانا مجیب اللہ رحمانی جوعالم، فاضل ہیں اور مدرسہ عبدالرب دہلی سے 1963 کے فیض یافتہ اورفارغ التحصیل ہیں ابھی باحیات ہیں۔
حضرت مولانایسین صاحب جیسے لوگ اب کہاں ملیں گے؟جنکے اندر واقعی قوم وملت کا درد بھراپڑاتھا،دنیا ومافیہا سے بالکل الگ یہ لوگ اپنے دھن اور اپنے مشن میں مگن تھے یہی وجہ ہےکہ وہ ہر راستے کو عبورکرتے چلے گئے،اب توصرف ایسے لوگوں کا تذکرہ اور نام ہی سنکر دلوں کو بہلایاجاسکتاہے،بہار کی سرزمین نے کیسے کیسے لعل وجواہر پیدا کئے لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہےکہ ہم انھیں محفوظ تک نہیں رکھ سکے،بہار کے بارے میں حضرت مولانا عبدالماجد دریابادی رح کا یہ اعتراف کتناسچا اور ناقابل انکار حقیقت ہےکہ”بہار کی سرزمین آج سے نہیں گوتم بدھ کے زمانے سے پربہار چلی آرہی ہے،کیسے کیسے عالم،درویش،حکیم،ادیب،مؤرخ اورشاعر اسی خاک سے اٹھے،وہی بہار جسکا پانی کوئی غبی (کندذہن) پئے تو ذہین ہوجائے، یہ گیان کی سرزمین رہی اور یہاں آکر لوگوں نے گیان حاصل کی ہے،ہاں یہ ضرورہے کہ یہاں بہت سے لوگ پیداہوئے اور یہیں کی خاک میں مل کر رہ گئے کہ انھیں دنیا جان نہ سکی،وہ خودبھی یہی چاہتے تھے اور دور دراز سے آنے والے دعوت ناموں کے جواب میں بھی بس اتنا کافی سمجھاکہ
گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے
چنددنوں قبل تذکرہ علمائے بہار کے مصنف حضرت مولانا ابوالکلام شمسی قاسمی صاحب سے گفتگو ہوئی، انھوں نے بتایاکہ تذکرہ علمائے بہار کے تیسری جلد کی تیاری چل رہی ہے، آپ بھی کچھ مواد فراہم کردیں، میں نے کچھ لوگوں کاتذکرہ انھیں دیدیا، مولانا یاسین صاحب کا ذکر میں نے ان سے کیا تو فرمانے لگے کہ انکے بارے میں کوئی مختصر تحریر آپ ہی لکھ کر بھیج دیجئے، تاکہ اسے شامل کتاب کیابجاسکے،انکے اصرار پر اور انکےحکم کی تعمیل میں جلدی جلدی میں یہ تحریر حاضر خدمت ہے، رب کریم تمام بزرگوں کی مغفرت فرمائے،انکی خدمات کوقبول فرمائے اور اپنی شایان شان بدلہ عنایت فرمائے۔

(مضون نگارمعروف صحافی اورکل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: