فارغ التحصیل طلباء وطالبات !!
✍️ جاوید اختر بھارتی
محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی
_________________
جب کوئی درخت لگایا جاتاہے تو یہ امید ہوتی ہے کہ ایک دن یہ پھل دے گا ، گاڑی میں تیل اس لئے ڈالا جاتا ہے کہ اس کے ذریعے ہم منزل مقصود تک پہنچیں گے ، گاۓ بھینس اس لئے پالتے ہیں کہ اس سے دودھ، دہی گھی حاصل ہوگا گھر اس لئے بنواتے ہیں کہ اس میں زندگی کا گذر بسر ہوگا مساجد کی تعمیر اس لئے کی جاتی ہے کہ اس میں نماز پڑھا جاۓ گا اور مدارس کی تعمیر اس لئے کی جاتی ہے کہ ہم اور ہمارے بچے تعلیم حاصل کریں گے ،، زید نے درخت لگایا روزانہ صبح وشام پانی دیا اور وہ خوب تناور ہوا اور اس میں پھل بھی آنے لگا زید کا دل باغ باغ ہوگیا اس کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا جب بھی وہ باغ میں جاتا تو اس کا دل جھوم اٹھتا ،، زید نے پھر ایک موٹرسائیکل خریدی اور اس میں تیل ڈلوایا اب کیا پوچھنا اور کیا کہنا درختوں کی دیکھ بھال کے لئے گاڑی سے باغیچے تک جانا بھی آسان ہو گیا ،،زید نے پھر گائے اور بھینس خریدی اس کو کھلایا پلایا تو وہ دودھ دینے لگی اس نے دودھ دہی گھی فروخت کرنا شروع کردیا درختوں کے پھلوں کو گائے بھینس کے دودھ دہی گھی فروخت کرکے پیسہ کمانے لگا پورا کنبہ چین و سکون کی زندگی گزارنے لگا،، زید نے پھر اپنا ایک گھر تعمیر کرایا اور سجانے سنوارنے کے بعد اہل وعیال کے ساتھ رہنے لگا ،، زید نے پھر ایک مسجد اور ایک مدرسہ تعمیر کرایا جب دونوں کی تعمیر مکمل ہوگئی تو ایک عظیم الشان جلسہ منعقد کرایا بڑے بڑے علماء کرام کو بلایا اور نامور شعراء کرام کو بھی بلایا تعلیم و تربیت اور عبادت و معاشرے کی اصلاحات کے موضوع پر تقریر کرایا رات کے آخری حصے میں جلسہ اختتام پذیر ہوا دھکے پر دھچکا مارتے ہوئے لوگ آگے بڑھے فارغین کے گلے میں پھولوں کی مالا پہنانے لگے سیلفی پر سیلفی لینے لگے نعرے پر نعرہ لگانے لگے سلام و مصافحہ اور گلے مل مل کر مبارکباد دینے لگے یہاں تک کہ مسجد کے میناروں سے مؤذن نے پکارنا شروع کردیا یعنی
فجر کی اذان ہونے لگی نصف گھنٹہ ، بیس منٹ کے بعد جماعت کا وقت ہوگیا آبادی بہت بڑی تھی جلسے میں ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر نظر آرہا تھا مگر فجر کی نماز میں ایک صف بھی مکمل نہیں ہوسکی-
صبح ہوتے ہی خواتین کے جلسے کی تیاریاں شروع ہوگئیں اور فجر کی نماز کے دو گھنٹے بعد خواتین کا جلسہ بھی شروع ہوگیا دور دراز سے عالمہ فاضلہ جلسے کو خطاب کرنے کے لئے تشریف لائیں اور نماز ظہر تک جلسہ ہوتا رہا بعد نمازِ ظُہر پھر جلسے کی کاروائی شروع ہوگئی نماز عصر کے کچھ پہلے فارغ ہونے والی طالبات کو ردائے فضیلت سے نوازا گیا راقم السطور جلسے کا مخالف نہیں ، جشن دستار بندی و جشن ردائے فضیلت کا مخالف نہیں اللہ کرے ہر مسلمان مرد و عورت تعلیم یافتہ ہو جائے صحت مندانہ و پاکیزہ معاشرہ تشکیل پا جائے،، لیکن نہیں رونا اسی بات کا ہے کہ جس کے سر پر دستار سجائی گئی اسے احساس ہی نہیں ہوتا ہے کہ ہماری دستار کا ہر تار تصدیق و تحقیق سے جڑا ہوا ہے پاکیزہ معاشرے کی تشکیل سے جڑا ہوا ہے، دین کی تبلیغ سے جڑا ہوا ہے ، امر بالمعروف ونہی عن المنکر سے جڑا ہوا ہے، آئین اسلام و احکام اسلام سے جڑا ہوا ہے، رب کے قرآن اور نبی کے فرمان سے جڑا ہوا ہے، ابوبکر کی صداقت سے جڑا ہوا ہے، عمر کی عدالت سے جڑا ہوا ہے، عثمان کی سخاوت سے جڑا ہوا ہے، علی کی شجاعت سے جڑا ہوا ہے ( رضی اللہ عنہم اجمعین)
اگر یہ احساس ہوتا تو جہیز کا مطالبہ نہیں ہوتا، دسترخوان بچھانے کے بعد امیر و غریب کے درمیان لکیریں نہیں کھینچی جاتی ، دو سو ڈھائی سو افراد پر مشتمل بارات نہیں لیجائی جاتی، لڑکی کے باپ کے گھر زبردست قیام و طعام کا انتظام نہیں ہوتا ، بارات کی روانگی اور دلہن کی آمد پر آتش بازیاں نہیں ہو تیں ، لڑکے اور لڑکیاں موبائل پر گھنٹوں گھنٹوں باتیں نہیں کرتے ،، بالکل وہی حالت ہے جیسے ڈاکٹروں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے ویسے ہی امراض و مریضوں کی تعداد بھی بڑھتی جارہی ہے جیسے جیسے ایکسرے ، سونو گرافی، الٹراساؤنڈ ، ایم آر آئی ، سٹی اسکین وغیرہ جیسی جانچ کی جارہی ہے ویسے ہی کسی بھی بیماری کا خاتمہ نہیں ہوتا بس دوا کھاتے جاؤ اسی طرح مدارس کی تعداد بڑھتی جارہی ہے عالم و فاضل اور عالمہ و فاضلہ کی تعداد بڑھتی جارہی ہے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں سروں پر عالمیت و فضیلت کی دستار سجائی جاتی ہے مگر معاشرے سے خرافات ، ناقص رسم ورواج ، بے حیائ و بے شرمی، خود غرضی، مفاد پرستی یہ ساری برائیاں ناسور بنتی جارہی ہیں ایسی صورت حال میں تو یہی کہا جائے گا کہ وہ اندھیرا ہی بھلا تھا کہ قدم راہ پر تھے ،، روشنی کھینچ کر لائی ہے منزل سے بہت دور ہمیں،، کم از کم جو فارغین طلباء وطالبات ہوتے ہیں وہ اگر خلوص نیت کے ساتھ معاشرے کی اصلاح کے لئے سرگرم عمل ہوں تو ضرور معاشرے میں پاکیزگی آسکتی ہے،، نہیں تو پھر جلسہ ہوتا رہے گا مگر کوئی نتیجہ سامنے نہیں آئے گا ابھی حال ہی میں ایک مقرر کو چالیس منٹ کی تقریر کا پچپن ہزار روپیہ نذرانہ دیا گیا ہے جبکہ اسی علاقے میں کسی بھی مسجد کے امام کو مہینے کا دس ہزار روپیہ بھی نہیں دیا جاتا یہ کتنے افسوس کی بات ہے کیسے نیک و صالح معاشرہ تشکیل پاسکے گا ،، معاشرے کی اصلاح کے نام پر ہم لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں جبکہ ہمارے پاس یوم جمعہ ہے ، خطبۂ جمعہ ہے اور یہ ذرائع ابلاغ ہے اس سے معاشرے کی اصلاح ہوسکتی ، دین کی تبلیغ ہو سکتی ہے اجتماعی طور پر مسلمانوں کے حالات معلوم کئے جاسکتے ہیں اور مسائل کا تصفیہ کیا جاسکتاہے لیکن مسلمان اس سے بے خبر ہے بس نام و نمود ، شہرت و نمائش کے پیچھے بھاگا جارہاہے،، کون آواز اٹھائے گا اور کون سمجھاۓ گا یہ انہیں فارغ التحصیل طلباء وطالبات کی ذمہ داری ہے کہ خود نیک و صالح بنیں اور دوسروں کو نیک و صالح بننے کی دعوت دیں اور یاد رکھیں کہ وہی اصل تعلیم ہے جو عالم اسلام اور عالم انسانیت کے لئے نفع بخش ثابت ہو،، قرآن وحدیث کی تعلیمات حاصل کرنے کے بعد لازمی ہے کہ وہی بات کہی جائے جو قرآن وحدیث کے عین مطابق ہو کیونکہ بروز قیامت جہاں بہت سارے سوال ہوں گے وہاں یہ بھی سوال ہوگا کہ تم نے علم حاصل کیا تو اس کا استعمال کہاں کیا اور کیسے کیا آخر میں دعا ہے کہ تمام فارغ التحصیل طلباء وطالبات کے علم کے ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمتیں شامل حال رہیں۔
آمین یا رب العالمین