Slide
Slide
Slide

تغیر پذیر دنیا میں تسلیم شدہ حقائق سے بغاوت اور اسلام کے آفاقی نظام کی ضرورت

شیخ علی محی الدین قرہ داغی

ترجمانی: ڈاکٹر محمد اعظم ندوی

_______________

ایک زمانہ میں بہت سے لوگوں کا گمان تھا کہ مغربی دنیا کا جمہوری نظام انسانیت کے لیے خوشی ومسرت، عدل وانصاف، خوش حالی اور فارغ البالی کی ڈھیر ساری سوغات لائے گا؛ کیوں کہ اس نظام نے آزادی، مساوات، اور انسانی حقوق کے بلند بانگ نعرے بلند کیے تھے، خصوصاً بچوں اور خواتین کے حقوق کے حوالہ سے پوری دنیا سر پر اٹھا رکھی تھی، اس کا دعویٰ تھا کہ یہ نظام انسان کی آزادانہ چاہت اور خالص انسانیت پر مبنی ہے، لیکن اس نظام کے مداحوں کو اس وقت حیرت ہوئی جب انہیں مغربی ممالک نے عالم اسلام اور تیسری دنیا کے اکثر ممالک پر ناجائز قبضہ جمایا، ان میں بدترین فساد وانتشار اور ظلم وستم کا بازار گرم کیا، بلکہ بے محابہ ان کے انسانی اور مادی وسائل کا استحصال کیا تاکہ اپنی خوش حالیوں اور خرمستیوں کے لیے ان ممالک کے باشندوں کو غربت اور داخلی وعلاقائی جنگوں میں جھونک کر اپنی روٹیاں سینکتے رہیں، ان ناپاک عزائم کے ساتھ انہوں نے جب بھی موقع ہاتھ آیا، کمزور لوگوں کو غلام بنا کر ذلت آمیز انداز سے افریقہ اور دیگر مقامات سے امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک میں منتقل کیا۔

بایں ہمہ، انہیں ترقی یافتہ جمہوری ممالک کے درمیان شدید تنازعات پیدا ہوئے، جن کی بدولت بیسویں صدی کے نصف اول میں دو تباہ کن عالمی جنگیں ہوئیں: پہلی جنگ (1914-1918ء) کے درمیان اور دوسری جنگ (1939-1945ء) کے درمیان ہوئی، جن میں کروڑوں انسان مارے گئے اور سینکڑوں ارب ڈالر خرچ ہوئے، اگر یہ بیش بہا دولت ترقیاتی کاموں پر خرچ کی جاتی تو دنیا جنت نظیر بن جاتی، زمانۂ ما بعد میں لوگوں نے یہ سمجھا کہ مغربی ممالک نے ان دونوں جنگوں سے سبق سیکھا ہے، اور اب ایک منصفانہ نظام قائم ہوگا جو انسانیت کے لیے اچھے دن لائے گا، اور واقعی فاتح ممالک نے اقوام متحدہ جیسی تنظیم کی بنیاد رکھی تاکہ بین الاقوامی امن وسلامتی کا تحفظ کیا جا سکے لیکن اس نظام میں پانچ بزعم خود عظیم ترین ممالک امریکہ، برطانیہ، فرانس، سابقہ سوویت یونین، اور چین
کے لیے ویٹو کا اختیار رکھا گیا، یعنی ان میں سے کوئی بھی ملک کسی بھی فیصلہ کو ویٹو کر سکتا ہے، خواہ باقی تمام ممالک اس کے حق میں ہوں، اس کا مطلب یہ ہے کہ آج 192 ممالک کی متفقہ رائے کی کوئی اہمیت نہیں، اگر ان پانچ ممالک میں سے کوئی ایک بھی اس کے خلاف رائے رکھتا ہو۔

اس کے باوجود یہ تسلی تھی کہ اقوام متحدہ کو کئی اہم مقاصد کے لیے قائم کیا گیا ہے، جن میں بین الاقوامی امن وسلامتی کا تحفظ، تنازعات کا تصفیہ، اور جنگ وامن دونوں حالتوں میں انسانی حقوق کی حفاظت جیسے عظیم الشان مقاصد کا ذکر کیا گیا تھا، لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ 1945ء میں اقوام متحدہ کے قیام سے تا حال 250 سے زائد داخلی یا علاقائی جنگیں ہوچکی ہیں یا ہورہی ہیں، اور یہ عالمی تنظیم نہ تو انہیں روک سکی اور نہ ہی انہیں منصفانہ طور پر حل کر سکی، بلکہ جنگل کا قانون، یعنی طاقت کا اندھا قانون غالب رہا، اور اکثر وبیشتر فیصلے بڑی طاقتوں کے مفادات کے مطابق کیے گئے۔

آج ہم دیکھتے ہیں کہ اقوام متحدہ اور آزاد دنیا کس قدر بے بس ہیں، جو کچھ غزہ اور مغربی کنارہ میں ناجائز صہیونی ریاست کر رہی ہے، یعنی متنوع جنگی جرائم، نسل کشی، اور تمام انسانی قوانین کی کھلی خلاف ورزی، آزاد قومیں، دنیا کے انصاف پسند لوگ، اور آزاد یونیورسٹیاں ان متواتر ومتنوع نسل کشیوں کے خلاف اپنی آوازیں بلند کر رہی ہیں، لیکن انہیں سننے والا کوئی نہیں، سب کچھ صدا بصحرا اور نامسموع، بلکہ ناجائز صہیونی ریاست کی جانب سے ان آوازوں کو دبایا جارہا ہے یا ان کے بیان کردہ حقائق کو بی جا الزامات قرار دے کر مسترد کیا جا رہا ہے، اور ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے، کیوں کہ یہ قابض ریاست اپنی طاقت کے ساتھ امریکہ، انگلینڈ، جرمنی، اٹلی، اور فرانس کی حمایت پر انحصار کرتی ہے، خصوصاً امریکہ جو اپنی تمام فوجی طاقت اور لامحدود عسکری، سیاسی، اور اقتصادی حمایت کے ساتھ اس کی پشت پر کھڑا ہے۔

آج اہلِ عقل ودانش پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ کوئی بھی عالمی نظام نہیں جو مظلوموں کی حفاظت کر سکے، اور نہ ہی کوئی ایسی بین الاقوامی تنظیم ہے جو پانچ بڑی طاقتوں پر منصفانہ قانون نافذ کر سکے؛ اسی لیے دنیا کو آج پہلے سے کہیں زیادہ ایک منصفانہ نظام کی ضرورت ہے جو پوری انسانیت کے لیے ہو۔

تاریخ کے طویل سفر میں ثابت ہوا ہے کہ انسانی قوانین اور نظام ہائے حیات کبھی بھی تعصب اور جانبداری سے پاک نہیں ہوتے؛ قدیم قانون روما نے رومیوں اور غیر رومیوں کے درمیان تفریق رکھی، جب کہ اسے پارلیمنٹ کی منظوری سے بنایا گیا تھا، رومی شہریوں کو مکمل حقوق حاصل تھے، جب کہ غیر رومی باشندے، چاہے وہ شہری ہی کیوں نہ ہوگئے ہوں، ان حقوق سے محروم تھے، اسی طرح، مغربی قوانین جو جمہوریت پر مبنی تھے، ان کے بارے میں مغالطہ تھا کہ یہ بڑی حد تک منصفانہ ہیں اور سب کے لیے مساوات اور آزادی کے پائیدار اصولوں پر قائم ہیں، لیکن آج یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ ان میں بھی مساوات کا زبردست فقدان ہے، خصوصاً اُن لوگوں کے ساتھ جو بعد میں شہریت حاصل کرتے ہیں، اگر کوئی شخص بعض مسائل جیسے کہ ہم جنس پرستی کے خلاف موقف اختیار کرے، یا غزہ میں صہیونی جرائم کی مذمت کرے، تو اس کی شہریت منسوخ کی جا سکتی ہے۔

دوسری جانب، مغربی دنیا میں فطری اصولوں اور اخلاقیات کے میدان میں کوئی بنیاد باقی نہیں رہی، جیسا کہ ہم نے مختصر طور پر اشارہ کیا، ہمیں سیاسی ناانصافیوں کا سامنا ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ فطری حقیقتیں، جیسے کہ مردانہ اور نسوانی شناخت، بھی اب غیر یقینی ہو چکی ہیں، وہ حقیقت جو عقل، فطرت، اور مذہب کے مطابق آدم علیہ السلام کی تخلیق سے لے کر آج تک تسلیم شدہ تھی، اب شک کے دائرے میں آ گئی ہے، بلکہ اس حقیقت کو تسلیم کرنا جرم بن چکا ہے، اور ہم جنس پرست معاشرہ کو قبول کرنا لازم ہو گیا ہے، یہاں تک کہ ایک بچہ کو بھی مرد یا عورت نہیں سمجھا جاتا جب تک وہ خود اپنی جنس یاصنف خود منتخب نہ کر لے، جو کچھ ہم نے 2024ء کے پیرس اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں دیکھا، وہ تمام اخلاقی قدروں کی پامالی اور ان کے خلاف کھلی بغاوت کے مترادف تھا۔(در اصل اس تقریب میں لاسٹ سپر (عشاء ربانی) کے نام سے دی گئی پرفارمنس میں لیونارڈو دا ونچی کی بنائی گئی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تصویر پر ایک یہودی ہم جنس پرست فنکار تھامس جولی کو کردار پیش کرنے کے لیے چُنا گیا جس نے نیم برہنہ انداز میں اس تصویری خاکہ کو پیش کیا، اسی میں ایک عورت ایک لمبی میز کے بیچ کئی ہم جنس پرست مردوں کے درمیان بیٹھی ہوئی دکھائی گئی جب کہ اس کے آس پاس 10 ہم جنس پرست فنکار بھی موجود تھے، اس واقعہ پر مسلمان اور عیسائی دونوں برہم ہیں کہ اس میں مذہب کی توہین کے ساتھ ہم جنس پرستوں کی بالادستی کا اظہار کیا گیا ہے۔ اعظم)

آج کی دنیا کو اسلام کی سخت ضرورت ہے، جو انسان کو فطرتِ سلیمہ کی طرف واپس لائے، اسے عقیدہ کے اعتبار سے اندرونی سکون عطا کرے، اخلاقی قدروں پر اسے استوار کرے تاکہ وہ شریف النفس، اصلاح پسند، صلح جو اور اپنے اور دوسروں کے لیے مفید بن سکے، اور مسلمہ اصولوں کی بنیاد پر ایک منصفانہ معاشرہ قائم کر سکے۔

اس سیاسی، اعتقادی، اخلاقی، خاندانی، اور فطری انتشار کی تیز وتند ہواؤں کے بیچ، صرف اسلام ہی وہ نظام ہے جو عدل و مساوات قائم کرنے، نیز عالمی امن وسلامتی کی حفاظت کی صلاحیت رکھتا ہے، خصوصاً اس لیے کہ اسلام قرآن کی ٹھوس بنیاد پر قائم ہے، جس کے بارے میں قرآن خود کہتا ہے کہ {نہ اس کے آگے سے باطل آ سکتا ہے اور نہ پیچھے سے؛ یہ حکمت والے اور خوبیوں والے رب کی طرف سے نازل کردہ ہے} (فصلت:42)۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے اس کو عملی طور پر نافذ کیا اور انسانیت کو بھلائی، عدل، عزت، رحم دلی، اور نفسیاتی ومعاشرتی سکون واطمینان کی کشادہ فضاؤں میں لے کر آئے، مثال کے طور پر عدل کی وضاحت کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ نے ہر حال میں، ہر جگہ، اور ہر شخص پر عدل کے نفاذ کا حکم دیا ہے، چاہے وہ حاکم ہو یا محکوم، آقا ہو یا مملوک، حتیٰ کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس میں شامل ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {اے ایمان والو! اللہ کے لیے انصاف کے ساتھ گواہی دیتے ہوئے کھڑے ہو جاؤ، اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے، اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے} (المائدة:8)، اور فرمایا: {بیشک ہم نے تم پر حق کے ساتھ کتاب نازل کی ہے تاکہ تم لوگوں کے درمیان اس کے مطابق فیصلہ کرو جو اللہ نے تمہیں دکھایا ہے، اور کبھی بھی خیانت کرنے والوں کے طرفدار نہ بنو} (النساء:105)، اللہ نے اپنے نبی کو منع فرمایا کہ کسی خیانت کرنے والے کا دفاع کریں، چاہے بہ ظاہر وہ اسلام کا دعویٰ کرنے والا ہو، بلکہ آپ کو حکم دیا کہ حق کے ساتھ کھڑے ہوں، چاہے وہ حق غیر مسلم کے ساتھ ہو، تجربات پوری قوت کے ساتھ ثابت کرتے ہیں کہ اسلام جیسا کوئی امن اور نظام نہیں ہے، جو ثابت شدہ اصولوں کی پاسداری کے ساتھ ترقی اور تبدیلیوں کو قبول کرتا ہو۔

یہی ہماری درخواست ہے، یہی ہماری خواہش ہے، اور یہی ہماری امید ہے کہ دنیا ان حقائق کو سمجھ لے اور راہِ راست پر لوٹ آئے، اور اس طرح اللہ کا سچا وعدہ پورا ہو: {ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاق میں اور ان کے اندرون میں دکھائیں گے، یہاں تک کہ ان پر واضح ہو جائے گا کہ وہی حق ہے، کیا یہ کافی نہیں کہ تمہارا رب ہر چیز پر گواہ ہے} (فصلت:53)۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: