Slide
Slide
Slide

ہندوستان کہیں ریپستان نہ بن جائے

ہندوستان کہیں ریپستان نہ بن جائے

”بیٹی پڑھاؤ بیٹی بچاؤ“ اسکیم کے بعد خواتین کے ساتھ جرائم میں اضافہ ہوا ہے

عبدالغفارصدیقی

9897565066

_________________

وطن عزیز میں زنابالجبر کے بڑھتے واقعات ہر سچے ہندوستانی کے لیے تشویش کا باعث ہیں۔یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ہر روز اس میں اضافہ ہورہا ہے۔ہماری حکومت نے جب سے ”بیٹی پڑھاؤ،بیٹی بچاؤ“ کا نعرہ دیا ہے تب سے خواتین کے خلاف جرائم میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ہمارے محترم وزیر اعظم نے 22اگست2015میں اس منصوبہ کا ہریانہ سے آغاز کیا تھا۔اس کا مقصد تھا اگر بیٹیاں تعلیم یافتہ ہوں گی تو وہ اپنی حفاظت بھی کریں گی اور ترقی کی منزلیں بھی طے کریں گی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس اسکیم کے بعد بیٹیوں کی شرح تعلیم میں اضافہ ہوا ہے۔لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ تعلیم میں اضافہ کے باوجود ان کے ساتھ زیادتیوں اور جرائم میں بھی اضافہ ہوا ہے۔کوئی بھی رپورٹ اٹھا کر دیکھ لیجیے اور کسی بھی جرم کے اعدادو شمار ملاحظہ کرلیجیے ہر جگہ اضافہ ہی نظر آئے گا۔کلکتہ کے میڈیکل کالج میں زیر تربیت خاتون ڈاکٹر کی اجتماعی عصمت دری اور قتل کا واقعہ کوئی نیا نہیں ہے۔اس سے پہلے بھی اس طرح کے واقعات ظہور پذیر ہوئے ہیں۔صورت حال اس وقت زیادہ خطر ناک معلوم ہوتی ہے جب کہ کلکتہ کیس کے خلاف جاری احتجاج کے دوران بھی اتراکھنڈ میں ایک نرس کی اجتماعی عصمت دری کی گئی اور قتل کرکے لاش کو جھاڑیوں میں پھینک دیا گیا۔یعنی ایک طرف پورا ملک کلکتہ کیس پر سراپا احتجاج ہے،وہاں ہرروز گرفتاریاں ہورہی ہیں،جلوس نکالے جارہے ہیں اور اسی دوران اتراکھنڈ کے شہر رودر پور میں ایک نرس کے ساتھ یہی حادثہ ہوجاتا ہے۔اسی دوران مراداآباد کے ایک پرائیویٹ اسپتال میں نرس کے ساتھ ڈاکٹر نے زنا بالجبر کی واردات کو انجام دیا۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ظالموں کے حوصلے کس قدر بلند ہیں۔اسی درمیان بی جے پی کی ریاست اتراکھنڈ کے شہر دہرہ دون میں روڈ ویز بس میں ایک لڑکی کی اجتماعی عصمت دری کی گئی۔پہلے بس کے کنڈکٹر نے اس کے زنا کیا،اس کے بعد ڈرائیور نے منہ کالا کیا اور اس پر ہی اکتفا نہیں کیا۔انھوں نے روڈویز کے دیگر ملازمین کو اس جرم کی دعوت دی۔قارئین برج بھوشن کے خلاف خاتون کھلاڑیوں کے ذریعہ لگائے گئے جنسی زیادتی کے الزامات بھی نہیں بھولے ہوں گے۔ان حادثات میں مجرمین جاہل اورگنوار نہیں ہیں بلکہ تعلیم یافتہ ہیں۔جن بچیوں یا خواتین کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے وہ بھی تعلیم یافتہ ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ محض پڑھ لینے سے کوئی بیٹی محفوظ نہیں رہ سکتی۔جہاں تک جرائم پیشہ اور ان پڑھ افراد کے ذریعہ جنسی زیادتی کے واقعات ہیں توسرکاری اعدادو شمار کے لحاظ سے ملک میں ہر بیس منٹ میں ایک خاتون ریپ کا شکار ہوجاتی ہے۔اس میں وہ کیسیز شامل نہیں ہیں جن کی رپورٹ ہی درج نہیں ہوتی۔گاؤں دیہات اور پسماندہ علاقوں میں والدین اپنی عزت و ناموس کی خاطر زبان بند رکھتے ہیں اور کہیں کہیں درندوں کی زور آوری انھیں منھ بند رکھنے پر مجبور کرتی ہے۔

مرکزی وزارت داخلہ کے محکمہ این سی آر بی کی رپورٹ کے مطابق جنسی زیادتی کے 2020 میں 3 لاکھ 71 ہزار 503 مقدمات رپورٹ کیے گئے، 2021 میں عصمت دری کے 4 لاکھ 28 ہزار 278 سے زائد مقدمات رپورٹ ہوئے جب کہ 2023 میں خواتین کے خلاف جنسی جرائم میں سنگین حد تک اضافہ ہوا ہے۔

2024کی رپورٹ آنا ابھی باقی ہے۔ خواتین کو جنسی زیادتی کے علاوہ بھی کئی جرائم کا سامنا ہے۔جیسے سال 2021 ء میں 31 ہزار 677 زیادتی، 76 ہزار 263 اغواء اور 30 ہزار 856 گھریلو تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے،انڈیا ٹو ڈے کی رپورٹ کے مطابق روزانہ سفر کرنے والی خواتین میں سے 80 فی صد خواتین کو جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ان مجرمانہ حرکتوں سے غیر ملکی سیاح بھی محفوظ نہیں رہے ہیں۔2014 ء میں جرمن خاتون،2018 ء میں روسی خاتون اور 2022ء میں برطانوی سیاح خاتون کے ساتھ گینگ ریپ کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔ خواتین کے خلاف بڑھتے جرائم کی وجہ سے 2019 میں امریکہ نے اپنے شہریوں کو بھارت کا سفر کرنے کے خلاف وارننگ بھی جاری کی تھی۔ڈر ہے کہ ملک میں زنا بالجبر کے بڑھتے واقعات کے تناظر میں کہیں ہندوستان کو ریپستان نہ کہاجانے لگے،اس لیے کہ ملک کی راج دھانی دہلی کو پہلے سے ہی Rape Capital of Indiaکہاجاتا ہے۔

بیٹی پڑھاؤ،بیٹی بچاؤ اسکیم پر اب تک 683کروڑ رپے خرچ کیے گئے ہیں۔قابل توجہ پہلو یہ ہے کہ اس کا 58فیصد صرف میڈیا اور اشتہارات پر خرچ کیا گیا ہے۔ایک دیگر رپورٹ کے مطابق یہ شرح 80فیصد ہے۔آپ سمجھ سکتے ہیں کہ بجٹ کا بیشتر حصہ حکومت نے صرف اسکیم کا ڈھنڈورا پیٹنے اور حکومت کے اہل کاروں نے اپنی تصویریں کھنچوانے پر خرچ کیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ خواتین کے خلاف ان جرائم کی وجوہات کیا ہیں؟سخت ترین قوانین کی موجودگی کے باوجود بھی ان پر قابو کیوں نہیں پایا جارہا ہے؟میری نظر میں سب سے بڑی وجہ حکومت کی دوغلی پالیسی اور غیر منصفانہ رویہ اس کا ذمہ دار ہے۔وہ مجرمین میں سے اپنوں کی پشت پناہی کرتی ہے۔انھیں اعزازات سے نوازتی ہے۔گجرات کی بلقیس بانو کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کے واقعہ میں مجرمین کے ساتھ ریاستی اور مرکزی حکومت نے کیا رویہ اپنایاسب جانتے ہیں۔مدتوں بعد تو اس مقدمہ میں مجرمین کو سزائیں ہوئیں۔اس کے بعد انھیں ”Good Character“کا سرٹیفیکٹ دے کر رہا کردیا گیا۔اتناہی نہیں ریاستی حکومت کی زیر پرستی ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔جب مجرمین کی پشت پناہی کی جائے گی،مجرموں کو مذہب کی آنکھ سے دیکھاجائے گا۔ان کی حوصلہ افزائی کی جائے گی،انھیں وزارتوں کے قلم دان سونپے جائیں گے(سنگیت سوم،برج بھوشن) تو جرائم پر قابو کیسے پایا جاسکتا ہے؟اگر عدل و انصاف کی یہی صورت حال رہی تو تباہی یقینی ہے۔صحیح بخاری میں نبی اکرم ﷺ کی ایک حدیث درج ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ:”تم سے پہلے کی قومیں اس لیے تباہ ہوگئیں جب ان کی قوم کا کوئی بڑا آدمی جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا اور جب کوئی معمولی آدمی جرم کرتا تو اسے سزا دی جاتی“۔مجرمین میں یہ بھید بھاؤمقامی پولس اسٹیشن سے ہی شروع ہوجاتا ہے،اس کے بعد مرحلے وار مرکزی حکومت کی وزارت داخلہ تک پہنچ جاتا ہے۔حکومت کا یہ بھید بھاؤ اسی ماہ کے دو حادثوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔کلکتہ میں ایک لیڈی ڈاکٹر کے ساتھ جو حادثہ ہوا بعینہٖ وہی حادثہ رودر پور میں ہوا۔مگر رودر پور کے لیے کوئی آواز نہیں اٹھی،وہاں انصاف کے پیمانے بدل گئے۔اس لیے کہ رودر میں شکار ہونے والی خاتون نرس ”مسلمان“ہے اوروہاں بی جے پی کی حکومت ہے۔عدل و انصاف کا یہ بھید بھاؤ اس قدر عام ہوگیا ہے کہ عوام بھی محسوس کرنے لگی ہے۔مدھیہ پردیش میں گستاخ رسول کے خلاف احتجاج میں پولس پر پتھراؤہوا تو پولس نے درجنوں مسلمانوں کی گرفتاریاں کیں،ان کا جلوس نکالا،ان سے ”پولس تمہاری باپ ہے“ کے نعرے لگوائے،اور ایک کانگریسی لیڈر کی کوٹھی پر بلڈوزر چلوادیا۔یہی واقعہ بہارمیں ہوا۔مگر وہاں پتھر باز پولس کے ہم مذہب تھے اس لیے پتھر کھاکر بھی وہ خوش رہے۔

خواتین کے خلاف بڑھتے جرائم کے اسباب میں ہمارا تعلیمی نظام بھی ایک سبب ہے۔پورے تعلیمی نظام سے اخلاقی تعلیم ندارد ہے۔ہر جگہ مخلوط نظام تعلیم کی حوصلہ افزائی ہے،بے پردگی اور بے حیائی کو بڑھاوادیاجارہا ہے اور اسکول یونیفارم کے نام پر باحجاب بیٹیوں کے سر سے حجاب نوچا جارہا ہے۔خواتین کی آزادی کا نعرہ لگانے والوں نے بیٹیوں کو برہنہ کردیا ہے۔کھلے عام سیکس کی ترغیب دی جارہی ہے۔ سیکس اشتہارات اور پورنوگرافی کو ملکی معیشت میں اہم مقام حاصل ہے۔مساوات مردو زن کے پرکشش نعروں میں خواتین کو الجھا کر خاندانی نظام کو تباہ کردیا گیا ہے۔وومن ایمپاورمنٹ کے فریب نے اسے سیلس گرلز بننے پر مجبور کردیا ہے۔جہاں ہمارے ملک میں ہر بیس منٹ میں زنا بالجبر کا ایک مقدمہ درج ہوتا ہے وہیں طالبان کے ملک افغانستان میں بیس دن میں بھی ایک مقدمہ درج نہیں ہوتا۔یہ وہی طالبان ہیں جنھیں دنیا جاہل اور گنوار کے القاب سے نوازتی ہے۔دوسری طرف عرب اسلامی ملکوں میں شاذ و نادر ہی اس طرح کے واقعات پیش آتے ہیں۔

اس کا حل اسلامی تعلیمات میں پوشیدہے۔اس لیے کہ اسلام نے نہ صرف زنا سے روکا ہے،اس نے وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃًوَ سَآءَ سَبِیْلًا(الاسراء۔ 32)کہہ کر زنا کے قریب جانے تک سے منع کیا ہے۔اس نے اہل ایمان کو نظریں نیچی رکھنے،مردو خواتین کو ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی مذاق کرنے،تنہائی میں غیر مردوں کے ساتھ ملنے ملانے،بغیرمحرم خواتین کے سفر کرنے کی تعلیم اسی لیے دی ہے کہ خواتین کی عزت و عصمت محفوظ رہے۔دوسری طرف اس کی جنسی تسکین کے لیے بالغ ہونے پر اپنی پسند کا نکاح جلدکرنے اور نکاح کو آسان کرنے کی ہدایت فرمائی۔اسلام نے عورت کو ایک طرف تجارت کرنے،حسب ضرورت ملک کے لیے اپنی خدمات دینے کی اجازت عطا کی لیکن اسی کے ساتھ مردوں کو ان کی عفت و عصمت کا محافظ بنایا اور کسی جرم کے کے ارتکاب پر سرعام سخت سزائیں دینے کا اہتمام کیا۔اس نے بغیر کسی عصبیت کے عدل کرنے کی تلقین کی۔اسلام کو بدنام کرنے والواں کو مسلم عرب ممالک کا جرائم ریکارڈ بھی دیکھنا چاہئے۔حالانکہ ابھی وہاں مکمل اسلامی نظام نافذ نہیں ہے۔اگر مکمل اسلامی نظام نافذ ہوجائے تو صنعاء سے حضر موت تک ایک عورت سونا اچھالتے ہوئے تنہا سفر کرے گی اور کوئی اس کا بال بیکا نہیں کرسکے گا۔مرد کسی خاتون کی طرف بری نظر اٹھاتے ہوئے بھی خوف کھائے گا کہ کہیں اس جرم کے بدلے میں اس کی آنکھیں نہ نکال لی جائیں۔دنیاوی خوف کے ساتھ ہی آخرت میں خدا کی پکڑ اور جہنم کا ہولناک عذاب اسے گناہوں سے باز رکھے گا۔اسلام اپنی تعلیم و تربیت اور عدل و انصاف کے ذریعہ ایک ایسا معاشرہ میں وجود میں لاتا ہے جس میں زنا کا ایک مجرم خود ہی عدالت میں حاضر ہو کر اپنے جرم کا اقرار کرکے صرف اس لیے سزا کا طلب ہوتا ہے تاکہ وہ آخرت میں عذاب سے بچ سکے۔اب یہ ذمہ داری بھارتی مسلمانوں کی ہے کہ وہ اسلام کی مذکورہ تعلیمات سے عملاً اہل ملک کو واقف کرائیں۔کسی بھی مذہبی اور آسمانی کتاب میں روشن تعلیمات بے معنیٰ ہیں اگر ان پر ایمان لانے والے ہی عمل نہ کریں۔ان مذہبی تعلیمات کا حال وہی ہوتا ہے جو ”بیٹی پڑھاؤ اور بیٹی بچاؤ“ منصوبے کا ہورہا ہے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: