الیکشن کی آمد پر چند سوال
✍️شکیل رشید ایڈیٹر ممبئ اردو نیوز
___________________
مہاراشٹر کے اسمبلی الیکشن ۲۰ ، نومبر کو ہونا ہیں ، اس کی تیاری زور و شور سے کی جا رہی ہے ۔ تیاری سیاسی پارٹیاں اور وہ سیاست داں کررہے ہیں ، جن کی قسمت اس الیکشن میں ہار اور جیت کی بنیاد پر اُلٹ پلٹ سکتی ہے ۔ رہے عام شہری ، تو اس تیاری کے ان کے لیے کوئی معنیٰ نہیں ہیں ، انہیں تو بس ہر الیکشن کی طرح اپنے ووٹ کسی نہ کسی کو دینا ہیں ، پھر پانچ سال انہیں ، جو جیتے اور ہارے ہیں ، جھیلنا ہے ، پھر پانچ سال بیتنے کے بعد آئندہ کے الیکشن کے لیے کسی نہ کسی کو ووٹ دینے کا مَن بنانا ہے ۔ عام آدمی کی قسمت میں بَس یہی ہے ۔ ہاں ، یہ سچ ہے کہ اس کے پاس ووٹ کی صورت میں ایک بہت بڑی طاقت ہے ، اور عام انسان اس ووٹ کی طاقت کے بَل پر حکومتوں ک درواُلٹ پلٹ سکتا ہے ، بلکہ اُلٹتا پلٹتا رہتا ہے ، لیکن اس کی حالت میں کوئی سُدھار نہیں آتا ! یہ ہندوستانی جمہوریت کا کمال ہے ، کہ جو عوام سیاست دانوں کو منتخب کرکے ایوانوں میں پہنچاتی ہے ، وہی سیاست دانوں کی ٹھوکر پر رہتی ہے ۔ جب عوام کے منتخب نمائندے اپنے قافلے لے کر سڑکوں پر نکلتے ہیں ، تو یوں لگتا ہے جیسے کہ راجوں مہاراجوں کا دور لوٹ آیا ہے ۔ یہ منتخب عوامی نمائندے نہ عوام کی فکر کرتے ہیں اور نہ ہی عوامی کام کرانے کے تئیں سنجیدہ ہوتے ہیں ، بس پانچ سال کے دوران یہ ’ کچھ کام ‘ کروا دیتے ہیں ، وہ بھی اپنے مَن پسند ’ کنٹراکٹروں ‘ کے ذریعے اور معقول ’ فیصد ‘ جیب میں ڈال کر ۔ یہ منتخب عوامی نمائندوں کی جو کھیپ کی کھیپ ایوانوں تک پہنچتی ہے عیش کرتی اور عوام کو ’ رعایا ‘ مان کر اُن پر حکومت کرتی ہے ۔ سوال ہے کہ عام لوگ کیوں ایسوں کو ایوانوں تک پہنچانے کے لیے فکر کریں گے ؟ جب یہ پتا ہے کہ منتخب ہونے کے بعد یہ کوئی کام نہیں کرنے والے تو عام لوگوں میں سے اچھی خاصی تعداد سوچتی ہے کہ پولنگ بُوتھوں تک جاکر کیا فائدہ ، ووٹ نہیں دینا ہے ! اس بار مہاراشٹر میں جن سیاست دانوں کو مختلف پارٹیوں نے ٹکٹ دے کر امیدواری دی ہے ، اُن میں ایسے سیاست داں شامل ہیں جِن پر کرپشن اور بدعنوانی کے الزامات عائد ہوئے ہیں ، کچھ ایسے ہیں جن کی تفتیش کی جا رہی ہے ، کیا ایسوں کو ووٹ دیا جانا چاہیے ؟ یقیناً نہیں ، لیکن انہیں ووٹ ملتے ہیں ، جذبات کی بنیاد پر ، مذہب اور دھرم کے نام پر اور تشدد و خوف و دہشت کی بنیاد پر ۔ انہیں ان کے ’ کاموں ‘ کی بنیاد پر ووٹ نہیں ملتے ۔ مہاراشٹر اور شہر ممبئی کے محلوں اور گلیوں و سڑکوں کا کوئی مشاہدہ کر لے ! شہر ممبئی میں جِس قدر ترقی کے کام کیے جا رہے ہیں ، شہر اُسی قدر گدلا اور بدبودار ہوتا جا رہا ہے ۔ کنٹراکٹ کے نام پر اربوں روپیے اِدھر سے اُدھر ہوتے ہیں ، لیکن عام انسان ’ اسموگ ‘ میں سانس لینے پر مجبور ہے ۔ افسوس کہ جو سیاست داں عوامی زندگیوں سے کھیلتے ہیں وہی امیدواری کے مطالبہ میں آگے آگے ہوتے ہیں اور ٹکٹ بھی پاتے ہیں ! خیر اب الیکشن سر پر ہیں ، مختلف حلقوں سے کوشش کی جا رہی ہے کہ کرپٹ اور فرقہ پرست امیدواروں کی شکست کے لیے ایسے امیدواروں کو لوگ ووٹ دیں جن کی امیج صاف ستھری ہے ۔ یہ ایک اچھی کوشش ہے ، لیکن کیا ایسے امیدوار واقعی میں مل جائیں گے جن کی امیج ساف ستھری ہو ، اور کیا وہ کامیاب بھی ہو جائیں گے ؟ اس سوال پر ہم سب کو غور کرنا ہے ۔اور اس سوال پر بھی کہ فسطائی عناصر کو کیسے ہرایا جائے ، اور کیسے لوگ ووٹ دینے کے لیے بوتھوں تک پہنچیں ؟