ایس ایم خان کی یاد میں
از: معصوم مراد آبادی
_____________________
انڈین انفارمیشن سروس (IIS) کے سبکدوش آفیسر ایس ایم خان نے گزشتہ 17 نومبر 2024 کی رات نئی دہلی کے ایک اسپتال میں داعی اجل کولبیک کہا۔ جوں ہی ان کے انتقال کی خبر سوشل میڈیا پر عام ہوئی تو ہرطرف تعزیتوں کو سلسلہ شروع ہوگیا۔ ہر کسی نے ان کی شرافت، نرم مزاجی اور ہمدردی کے جذبوں کو خراج تحسین پیش کیا۔
میں نے کوئی تین دہائیوں تک انھیں قریب سے دیکھا اور ان کی صلاحیتوں کا ادراک بھی کیا۔ عام طورپر مسلم افسران اپنے فرقہ کے لوگوں سے ایک فاصلہ بناکر رکھتے ہیں، لیکن ایس ایم خان کی خوبی یہ تھی کہ وہ جس عہدے پر بھی رہے وہاں انھوں نے عام مسلمانوں سے قربت کا اظہار کیا اور ہر قدم پر ان کے کام آئے۔ انھوں نے متعدد نوجوانوں کو سرکاری ملازمتیں دلوانے میں تعاون کیا، جن میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل تھے۔
ایک خوش مزاج، باوقار اور راست باز انسان کے طور پر وہ میڈیا برادری میں بھی مقبول تھے۔اسی لیے ان کے انتقال پر سب سے زیادہ سنّاٹا مجھے میڈیا سینٹر ہی میں محسوس ہوا۔ بیشتر سینئر صحافیوں نے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کے لیے” Noble soul ” کی اصطلاح استعمال کی ۔ وہ واقعی اس کے حقدار تھے۔
ایس ایم خان کا پورا نام شہزادمحمدخاں تھا۔ مگر دوستوں کی محفلوں میں وہ ’شہزاد بھائی‘ اورسرکاری حلقوں میں ’خان صاحب‘ کے نام سے مشہور تھے۔ میں نے سرکاری دفتروں میں ان کی جو قدرومنزلت دیکھی وہ کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ اس کی بڑی وجہ ان کی ایمانداری اور دیانت داری تو تھی ہی، سب کے کام آنے کا جذبہ بھی تھا۔ یوں تو وہ تمام ہی صحافیوں کے کام آتے تھے، لیکن اردو صحافیوں کے ساتھ ان کا رویہ خاص ہمدردی کا تھا۔مجھے یاد ہے کہ جب وہ سابق صدرجمہوریہ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کے پریس سیکریٹری تھے تو راشٹر پتی بھون کی ایٹ ہوم جیسی اہم تقریبات میں انگریزی اور ہندی صحافیوں کے ساتھ ہم جیسے اردو صحافیوں کو بھی مدعو کیا جاتا تھا۔ پی آئی بی میں بھی انھوں نے اردو صحافیوں اور اردو یونٹ کا خاص خیال رکھا۔
وہ انڈین انفارمیشن سروس (آئی آئی ایس)کے اہل کار تھے، جہاں انھوں نے 1982 میں اپنا کیریر شروع کیا تھا۔ اپنی مخصوص وضع قطع،بردباری اور وقار کی وجہ سے وہ الگ ہی پہچانے جاتے تھے ۔ پی آئی بی میں ان کے چاہنے والوں کی بڑی تعداد تھی۔ ان کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ تھی کہ عام افسران کے برعکس کام کو الجھانے کی بجانے سلجھانے پر یقین رکھتے تھے۔ اس لیے پی آئی بی میں ہر ضرورت مند صحافی ایس یم خان کو تلاش کرتا ہوا آتا تھا اور ان سے مل کر بامراد واپس ہوتا تھا۔وہ بے باک اور نڈر بھی بہت تھے۔
مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ یہ 2008 کا ذکر ہے۔ سری نگر میں پی آئی بی نے آل انڈیا ایڈیٹرس کانفرنس منعقد کی تھی۔ ایس ایم خان پی آئی بی کے اعلیٰ افسر کے طورپر اس کے میزبان تھے۔اس کانفرنس میں تمام زبانوں کے سرکردہ ایڈیٹر شریک تھے۔ کانفرنس کے اختتام پر ہمیں کشمیر کے خوبصورت سیاحتی مقام گل مرگ لے جایا گیا۔ سیر و سیاحت کے بعد جب ہم سری نگر واپس آرہے تھے تو راستے میں ایک مقام پر فوجی گاڑیوں نے ہمارے قافلے کو اپنے نرغہ میں لے لیا۔ بندوقین تنی ہوئی تھیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔صورتحال بڑی نازک معلوم ہوتی تھی۔ کسی کو ٹس سے مس ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ سب سے پہلے ایس ایم خان اپنی گاڑی سے اترے۔فوجی کمانڈر نے بڑے تلخ لہجے میں ان سے پوچھا کہ ”آپ لوگ کون ہیں؟“ شہزاد بھائی نے بڑے اطمینان کے ساتھ اپنا اور پورے قافلے کا تعارف کرایا تو فوجی افسر مزید طیش میں آگیا۔ ”اگر آپ سرکاری دورے پرہیں تو پیچھے جب آپ کے قافلے کو چیکنگ کے لیے ہمارے فوجیوں نے رکنے کا اشارہ کیا تو آپ وہاں کیوں نہیں رکے؟ کوئی انہونی بھی ہوسکتی تھی۔“ سوالوں کی ایک بوچھار تھی جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ ہم اپنی گاڑی میں خاموش بیٹھے تھے۔سب کی تلاشی لی گئی۔دراصل گل مرگ کے راستے میں کہیں فوجی جوانوں نے ہمارے قافلے کو چیکنگ کے لیے رکنے کا اشارہ کیا تھا، مگر ڈرائیور نے اس پر دھیان نہیں دیا۔ وجہ یہ تھی کہ ہمارے ساتھ خود سیکورٹی اہل کار ہماری حفاظت پر مامورتھے۔لیکن وہاں فوج کا اپنا رنگ ہے جس کے سامنے مقامی پولیس کی کوئی اہمیت نہیں۔فوجی اشاروں کو نظرانداز کرنا خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔خطرہ ٹل چکا تھا اور ہم بعافیت سری نگر میں اپنے ہوٹل تک پہنچ گئے۔
شہزاد بھائی ایک بلند آہنگ شخصیت کانام تھا۔ان کا پرتو بڑا متاثر کن تھا۔ چوڑی پیشانی، دراز قد، سرخی مائل گورا رنگ، لب شیریں، گفتگو اور لہجہ نرم۔وہ ایک نیک اور صاف دل انسان تھے۔ بنیادی طور پر وہ علامہ اقبال کے اس شعر کی تعبیر نظر آتے تھے۔
نرم دمِ گفتگو، گرم دمِ جستجو
رزم ہو یابزم ہو، پاک دل وپاکباز
شہزاد محمدخاں کی پیدائش 15/جون 1957 کو یوپی کے ضلع بلند شہرکے قصبے خورجہ میں ہوئی تھی۔ان کا خاندان وکیلوں کا خاندان تھا۔ خود انھوں نے بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کی تھی اور یونیورسٹی میں ٹاپ کرنے کی وجہ سے چانسلر نے گولڈ میڈل سے بھی نوازا تھا۔ اس کے بعد وہ معاشیات کی تعلیم حاصل کرنے انگلینڈ کی یونیورسٹی آف ویلس گئے۔ 1982 میں آئی ایس ایس سروس میں آنے کے بعدان کا سب سے زیادہ وقت ملک کی سب سے بڑی تحقیقاتی ایجنسی سی بی آئی کے ساتھ گزرا، جہاں انھوں نے تقریباً 13 برس تک ترجمان کی خدمات انجام دیں۔ وہ ایک زمانے میں سی بی آئی کا چہرہ بن گئے تھے اور روز ہی قومی اور بین الاقوامی میڈیا کو بریف کرتے نظر آتے تھے۔ ان میں بلا کی خوداعتمادی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب سی بی آئی ہرشد مہتہ کیس، راجیو گاندھی قتل کیس اور بوفورس جیسے معاملات کی جانچ کررہی تھی۔ ان کا سب سے بہترین دور سابق صدرجمہوریہ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کے ساتھ گزرا، جہاں وہ صدرجمہوریہ کے چیف ترجمان کے طورپر تعینات تھے۔ ڈاکٹر کلام کو ان پر بڑا اعتماد تھا۔ انھوں نے ڈاکٹر کلام کے ساتھ متعدد ملکی اور غیر ملکی دورے کئے۔ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے میری تجویز پر صدرجمہوریہ کے ساتھ گزارے ہوئے ایام پر ایک کتاب ”دی پیوپلز پریزیڈنٹ“ تصنیف کی جس کا بعد میں اردو اور ہندی ترجمہ بھی ہوا۔
ایس ایم خان نے فلم ڈویزن کے ڈائریکٹر کے طورپر بھی خدمات انجام دیں۔وہ پی آئی بی کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل اور پریس رجسٹرار آف انڈیا کے عہدوں پر بھی فائز رہے۔انھوں نے تین برس تک دوردرشن میں ڈائریکٹر جنرل (نیوز)کی خدمات بھی انجام دیں۔ یہاں ان کا سب سے بڑا کارنامہ خبروں کے علاحدہ اردو ڈیسک کا قیام تھا جس کے تحت اردو خبروں کے یومیہ دس بلیٹن نشر ہوتے تھے۔انھوں نے دوردرشن کی خبروں کے معیار کو بھی بلند کیا۔
2017 میں سرکاری ملازمت سے سبکدوشی کے بعد ایس ایم خان سماجی خدمت کے کاموں میں مصروف ہوگئے۔اس سے قبل 2014 میں انھیں انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر کا ٹرسٹی اور 2019 میں سب سے زیادہ ووٹوں سے سینٹر کا نائب صدر چنا گیا تھا۔ وہ سینٹر کے حالیہ الیکشن میں بھی بی او ٹی ممبر کے طورپر کامیاب ہوئے تھے۔وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کورٹ کے ممبر بھی رہے اور یونیورسٹی کی ایکزیکٹیو کونسل میں صدرجمہوریہ کے نمائندے بھی رہے۔انھوں نے جامعہ ہمدرد میں ریزیڈنشل کوچنگ اکیڈمی کے ڈائریکٹر کے طورپر سول سروس کے امیدواروں کو بہترین گائڈینس فراہم کی۔ایس ایم خان نے حکومت ہند کے اعلیٰ آفیسر کے طورپر جو عزت ووقعت حاصل کی، وہ کم ہی افسران کو حاصل ہوتی ہے۔