Slide
Slide
Slide

عصری اداروں میں مدرسے کے طلبہ کی مایوسی: ایک حقیقت پر مبنی جائزہ

عصری اداروں میں مدرسے کے طلبہ کی مایوسی: ایک حقیقت پر مبنی جائزہ

از-محمد اسامہ سمستی پوری

جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی

____________________

دہلی اور اس جیسی دوسری ریاستوں میں مدرسے کے فارغین کی ایک بڑی تعداد، ڈاکٹر، وکیل یا کسی دیگر نمایاں پیشے کا خواب لے کر یہاں کا رخ کرتی ہے۔ یہ طلبہ اپنی صلاحیتوں کو آگے بڑھانے اور نئے مواقع حاصل کرنے کے جذبے کے ساتھ آتے ہیں۔ لیکن یہاں آنے کے بعد جب ان کی توقعات اور حقیقت کا آپس میں ٹکراؤ ہوتا ہے، تو ان میں سے کئی نوجوان اپنے ماضی سے شکوہ کرتے اور مستقبل سے مایوسی کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔

یہ طلبہ اکثر جذبات کی رو میں بہہ کر بغیر کسی منصوبہ بندی اور مناسب تیاری کے عصری دانش گاہوں کا رخ کرتے ہیں۔ چند موٹیویشنل ویڈیوز اور تقاریر سے متاثر ہو کر وہ سوچتے ہیں کہ کامیابی کے دروازے ان کے لیے کھلے ہیں۔ لیکن جب انہیں یونیورسٹی کے تعلیمی ماحول اور مدرسے کے نظام سے مختلف ایک نئے تعلیمی ڈھانچے کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو وہ احساس کمتری میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ نتیجتاً، وہ اپنی ناکامیوں کا الزام اپنے ماضی کے تعلیمی نظام یا اپنے مدرسے پر ڈالنے لگتے ہیں۔

مایوسی کے اہم وجوہات

  • 1. بغیر منصوبہ بندی کے فیصلے:

طلبہ اکثر جلدبازی میں فیصلہ کرتے ہیں اور یونیورسٹیز آنے سے قبل اپنی صلاحیتوں، مالی وسائل، اور تعلیمی تقاضوں کا جائزہ نہیں لیتے۔

  • 2. نامکمل تیاری :

عصری اداروں کے نصاب امتحان ناواقفیت

  • 3. صحیح رہنمائی کا فقدان:

مدرسے سے نکلنے کے بعد، مناسب رہنمائی اور تجربہ کی کمی کی وجہ سے یہ طلبہ صحیح راستے کا تعین نہیں کر پاتے۔

  • 4. جذباتی فیصلے:

موٹیویشنل ویڈیوز یا تقاریر سن کر وقتی جوش میں آنے والے طلبہ اکثر زمینی حقائق سے ناواقف ہوتے ہیں۔

  • 5. نامکمل رہنمائی:

کچھ افراد اور تنظیمیں ویڈیوز، اشتہارات یا سیمینارز کے ذریعے مدرسے کے طلبہ کو وکیل، ڈاکٹر، یا آئی اے ایس افسر بننے کی ترغیب دیکر انھیں بیچ بھنور میں بے یار و مددگار چھوڑ دیتے ہیں ۔
حالانکہ محض جوش دلانا کافی نہیں، اور نہ ہی صرف جذباتی تقاریر یا ویڈیوز کے ذریعے طلبہ کو بڑے بڑے خواب دکھا نا کافی ہے۔ انہیں زمینی حقائق، چیلنجز، اور ان کے حل سے آگاہ کرنا بھی ضروری ہے۔
مگر افسوس ان ویڈیوز اور اشتہارات میں عموماً طلبہ کو صرف کامیابی کے خواب دکھائے جاتے ہیں، لیکن کامیابی کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں کو عبور کرنے کے لیے کوئی عملی رہنمائی نہیں دی جاتی۔

عملی رہنمائی کے مراکز فقدان:

ان لوگوں کو چاہیے کہ وہ رہنمائی کے ایسے مراکز قائم کریں جہاں مدرسے کے طلبہ کو ان کے کیریئر کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے مشورے اور تربیت فراہم کی جا سکے۔

طویل مدتی تعاون:

صرف ایک ویڈیو یا اشتہار کے ذریعے جوش دلانے کے بجائے ان طلبہ کے لیے ایک مکمل نظام تیار کیا جائے جو انہیں تعلیم اور روزگار کی دنیا میں کامیاب ہونے میں مدد فراہم کرے۔

صحیح رہنمائی:

طلبہ کو مدرسے سے نکلتے وقت ہی بہتر رہنمائی فراہم کی جائے تاکہ وہ اپنے مستقبل کا لائحہ عمل طے کر سکیں۔

منصوبہ بندی:

دہلی یا کسی بڑے تعلیمی مرکز میں آنے سے قبل مکمل تیاری کریں اور اپنی صلاحیتوں کے مطابق کورسز کا انتخاب کریں۔

حوصلہ افزائی کے ساتھ حقیقت پسندی:

موٹیویشنل ویڈیوز سننے کے ساتھ ساتھ زمینی حقائق کو سمجھنے کی بھی کوشش کریں تاکہ حقیقت پر مبنی فیصلے کیے جا سکیں۔

ذمہ دار افراد کی عملی رہنمائی:

ان افراد کے لیے جو اشتہارات یا ویڈیوز کے ذریعے طلبہ کو ترغیب دیتے ہیں، یہ لازمی ہے کہ وہ طلبہ کے ساتھ طویل مدتی بنیادوں پر جڑے رہیں
اور ایسی تربیتی ورکشاپس اور رہنمائی کے پروگرام منعقد کریں جہاں طلبہ کو تمام ضروری معلومات اور مہارتیں سکھائی جا سکیں۔

یہ امر ضروری ہے کہ مدرسے کے طلبہ نہ صرف اپنی صلاحیتوں کو پہچانیں بلکہ حقیقت پسندانہ سوچ کے ساتھ اپنے خوابوں کی تکمیل کی طرف بڑھیں۔ کامیابی کے لیے محنت، تیاری، اور صحیح حکمت عملی شرط ہے۔ اسی طرح، ان لوگوں کے لیے بھی ضروری ہے جو طلبہ کو خواب دکھاتے ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داری سمجھیں اور طلبہ کو مکمل رہنمائی فراہم کریں تاکہ یہ نوجوان صرف خواب دیکھنے والے نہ رہیں بلکہ ان خوابوں کو عملی جامہ پہنا سکیں۔ ان شاءاللہ، اس حوالے سے ایک مفصل تحریر جلد قارئین کی خدمت میں پیش کی جائے گی۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: